حضور ﷺ کے نواسوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ایک قول کے مطابق آپ کے پانچ نواسے ہیں:

1) حضرت عبداللہ(حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے)

2)حضرت حسن

3)حضرت حسین

4)حضرت محسن

5)حضرت علی رضی اللہ عنہم۔(نام رکھنے کے احکام،ص 134)

جن میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لعل امام حسن و حسین کا ذکر کثیر ہے۔حضور ﷺ اپنے نواسوں( امام حسن و حسین) سے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ

بعدِ ولادت کرم نوازی:

جب امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اس دنیا میں تشریف لائے تو حضور ﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی، نام مبارک رکھا، گھٹی دی اور عقیقہ فرمایا۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ کا سر منڈانے اور سر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ (معجم کبیر، 1/313، حدیث: 926)(مسند بزار، 2/315 ، حدیث: 743) یہ محبت کی علامت ہے۔

سینے سے لگایا:حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت حسنین کریمین دوڑتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس آئے تھے حضور ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا فرمایا:اولاد بخیل اور بزدل بنا دینے والی ہے۔(مسند احمد،29/104،حدیث:17562)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:اولاد کو (بخیل اور بزدل) فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محبت کا اظہار ہے یعنی اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

(مراۃ المناجیح، 6/ 367)

کندھے پر سوار فرمایا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر سے باہر نکلے،آپ نے ایک کندھے پر امام حسن رضی اللہ عنہ کو اور ایک پر امام حسین رضی اللہ عنہ کو سوار کیا ہوا تھا۔رحمتِ عالم ﷺ کبھی امام حسن رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیتے اور کبھی امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہاں تک کہ آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔(مستدرک،4/ 156، حدیث: 4830)

حضور ﷺ کی شفقت و محبت :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشا کی نماز پڑھ رہے تھے،جب آپ سجدے میں گئے تو امام حسن امام حسین رضی اللہ عنہما آپ کے مبارک پیٹھ پر چڑھ گئے،آپ ﷺ نے سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے آہستہ سے اتار دیا، جب آپ نے دوبارہ سجدہ کیا تو ان دونوں نے پھر اسی طرح کیا یہاں تک کہ آپ نے پوری نماز ادا فرما لی اور ان دونوں کو اپنی زانوں پر بٹھا لیا،میں حضور ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں ان دونوں کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑ آؤں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، جب ایک بجلی سی چمکی تو آپ نے دونوں سے فرمایا: اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ، تو روشنی اس وقت تک ٹھہری رہی جب تک امام حسن حسین رضی اللہ عنہما گھر میں داخل نہ ہوگئے۔(مسند احمد،3/ 592، حدیث: 10664)

فضائل و مناقب:حضور ﷺ کا امام حسن حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺنے آپ دونوں کے کثیر فضائل ذکر کیے جیسا کہ آپ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو اپنی گود میں بٹھایا، سونگھا، اپنے سینے سے لگایا، اپنی مبارک چادر میں لیا، آپ کو جنتی جوانوں کا سردار اور دنیا میں اپنا پھول فرمایا۔(مسند احمد،10/ 184،حدیث: 266022)

حضرت محمد ﷺ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی:اے اللہ پاک!میں حسن حسین سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔ (ترمذی،5/427، حدیث: 3794)اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔آمین