روزہ بھی مثلِ نماز فرضِ عین ہے، روزہ عربی زبان میں" صوم" کو کہتے ہیں
اور اس کا معنیٰ روکنا ہے، اِصطلاحِ شرع
میں مسلمان کابہ نیتِ عبادت صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک اپنے آپ کو کھانے پینے
اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔
روزہ کی قبولیت کے ذرائع میں روزہ
کے مقاصد کو مدِّنظر رکھا جائے گا تو اس
کی قبولیت کا قوی اِمکان ہے، یعنی یوں
کہنا غلط نہ ہوگا کہ روزہ کے مقاصد کو پورا کرنا ہی اس کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔
تقوی روزے کی
قبولیت کا ذریعہ:
قرآن پاک میں اِرشادِ ربّانی ہے
کہ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے، جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں
پرہیزگاری ملے۔(سورۃ بقرہ:183)
معلوم ہوا کہ روزوں کی فرضیّت کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری ہے، تقوٰی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہوجانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک
معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے، یعنی اللہ پاک کی رِضا کا حصول اور تقوی کا حصول
نیکیوں کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچنا ہے
اور یہی روزہ کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے۔
اللہ پاک کی
کبریائی کا اظہار:
روزہ کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ مسلمان اللہ
تعالی کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کرے، اب جب مقصد اظہارِ عظمت و کبریائی
کہ اللہ پاک جاہ و جلال اونچی شان والا ہے، تو اس کی شان کے عین لائق یہ ہے کہ اللہ پاک کی
بندگی اس کے حق کے مطابق کرے اور حق یہ ہے کہ اس کی نافرمانی والے کاموں کو روزہ
میں چھوڑ دے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم ہے:جو روزہ دار بُری بات کہنا اور بُرے کام کرنا نہ چھوڑے ، اللہ تعالی کو اس
کے بھوکے پیاسے رہنے کی کچھ پرواہ نہیں۔(بخاری شریف)
تو یہ بھی اس کی قبولیت کا ایک ذریعہ ہے کہ
نافرمانی والے کاموں کو چھوڑ دیا جائے، ایک اور اِرشادِ پاک ہے:روزہ محض کھانے پینے سے
رُکے رہنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ کی اصل
یہ ہے کہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے بچاجائے۔(حاکم)
تو یہ تمام مقاصد روزہ کی قبولیت
کا سبب ہیں کہ محض بھوکا پیاسا رہنا روزہ نہیں، بلکہ لغوکاموں کو ترک کرنا اس کی قبولیت کا
ذریعہ ہے ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں
باکمال روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم