حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ
خالد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
حدیثِ پاک میں ارشادہوا:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ
أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ ابْغَضَنِي جس نے ان دونوں
(حسن و حسین) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ
سے عداوت کی۔(مستدرك، 4/ 155،حدیث:483)
امام حسن
رضی اللہ عنہ کی سواری :ایک بار امام حسن رضی اللہ عنہ بارگاہِ
نبوت میں حاضر ہوئے اور آپ کے مبارک کاندھے پر سوار ہو گئے۔ایک صاحب نے عرض کی:شہزادے!تیری
سواری کتنی اچھی ہے !اس پر مکی مدنی سلطان ، رحمت عالمیان ﷺ نے فرمایا:اور سوار بھی
کتنااچھا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،7/
514،حدیث:21)
امام الانبیاء، احمد مجتبیٰ، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے ارشاد
فرمایا:حُسَيْنٌ مِنّى وَ أَنَا مِنَ الْحُسَيْنِ
اَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبُّ حُسَيْناًحسین مجھ
سے ہےاور میں حسین سے ہوں۔ اللہ پاک اُس سے محبت فرماتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔ ( ترمذی،5/429،حدیث: 3800)
دونوں شہزادے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضورﷺ کو بہت پیارے اور محبوب ہیں۔ایک
بار مکی مدنی سرکار،دو عالم کے تاجدار ﷺ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:میرے یہ دونوں بیٹے
جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی ،5/426 ، حدیث: 3793)
حسنین
کریمین رضی اللہ عنہما کے بچپن کا واقعہ:حَسَنَيْنَ كَرِيمَيْن رضی اللہ عنہما کے بچپن کا زمانہ تھا۔ایک
اعرابی بارگاہ نبوت میں حاضر خدمت ہوا۔ایک ننھا مناپیاراسا ہرنی کا بچہ تحفۃً پیش
کیا۔اتنے میں شہزادہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کھیلتے
ہوئے آئے اور وہ ہرنی کا بچہ اٹھا کر گھر لے گئے۔جب شہزادہ خوش خصال حضرت امام حسین
رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو پوچھا:بھائی جان!یہ ہرنی کا بچہ
کہاں سے لائے ہو؟ کہنے لگے:نانا جان نے دیا ہے۔امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ
عنہ بھی نانا جان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہرنی کا بچہ طلب کیا اور بڑا اصرار کیا،قریب
تھاکہ امام حسین رضی اللہ عنہ رو پڑتے،اچانک ایک ہرنی اپنے ساتھ ایک ننھا منا بچہ
لئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:یا رسول اللہﷺ ! پہلا بچہ بھی میرا ہی
تھا اور اب میں یہ دوسرا بچہ بھی اللہ پاک کے حکم سے لے کر آئی ہوں کہ شہزادہ رسول
اسے طلب فرما رہے تھے۔اسے قبول فرما لیجئے۔آقا!اگر امام حسین رو پڑتے تو فرشتگانِ
عرش کے دل ہل جاتے۔ (اوراق غم بحوالہ كنز الغرائب،ص301)
اللہُ اکبر!ایک وہ دن کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا
معمولی سا بھی رنجیدہ ہونا گوارا نہیں اور دوسری طرف کربلا کا میدان جہاں اس نازوں
سے پالے پر ہر طرف سے تیر اور بھالے برس رہے تھے۔مگر آپ صبر و استقلال کی انوکھی
داستان رقم فرمارہےتھے۔نوجوانانِ آلِ رسول مردانہ وار جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے
تھے اور دینِ اسلام کی آبیاری کیلئے پردیس میں بھوکے پیاسے کھلے آسمان تلے امتحانِ
عشق میں سرخرو ہو رہے تھے۔
حضرت امام
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر :ہمارے پیارے سرکار، نبیوں کے سالار، ہم غریبوں کے غمخوار ﷺ نے بھی اپنے شہزادۂ
ہونہار کی شہادت کی خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن ہی میں دےدی تھی۔جیسا کہ ایک
روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم،رؤف رحیم ﷺ ام المومنين حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
کے گھر تشریف فرما تھے،ایک ایسا فرشتہ آیا،جو پہلے کبھی نہ آیا تھا،آقائے دو
عالم،شاہِ بنی آدم ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:دروازے کی نگہبانی
رکھناکوئی اندر نہ آئے۔اتنے میں امام حسین رضی اللہ عنہ جو کہ
ابھی کم سن تھےکھیلتے ہوئے اندر آگئے اور حضور سرور کونین ﷺ کی مبارک گود میں بیٹھ
گئے۔فرشتے نے عرض کی:حضور ! آپ اس بچے کو چاہتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا:ہاں۔فرشتے نے عرض
کی:وہ وقت قریب ہے جب آپ کی اُمت اسے شہید کر دے گی۔حضور!اگر آپ چاہیں تو میں آپ
کو وہ زمین دکھاؤں جہاں یہ لاڈلا شہزادہ شہید کیا جائےگا۔پھر سرخ مٹی آپ کی خدمت میں
پیش کی گئی۔حضور نے مٹی سونگھ کر فرمایا:ريح كرب وبلا ( بے چینی اور بلا کی بو آتی
ہے )۔(آئینہ قیامت،ص 16)
زمینِ کربلا:امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ایک بار سفر
کے دوران زمینِ کربلا سے گزرے۔ لوگوں سے پوچھا:یہ کون سی جگہ ہے؟انہوں نے کہا:كربلا۔یہ
سن کر آپ اتنا روئے کہ زمین آنسوؤں سے تر ہو گئی۔پھر فرمایا:میں حضور سَیّدِ عالَم
ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھاکہ سرکارﷺ رورہے ہیں۔میں نے رونے کی وجہ
پوچھی تو فرمایا:ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام یہ کہہ گئے ہیں کہ میرا بیٹا حسین
دریائے فرات کے کنارے کربلا میں شہید کر دیا جائے گا۔پھر جبرائیل علیہ السلام نے
وہاں کی مٹی بھی مجھے سونگھائی، مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔(آئینۂ
قیامت ،ص 12)
حضور ﷺ کی چچی جان اُمِ فضل رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک روز شہزادۂ حسین رضی اللہ عنہ مصطفیٰ
جانِ رحمتﷺ کی گود مبارک میں تھے۔حضور ﷺ
نےفرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے اور یہ خبر دی کہ میری امت حسین کو قتل کردے گی۔(مستدرک،3 /179،حدیث:4824)
حضور پر نور،شافعِ یوم
النشور ﷺ کے ارشادات اور شہزادوں کی ناز برداریاں جب یاد آتی ہیں اور پھر واقعاتِ
شہادت پر نظر پڑتی ہے تو حسرت بھری آنکھیں بے قرار ہو جاتی ہیں،دل خون کے آنسو
روتا ہے،خُدا کی بے نیازی کا عالم نگاہوں
میں چھا جاتا ہےکہ یہ مقدس ہستیاں خدا کے نزدیک محبوب ہیں۔اللہ پاک کی شانِ کریمی
ہےکہ وہ اپنے دوستوں کو بلاؤں میں گھیرے رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سرکار ِدو عالم ﷺ،
آپ کے اصحاب اور اہلِ بیت کرام علیہم الرضوان نے مصائب و آلام کو سینے سے لگایا۔
ایک بار حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے بلا اور نعمت کے بارے میں
پوچھا گیا تو فرمایا:ہمارے نزدیک تو بلا اور نعمت دونوں برابر ہیں۔جب حضرت امام حسین
رضی اللہ عنہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو ارشاد فرمایا:اللہ پاک ابو ذر پر رحم فرمائے۔مگر ہم اہلِ بیت کے نزدیک
بلا ( یعنی مصیبت ) نعمت سے بھی افضل ہےکہ نعمت کے حصول میں اپنی ذات کی خواہش اور
رضا پوشیدہ ہےجبکہ بلا میں رضائے الٰہی شامل ہے۔
(آئینہ قیامت،ص 13)
رضائے الٰہی کا یہی جذبہ میدانِ کربلا میں کام آیا جہاں
نواسئہ خیر الا نام اور آپ کے رفقائے کرام نے صبر و استقلال کا وہ نمونہ پیش فرمایا
جس کی مثال ماضی و حال دینے سے قاصر ہیں۔نہ ہی کوئی ماں کا لعل قیامت تک ایسی مثال
پیش کر سکتا ہے۔
جس نے حق کربلا میں ادا کردیا اپنے نانا کا وعده وفا کردیا
گھر کا گھر
سب سپردِ خُدا کردیا اُس
حسین ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
حضور ﷺ کو اپنے سب نواسوں سے بے حد محبت تھی۔اللہ پاک اِن
کے صدقے ہمیں دین و دنیا میں بھلائی عطا فرمائے اور آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ثم آمین