حضور جانِ عالم ﷺ کو اللہ پاک نے پانچ نواسے عطا فرمائے:1:علی،2 :عبداللہ،3:حسن، 4 :حسین،5: محسن۔ جس طرح ہر والدین کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے اسی طرح انہیں اپنی اولاد کی اولاد سے بھی محبت ہوتی ہے، اسی طرح شاہِ بنی آدم ﷺ کو بھی اپنے نواسوں اور نواسیوں سے بھی بے حد محبت تھی۔آپ کے نواسوں کا تعارف ِپیش خدمت ہے:

علی:یہ شہزادیِ رسول حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے فرزند ہیں۔ان کے بارے میں روایت ہے کہ اپنی والدہ ماجدہ کی حیات ہی میں بلوغت کے قریب پہنچ کر وفات پا گئے لیکن بعض علما نے ذکر کیا ہے کہ یہ جنگِ یرموک میں شہید ہوئے۔ (سیرتِ مصطفیٰ، ص693)

عبداللہ:یہ حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے ہیں۔ان کے والد ماجد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں۔عبداللہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد 4 ھ میں 6 سال کی عمر پاکر انتقال کر گئے۔

(سیرتِ مصطفیٰ، ص 695)

حسن: یہ جگر گوشۂ رسول،حضرت بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے بڑے شہزادے ہیں۔نصف ماہِ رمضان 3 ھ میں پیدا ہوئے۔ان کا نام حسن حضور ﷺ نے ہی رکھا۔یہ شکل و صورت میں اپنے نانا جان کے بہت مشابہہ تھے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے 6 ماہ خلافت سے حصہ بھی پایا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اپنے اہلِ بیت میں سے آپ کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے ؟ فرمایا: حسن و حسین۔(تاریخ الخلفاء،ص 258)

حضور انور ﷺ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے متعلق فرمایا: حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)

حسین:یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے شہزادے ہیں۔5 شعبان 4 ھ میں ان کی ولادت ہوئی۔ پیارے آقا ﷺ نے ہی ان کا نام حسین اور شبیر رکھا۔( اسد الغابہ، 2 / 25 ، 26 ملتقطاً)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نانائے حسنین ﷺ نے فرمایا:حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہوں گے۔ (تاریخ الخلفاء،ص 258)

حسن اور حسین اہلِ جنت کے ناموں میں سے ہیں۔جاہلیت میں عرب میں کسی شخص کے یہ نام نہیں رکھے گئے۔ (تاریخ الخلفاء،ص257)

مفضل کہتے ہیں: اللہ پاک نے حسن و حسین دونوں نام پوشیدہ رکھے حتی کہ صاحبِ معراج ﷺ نے اپنے نواسوں کے نام رکھے۔(تاریخ الخلفاء،ص257)

ایک مرتبہ محبوبِ خدا ﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ،آپ سجدے کی حالت میں تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کھیلتے کھیلتے آپ کی پشت مبارک پر بیٹھ گئے۔راوی کہتے ہیں کہ آقا ﷺ نے اس وقت تک سجدے سے سر مبارک نہ اٹھایا جب تک حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بخوشی پشت مبارک سے نیچے نہ اترے۔(مسند احمد،5/426،حدىث:16033) ( یاد رہے کہ حسنین کریمین اس وقت چھوٹے تھے۔)

محسن: یہ خاتونِ جنت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سب سے چھوٹے شہزادے ہیں جو بچپن ہی میں وفات پا گئے تھے۔

نبی کریم ﷺ اپنے تمام ہی نواسوں سے محبت فرمایا کرتے تھے لیکن امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما سے آپ کی محبت کا انداز کچھ نرالا تھا۔کبھی مبارک گھٹنوں پر بٹھاتے،کبھی شانوں پر تو کبھی ان کا ماتھا چوما کرتے۔ اس لئے جن خوش نصیبوں کے دلوں میں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی محبت گھر کر چکی ہوتی ہے تو ان پر کریم آقا ﷺ کی نظر ِعنایت و چشمِ کرم ضرور ہوتی ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے:

کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

اللہ پاک ہمارے دلوں میں بھی ان ہستیوں کی محبت کو اُجاگر فرمائے اور ان کا صدقہ ہمیں بھی عطا فرمائے۔

آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ