آقا ﷺ اپنے تمام نواسوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔حضور ﷺ کے پانچ نواسے تھے :

1 -حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ۔حضور ﷺ ان سے بہت محبت فرماتے تھے یہاں تک کہ جب آقا ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے تو جو ان کے سامنے بیٹھے تھے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے جو کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔

2-حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ۔

3-4-5حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شہزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ،حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت محسن رضی اللہ عنہ۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد مبارکہ کو اللہ پاک نے عمر دراز بالخیر عطا فرمائی جبکہ باقی شہزادیوں کے بیٹے بچپن میں وصال فرما گئے۔

حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (پ25،الشوریٰ: 23)ترجمہ: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!آپ کے قرابت دار کون ہیں؟ارشاد فرمایا:علی ، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے یعنی حسن و حسین رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (معجم کبیر،3/47،حدیث:2641)

حضور ﷺ کی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت:رسول اللہ ﷺ حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھائے ہوئے انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا رسول اللہﷺ! کتنی اچھی سواری ہے!آپ نے فرمایا: نعم الراکبان ھمایعنی دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں! (مصنف ابن ابی شیبہ،7/ 514،حدیث:21)

نواسے سے محبت کا انوکھا انداز:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے امام حسن رضی اللہ عنہ یا امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا ہوا ہے،شہزادے کے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ کے دونوں پاؤں پر ہیں اور آپ فرما رہے ہیں:اوپر چڑھو! چھوٹی آنکھوں والے! شہزادے اوپر چڑھے یہاں تک کہ اپنے دونوں قدم ناناجان کے مبارک سینے پر رکھ دیئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا :اپنا منہ کھولو !پھر ان کا بوسہ لیا اور دعا کی: اَللّٰھمَّ انِّی اُحِبّهُ فَاَحِبَّهُیعنی اللہ پاک میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے۔ (معجم کبیر، 3/49 ،حدیث:2653)

حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضور ﷺ کے سامنے حضرت حَسن اور حُسین رضی اللہ عنہما کُشتی کر رہے تھے،جانِ ایمان ﷺ فرماتے تھے :حسن جلدی کرو! تو خاتونِ جنّت حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا نے اپنے بابا جان کی بارگاہ میں عرض کی:یاسول اللہ ﷺ!آپ حَسن کی مدد فرما رہے ہیں،گویا کہ یہ آپ کو حُسین سے زیادہ محبوب ہیں؟ شاہِ انس و جان ﷺ نے اِرشاد فرمایا:بے شک سیِّدالملائکہ جبرئیل علیہ السلام حُسین کی مدد کر رہے ہیں،اس لئے مجھے یہ پسند ہوا کہ میں حسن کی مدد کروں۔

(خصائص کبری،2/465)

پیاس کیسے بجھی؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک سفر پر) روانہ ہوئے تو راستے میں ایک جگہ آپ نے امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما جو اپنی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھے۔ان کے رونے کی آواز سنی،آپ جلدی جلدی ان دونوں کے پاس پہنچے اور اپنی شہزادی سے پوچھا: میرے بیٹے کو کیا ہوا ہے؟انہوں نے عرض کی:انہیں پیاس لگی ہے۔رسول اللہ ﷺ پانی تلاش کرنے کے لیے ایک مشکیزے کی طرف بڑھے (لیکن اس میں پانی نہ تھا) اس دن پانی نایاب تھا اور لوگ پانی کے طلبگار تھے۔آپ نےآواز لگائی: کیا تم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟ لوگوں نے اپنے مشکیزوں میں تلاش کیا لیکن کسی کو ایک قطرہ پانی بھی نہ ملا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ان دونوں میں سے ایک مجھے پکڑاؤ۔انہوں نے پردے کے نیچے سے شہزادے كو حضور ﷺکی طرف بڑھا دیا،اس وقت وہ مچل مچل کر رو رہے تھے،آپ نے انہیں پیار سے سینے لگایا اور پھر اپنی مبارک زبان ان کے لیے نکال دی جسے وہ چوسنے لگے یہاں تک کہ پرسکون ہو گئے اور پھر ان کے رونے کی آواز نہیں آئی۔دوسرے شہزادے اب تک اسی طرح رو رہے تھے۔لہٰذا آپ نے خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا سے دوسری شہزادے کو لے کر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تو پرسکون ہو گئے اور ان کے رونے کی آواز بند ہو گئی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں ان دونوں شہزادوں سے محبت کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے ساتھ ایسا کرتے دیکھا ہے!(معجم کبیر، 3/50، حدیث: 2656)

اللہ پاک کی ان سب پر رحمت ہو اور ان کے صدقے میں ہماری بلا حساب و کتاب بخشش و مغفرت ہو۔ ہمیں بھی عشقِ اہلِ بیت،ان سب کی زیارتیں اور چل مدینہ کی سعادت نصیب ہو۔اٰمین