.png)
آقا کریم ﷺ اپنے
نواسوں اور نواسیوں سے بہت محبت فرماتے اور
ان کی پیدائش پر تہنیک واذان وغیرہ کا اہتمام بھی فرماتے جیسے روایت ہے، ابو رافع رضی
اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ جب امام حسن رضی اللہُ عنہ پیدا ہوئے تو رسولِ کریم ﷺ نے
آپ کے کان میں اذان دی۔(ترمذی،3/173،حديث:1519)
آقا ﷺ کو اپنے تمام نواسے نواسیوں میں سے سب سے زیادہ محبت حسنین کریمین رضی اللہ
عنہما سے تھی، حضور نبی کریم ﷺ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اپنے پھول فرماتے
اور انہیں سونگھا کرتے۔
(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے
فرمایا کہ حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں
میرے دو پھول ہیں ۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ سے پوچھا
گیا کہ اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:حسن اورحسین اور حضور ﷺ
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے
فرماتے:میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ،پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹالیتے۔
(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
حضرت حسن سے محبت و دعا: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں
رسول الله ﷺ کے ساتھ دن کے ایک حصہ میں نکلا حتی کہ آپ جناب فاطمہ کے ڈیرے پر آئے
تو فرمایا کہ کیا یہاں بچہ ہے؟ کیا یہاں بچہ ہے؟یعنی جناب حسن رضی اللہُ عنہ تو نہ ٹھہرے کہ حسن رضی اللہُ عنہ دوڑتے
ہوئے آگئے حتی کہ ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے صاحب کے گلے لگ گئے،پھر رسول الله ﷺ
نے فرمایا:الٰہی!میں اس سے محبت کرتا ہوں تو تو بھی اس سے محبت کر اور جو اس سے
محبت کرے اس سے محبت کر۔
(مشکاۃ المصابیح،2/436-437،حدیث:6143)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و دعا:نبیِّ کریم
ﷺ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:اے اللہ!میں اس (یعنی حسین) سے محبت کرتا ہوں
تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت فرما۔(ترمذی، 5/427، حدیث:3794)
حضور اکرم ﷺ اپنے نواسوں کا بوسہ فرماتے:حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِّ کریم ﷺ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی
اللہُ عنہما کے ساتھ گھر سے باہر نکلے، آپ
نے ایک کندھے پر حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ کو اور
دوسرے کندھے پر امام حسین رضی اللہُ عنہ کو سوار فرمایا ہوا تھا،رحمتِ عالَم ﷺ کبھی امام
حسن رضی اللہُ عنہ کا بوسہ لیتے تو کبھی
امام حسین رضی اللہُ عنہ کا بوسہ لیتے یہاں تک کہ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔(مستدرک،
4/156، حدیث:4835)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بچوں سے شفقت و محبت کا انداز اپنانا چاہیے،ان کو
بوسہ بھی دیا جائے، پیار بھی کیا جائے، ان کے ساتھ کھیلا جائے اور ان کو خوش کیا
جائے ۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنی ،اپنے محبوب ﷺ اور آپ کی آل پاک
کی کامل پکی سچی محبت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں ہمارا بیڑا پار
فرمائے ۔آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ
.png)
آقا ﷺ اپنے تمام نواسوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔حضور ﷺ کے
پانچ نواسے تھے :
1 -حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ۔حضور
ﷺ ان سے بہت محبت فرماتے تھے یہاں تک کہ جب آقا ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے
تو جو ان کے سامنے بیٹھے تھے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے جو کہ حضرت زینب رضی
اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔
2-حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ۔
3-4-5حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کے شہزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ،حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت محسن
رضی اللہ عنہ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد مبارکہ کو اللہ پاک نے
عمر دراز بالخیر عطا فرمائی جبکہ باقی شہزادیوں کے بیٹے بچپن میں وصال فرما گئے۔
حضرت عبداللہ ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی
الْقُرْبٰىؕ (پ25،الشوریٰ:
23)ترجمہ: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے
قرابت دار کون ہیں؟ارشاد فرمایا:علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے یعنی حسن و حسین
رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (معجم کبیر،3/47،حدیث:2641)
حضور ﷺ کی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے
محبت:رسول اللہ ﷺ حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کو
اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا
رسول اللہﷺ! کتنی اچھی سواری ہے!آپ نے فرمایا: نعم الراکبان ھمایعنی دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں! (مصنف ابن ابی شیبہ،7/ 514،حدیث:21)
نواسے
سے محبت کا انوکھا انداز:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میرے ان
دونوں کانوں نے سنا اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے امام حسن رضی اللہ
عنہ یا امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا ہوا ہے،شہزادے کے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ
کے دونوں پاؤں پر ہیں اور آپ فرما رہے ہیں:اوپر چڑھو! چھوٹی آنکھوں والے! شہزادے
اوپر چڑھے یہاں تک کہ اپنے دونوں قدم ناناجان کے مبارک سینے پر رکھ دیئے۔ حضور ﷺ
نے فرمایا :اپنا منہ کھولو !پھر ان کا بوسہ لیا اور دعا کی: اَللّٰھمَّ انِّی اُحِبّهُ فَاَحِبَّهُیعنی اللہ پاک میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے۔ (معجم
کبیر، 3/49 ،حدیث:2653)
حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضور ﷺ کے سامنے حضرت حَسن اور حُسین رضی اللہ
عنہما کُشتی کر رہے تھے،جانِ ایمان ﷺ فرماتے تھے :حسن جلدی کرو! تو خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رضی
اللہُ عنہا
نے اپنے بابا جان کی بارگاہ میں عرض کی:یاسول اللہ ﷺ!آپ حَسن کی مدد فرما رہے
ہیں،گویا کہ یہ آپ کو حُسین سے زیادہ محبوب ہیں؟ شاہِ انس و جان ﷺ نے اِرشاد
فرمایا:بے شک سیِّدالملائکہ جبرئیل علیہ السلام حُسین کی مدد کر رہے ہیں،اس
لئے مجھے یہ پسند ہوا کہ میں حسن کی مدد
کروں۔
(خصائص کبری،2/465)
پیاس کیسے بجھی؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم رسول اللہ ﷺ
کے ساتھ (ایک سفر پر) روانہ ہوئے تو راستے میں ایک جگہ آپ نے امام حسن و امام حسین
رضی اللہ عنہما جو اپنی والدہ ماجدہ رضی
اللہ عنہا کے ساتھ تھے۔ان کے رونے کی آواز
سنی،آپ جلدی جلدی ان دونوں کے پاس پہنچے اور اپنی شہزادی سے پوچھا: میرے بیٹے کو کیا
ہوا ہے؟انہوں نے عرض کی:انہیں پیاس لگی ہے۔رسول اللہ ﷺ پانی تلاش کرنے کے لیے ایک
مشکیزے کی طرف بڑھے (لیکن اس میں پانی نہ
تھا) اس دن پانی نایاب تھا اور لوگ پانی کے طلبگار تھے۔آپ نےآواز لگائی: کیا تم میں
سے کسی کے پاس پانی ہے؟ لوگوں نے اپنے مشکیزوں میں تلاش کیا لیکن کسی کو ایک قطرہ
پانی بھی نہ ملا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ان دونوں میں سے ایک مجھے پکڑاؤ۔انہوں نے پردے کے نیچے سے
شہزادے كو حضور ﷺکی طرف بڑھا دیا،اس وقت وہ مچل مچل کر رو رہے تھے،آپ نے انہیں پیار
سے سینے لگایا اور پھر اپنی مبارک زبان ان کے لیے نکال دی جسے وہ چوسنے لگے یہاں تک کہ پرسکون ہو گئے اور پھر ان
کے رونے کی آواز نہیں آئی۔دوسرے شہزادے اب تک اسی طرح رو رہے تھے۔لہٰذا آپ نے خاتونِ
جنت رضی اللہُ عنہا سے دوسری شہزادے کو لے کر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تو پرسکون ہو گئے اور
ان کے رونے کی آواز بند ہو گئی۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں ان دونوں شہزادوں سے محبت کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول
اللہ ﷺ کو ان کے ساتھ ایسا کرتے دیکھا ہے!(معجم کبیر، 3/50، حدیث: 2656)
اللہ پاک کی ان سب پر رحمت ہو اور ان کے صدقے میں ہماری بلا
حساب و کتاب بخشش و مغفرت ہو۔ ہمیں بھی عشقِ اہلِ بیت،ان سب کی زیارتیں اور چل مدینہ کی سعادت نصیب ہو۔اٰمین
.png)
حضور ﷺ کے نواسوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ایک قول کے مطابق
آپ کے پانچ نواسے ہیں:
1) حضرت عبداللہ(حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے)
2)حضرت حسن
3)حضرت حسین
4)حضرت محسن
5)حضرت علی رضی اللہ عنہم۔(نام رکھنے کے احکام،ص 134)
جن میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لعل امام حسن و حسین
کا ذکر کثیر ہے۔حضور ﷺ اپنے نواسوں( امام حسن و حسین) سے بے حد محبت فرمایا کرتے
تھے۔چنانچہ
بعدِ ولادت کرم نوازی:
جب امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اس دنیا میں تشریف
لائے تو حضور ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی، نام مبارک رکھا، گھٹی دی اور عقیقہ فرمایا۔حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ کا سر منڈانے اور سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ (معجم کبیر،
1/313، حدیث: 926)(مسند بزار، 2/315 ، حدیث: 743) یہ محبت کی علامت ہے۔
سینے سے لگایا:حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت حسنین کریمین دوڑتے ہوئے
حضور ﷺ کے پاس آئے تھے حضور ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا فرمایا:اولاد
بخیل اور بزدل بنا دینے والی ہے۔(مسند احمد،29/104،حدیث:17562)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:اولاد کو
(بخیل اور بزدل) فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محبت کا اظہار ہے یعنی
اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
(مراۃ المناجیح، 6/ 367)
کندھے پر سوار فرمایا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ حضرت امام حسن و امام حسین
رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر سے باہر نکلے،آپ نے ایک کندھے پر امام حسن رضی اللہ
عنہ کو اور ایک پر امام حسین رضی اللہ عنہ کو سوار کیا ہوا تھا۔رحمتِ عالم ﷺ کبھی
امام حسن رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیتے اور کبھی امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہاں تک
کہ آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔(مستدرک،4/ 156، حدیث: 4830)
حضور ﷺ کی شفقت و محبت :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشا کی نماز
پڑھ رہے تھے،جب آپ سجدے میں گئے تو امام حسن امام حسین رضی اللہ عنہما آپ کے مبارک
پیٹھ پر چڑھ گئے،آپ ﷺ نے سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے آہستہ
سے اتار دیا، جب آپ نے دوبارہ سجدہ کیا تو ان دونوں نے پھر اسی طرح کیا یہاں تک کہ
آپ نے پوری نماز ادا فرما لی اور ان دونوں کو اپنی زانوں پر بٹھا لیا،میں حضور ﷺ
کے پاس آیا اور عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں ان دونوں کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑ آؤں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، جب ایک بجلی
سی چمکی تو آپ نے دونوں سے فرمایا: اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ، تو روشنی اس وقت تک
ٹھہری رہی جب تک امام حسن حسین رضی اللہ
عنہما گھر میں داخل نہ ہوگئے۔(مسند احمد،3/ 592، حدیث: 10664)
فضائل و مناقب:حضور ﷺ کا امام حسن حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا
جا سکتا ہے کہ حضور ﷺنے آپ دونوں کے کثیر فضائل ذکر کیے جیسا کہ آپ نے حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما کو اپنی گود میں بٹھایا،
سونگھا، اپنے سینے سے لگایا، اپنی مبارک چادر میں لیا، آپ کو جنتی جوانوں کا سردار اور دنیا میں اپنا پھول فرمایا۔(مسند
احمد،10/ 184،حدیث: 266022)
حضرت محمد ﷺ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:اے اللہ پاک!میں
حسن حسین سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے
بھی محبت فرما۔ (ترمذی،5/427، حدیث: 3794)اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے
صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔آمین
.png)
حضرت سلمان فارسی
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم بارگاہِ رسالت میں بیٹھے تھے کہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!حسن
و حسین رضی اللہ عنہما مل نہیں رہے نا جانے کہاں چلے گئے ہیں!دن خوب نکلا ہوا تھا،
آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا:چلو! میرے بیٹوں کو تلاش کرو۔ہر
ایک تلاش کے لیے کسی نہ کسی راستے چل دیا جبکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چل پڑا
،آپ مسلسل چلتے رہے،حتی کے ہم ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے،(دیکھا کہ) حسن و حسین
رضی اللہ عنہما ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدھا ان کے پاس اپنی دم پر
کھڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں،آپ تیزی سے آگے بڑھے تو وہ اژدھا
آپ کو دیکھ کر سکڑ گیا اور پھر پتھروں میں چھپ گیا،آپ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما
کے پاس تشریف لائے اور دونوں کو الگ الگ کر کے ان کے چہروں کو صاف کیا اور ارشاد
فرمایا:میرے ماں باپ تم پر قربان! تم اللہ پاک کے ہاں کتنی عزت والے ہو۔(معجم کبیر،3/
65،حدیث:2677)
اسی طرح آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ میں بے شمار فضائل
بیان ہوئے ہیں:
حسنین کریمین سے محبت واجب ہے:حضرت عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب یہ آیت مبارکہ:قُلْ
لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (پ25،الشوری:23)(ترجمہ
کنزالایمان:تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔)نازل
ہوئی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: آپ کے قرابت دار کون ہیں؟ارشاد فرمایا:علی المرتضی، فاطمۃ الزہرا
اور ان کے بیٹے حسن و حسین رضی اللہ عنہم۔(معجم کبیر،11/351،حدیث
:12259)
فضائلِ حسنین کریمین بزبانِ مصطفےٰ:هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔(بخاری،
2/574،حدیث:3753)
.png)
حضور اکرم، نور مجسم، شاہِ بنی آدم ﷺ کی حسنین کریمین، سیدا
شبابِ اہلِ الجنۃ ،سبطینِ رسول،ریحانتینِ رسول ، راکبینِ دوشِ مصطفےٰ سے محبت مثالی
تھی۔آقائے شہزادگانِ خیر النساء سیدہ فاطمۃ الزہرا ﷺ و رضی اللہ عنہم نے حسنین کریمین
رضی اللہ عنہما کا خود عقیقہ فرمایا۔(مصنف عبد الرزاق،4/254،حدیث: 7993)جبکہ
عموماً والدین یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔پھر ان دونوں پاکباز ہستیوں کو گھٹی بھی
آپ نے دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)پھر جن کے بارے حضور فرمائیں کہ ”اے اللہ!میں
ان سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان سے محبت کر “ان کی شان کا کوئی احاطہ کر ہی نہیں
سکتا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام سے نبیِ
اکرم،نورِ مجسّم ﷺ کی خدمت میں گیا تو نبیِ پاک،صاحبِ لولاک ﷺ اس طرح تشریف لائے
کہ آپ کسی چیز کو گود میں لیے ہوئے تھے، مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے، جب میں
اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تومیں نے پوچھا:یہ کیا ہے جو آپ گود میں لیے ہوئے ہیں؟ حضور
ﷺ نے اسے کھولا تو حَسن و حُسین رضی اللہ عنہما آپ کی آغوش میں تھے،پھر آپ نے اِرْشاد فرمایا:یہ دونوں میرے بیٹے ،میری
بیٹی کے بیٹے ہیں۔الٰہی! میں ان دونوں سے مَحَبَّت کرتا ہوں تُو بھی ان سے
مَحَبَّت کر اور جو اِن سے مَحَبَّت کرے اس سے بھی مَحَبَّت کر! ۔(1)
حضور ﷺ نے ان سے محبت کو اپنی ذات سے محبت کرنا قرار دیا جیسا
کہ ابنِ ماجہ کی حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان
دونوں سےمحبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی
اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(2)
اللہ اکبر ! اندازہ لگائیے کہ حضور کے نزدیک امام حسن و حسین
رضی اللہ عنہما کا مقام و مرتبہ کس قدر
بلند اور آپ کی ان سے محبت کتنی زیادہ ہے!
حضور ﷺ آپ سے محبت کا جید صحابہ کرام کے سامنے بھی اظہار
فرماتے تھے جیسا کہ ایک دفعہ امیرُ المؤمنین حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حَسن اور حضرتِ اما م حُسین رضی
اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی
شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور
سوار بھی تو کیسے لاجواب ہیں۔(3)
پھر جنتی جوانوں کے سردار کی شان دیکھئے کہ سرکار مدینہ ﷺ
سے پوچھا گیا کہ أی اھل بیتک احب الیک کہ آپ کو اہلِ
بیت میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ تو ارشاد فرمایا:حسن اور حسین رضی اللہ عنہما۔حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ، پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹالیتے۔
(4)
کیسا خوبصورت اور
دلنشین انداز ہے!حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث
کے تحت فرماتے ہیں:حضور انہیں کیوں نہ سُونگھتے وہ دونوں تو حضور ﷺ کے پھول تھے
،پھول سُونگھے ہی جاتے ہیں،انہیں کلیجے سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لیے
تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سُونگھنا، ان سے پیارکرنا،انہیں لپٹانا چمٹا
نا سنتِ رسول ہے۔(5)
حضور ﷺ نے انہیں اپنا پھول قرار دیا۔چنانچہ ترمذی شریف کی حدیثِ
پاک ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: هُمَا رَيْحَانَتَايَ
مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین
دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔(6)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں محبتِ حسنین کریمین سے
لبریز ، خوبصورت اشعار فرمائے:
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش، ص77)
کیا
بات رضاؔ اُس چَمَنِسْتانِ کرم کی
زَہرا
ہے کلی جس میں حُسَیْن اور حَسَن پھُول
(1)(تاریخ الخلفاء، ص 149روضۃ الشهداء (مترجم) ، 1 /396)
(2)(مسند بزار،
2/315، حدیث:743)(مستدرک، 4/154، 155، حدیث:4826)
(3)(ترمذی ،5/427،حدیث:3794)
(4) (ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)
(5)(ترمذی ،5/432، حدیث: 3809)
(6) (ترمذی، 5/428، حدیث:3797)
(7)(مراۃ المناجیح،8/477)
.png)
حضرت محمد ﷺ کی
زندگی کا ہر پہلو انسانیت کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔آپ نے ہر رشتے کو بہترین طریقے
سے نبھایا اور اپنی محبت و شفقت سے ہر تعلق کو مضبوط بنایا۔آپ کی اپنے نواسوں حضرت
حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے محبت بے مثال تھی جو قیامت تک کے لیے ہر
مسلمان کے لیے رہنمائی ہے۔
امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو سینے سے
لگایا:حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت امام
حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما دوڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو حضور
اکرم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا:اولاد بخیل اور بزدل بنادینے
والی ہے۔
(مسند احمد،29/104،حدیث:17562)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اولاد
کو( بخیل اور بزدل)فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محبت کے اظہار کے
لیے ہے یعنی اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی
ہے۔(مراۃ المناجیح،6/ 367)
حضرت بَراء
بن عازِب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺامام حسن بن علی(رضی
اللہ عنہما) کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اوربارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں:الٰہی!
میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(ترمذی،5/432،حدیث:3808)
یعنی جس درجہ کی محبت ان سے میں کرتا ہوں تو بھی اسی درجہ کی
محبت کر یعنی بہت زیادہ ورنہ حضرت حسن پہلے ہی اللہ کے محبوب تھے۔(مراۃ المناجیح،
8 /383)
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا کہ حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)
جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہے ایسے ہی
دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں میں مجھے حضرات حسنین کریمین پیارے ہیں۔(مراۃ
المناجیح، 8/475)
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش، ص77)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی
طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح فرمائیں۔(مصنف عبد الرزاق، 4/254،حدیث:7993)
عام طور پر عقیقہ والدین کرتے ہیں لیکن امام حسن اور حسین
رضی اللہ عنہما کی ولادتِ باسعادت پروالدین نے نہیں بلکہ رحمتِ عالم ﷺ نے ہی اپنے
پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آقا ﷺ کو اپنے
نواسوں سے کیسی محبت تھی!
حضور ﷺ ان دونوں نونہالوں کو سونگھتے اور سینہ مبارک سے
لپٹاتے۔
(ترمذی،5/428،حدیث:
3797)
حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا:جس نے ان دونوں سے محبت کی اس
نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت
(یعنی دشمنی) کی اس نے مجھ سے عداوت (یعنی دشمنی) کی۔(ابنِ ماجہ،1/ 96، حدیث:143)
حضرت ابو بریدہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسی
دوران حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ
عنہما تشریف لائے،انہوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی،کم عمری کی وجہ سے گرتے
پڑتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم ﷺ نے جب انہیں
دیکھا تو منبر سے نیچے تشریف لے آئے،دونوں
شہزادوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ کا یہ ارشاد سچ ہے :
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ
اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕوَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(15)(پ28،التغابن:15) ترجمہ:تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ آ
زمائش ہی ہیں۔
میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے پڑتے آر ہے ہیں تو مجھ سے
صبر نہ ہو سکا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔(ترمذی،5/ 429،حدیث:
3799)
کس
زباں سے ہو بیان عزو شانِ اہلِ بیت
مدح
گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوان ِاہلِ بیت
(ذوقِ نعت ،ص71)
.png)
حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما حضورﷺ کی لاڈلی شہزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔انہی سے حضور ﷺ کی نسل پاک چلی۔یہ حضور ﷺ کا خاصہ ہے کہ آپ کی نسل پاک آپ کی لاڈلی شہزادی
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلی۔حضورﷺ اپنے
نواسوں سے بہت محبت فرماتے۔خاتم النبیین ﷺ
نے فرمایا: حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیثِ پاک کی طرف اشارے کرتے ہوئے اپنے ایک ایک شعر میں فرماتے ہیں۔
اُن
دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش، ص77)
ایک اور جگہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:حسن اور حسین جنتی جوانوں کے
سردار ہیں۔
(ترمذی ،5/426 ،
حدیث: 3793)
نواسۂ
رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ:نواسۂ رسول حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ جنتی
نوجوانوں کے سردار ، لوگوں کے محبوب ، صاحبِ حکمت اور اللہ پاک کے مقرب ہیں۔آپ
بلند مقام اور پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے۔
حضور ﷺ کی امام حسن رضی اللہ عنہ سے محبت: حضرت عدی بن ثابت رحمۃ
اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:
میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سرور ﷺ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں اور ارشاد
فر ما رہے ہیں: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ حسن سے
بھی محبت کرے۔ ( بخاری،2/547 ،حدیث:3749)
محبوبِ سرکار: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو
جاتے۔کیونکہ ایک دن (میں نے دیکھا کہ) آپ رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور پیارے مصطفٰے ﷺ کی
مبارک گود میں بیٹھ گئے اور داڑھی مبارک کو سہلانے لگے، حضور نبی پاک ﷺ نے ان کا
منہ کھولا اور اپنی مقدس زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا:
اے اللہ پاک! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ۔
(اللہ والوں کی
باتیں،2/62تا 64)
حضرت
امام حسین رضی اللہ عنہ:سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ اور نام نامی حسین اور
لقب سبط الرسول و ریحانۃ
الرسول ہے۔ (کرامات صحابہ،ص245)
حضورﷺ کی امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت:حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
کہ ایک دن رسول کریم ﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی کو بھی
گھر میں داخل نہیں ہونے دینا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوگئے، تو میں نے نبی کریم ﷺ
کے رونے کی آواز سنی، میں نے گھر میں جھانک کر دیکھا تو امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ روتے
ہوئے ان کے سر پردست شفقت پھیر رہے تھے، میں نے عرض کی:اللہ پاک کی قسم! مجھے علم
نہیں کہ یہ گھر میں کب داخل ہوئے؟ حضور
اکرمﷺ نے فرمایا:جبریل امین علیہ السلام گھر میں ہمارے ساتھ تھے، جبریل امین علیہ
السلام نے عرض کی: کیا آپ حضرت حسین سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا:جی ہاں میں دنیا
میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ جبریل امین علیہ السلام نے عرض کی: عنقریب آپ کی امت
ان کو کربلا کی زمین پر قتل کر دے گی، پھر جبریل امین علیہ السلام نے کربلا کی مٹی
اُٹھا کر حضور اکرمﷺ کو دکھائی۔(معجم کبیر،3/108،حدیث:2819)(معرفۃ الصحابہ،2/12)ایک
اور جگہ حضورﷺ نے فرمایا:اللہ پاک اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے۔حسین میرے
نواسوں میں سے ایک نواسا ہے۔( ابن ماجہ، 1/96 ، حدیث:144)اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلِ
بیت کی محبت عطا فرمائے ۔آمین