حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از ام
ہانی،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
رسول اللہﷺ اپنے اہلِ بیت کے ساتھ ساتھ اپنے نواسوں سے بھی
بہت محبت فرماتے تھے۔نواسہ: بیٹی کے بیٹے کو نواسہ کہتے ہیں۔آقا کریم ﷺ کے پانچ
نواسے ہیں اور ان کے نام درج ذیل ہیں:
1 -حضرت علی بن ابو العاص
2 -حضرت عبداللہ بن
عثمان
3 -حضرت حسن بن علی
4 -حضرت حسین بن علی
5 -حضرت محسن بن علی۔
حضرت علی ابن ابو العاص: آپ کا اسم گرامی علی اور لقب سبط الرسول تھا۔آپ ابو العاص بن ربیع اور زینب
بنتِ محمد رسول اللہﷺ کے صاحبزادے اور امامہ بنتِ ابی العاص کے بھائی تھے۔آپ ہجرتِ
مدینہ سے قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔
رسول اللہﷺ کے زیر کفالت:رضاعت کی مدت پوری ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنے نواسے کو اپنے زیر کفالت لے لیا تھا کیونکہ ان کے باپ ابو العاص بن
ربیع اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور اسلام قبول نہیں کیا تھا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو
شریک ہو میری اولاد میں تو مجھ کو اس پر اس سے زیادہ حق ہے (یعنی میری دختری اولاد
پر ان کے والد سے زیادہ مجھ کو اختیار ہے) اور جو کافر کسی مسلمان کا کسی چیز میں
شریک ہو تو مسلمان اس سے زیادہ کا حق دار ہے۔ ابو العاص بن ربیع جب غزوۂ بدر میں
گرفتار ہوئے تو اس شرط پر رہا ہوئے کہ وہ اپنی بیوی کو مدینہ بھیج دیں گے۔چنانچہ انہوں
نے رہائی کے بعد زینب بنتِ رسول اللہ اور ان کے دونوں بچوں (علی بن ابو العاص اور
امامہ بنت ابو العاص) کو بھی ساتھ بھیج دیا۔رسول اللہﷺ نے اپنے نواسے کی تربیت اور پرورش خود فرمائی۔(اسد
الغابہ،2/626)
ہم رکاب رسول:الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں ہے:رسول اللہﷺ نے فتحِ مکہ کے روز اپنی سواری پر علی بن ابو
العاص کو اپنے پیچھے سوار کیا تھا ،رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور علی بن ابو العاص آپ کے ردیف تھے۔
عبداللہ
بن عثمان:آپ کا نام عبد اللہ والد ماجد کا نام عثمان بن عفان اور والدہ
ماجدہ کا نام رقیہ بنت محمد ہے۔ آپ کے والد ماجد کی کنیت ابو عبد اللہ آپ کے نام
پر ہے۔مصعب زبیری نے کہا کہ جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے
حبشہ کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ حضرت رقیہ بنتِ رسول اللہ بھی تھیں۔سرزمینِ
حبشہ میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام عبد اللہ رکھا گیا۔حضرت عبد اللہ چھ سال کے
ہوئے تو ایک مرغ نے آپ کی آنکھ میں چونچ مار دی جس کی وجہ سے آپ بیمار ہو گئے۔جمادی
الاخریٰ چار ہجری میں آپ نے وفات پائی۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور
آپ کی قبر میں آپ کے والد ماجد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اترے۔(طبقات
ابن سعد،2/131)
حضرت امام حسن:حضرتِ سیّدہ فاطمۃُالزّہراء رضیَ
اللہُ عنہا کے گلشن کے مہکتے پھول،اپنے نانا جان ،رحمتِ
عالمیان ﷺ کی آنکھوں کے نور ، راکبِ دوشِ مصطفےٰ ،مصطفےٰ
جانِ رحمت ﷺ کے مبارک کندھوں پر سواری کرنے والے،سردارِ
امّت،حضرت امام حَسَن مجتبیٰ رضیَ اللہُ عنہُ کی ولادتِ باسعادت 15رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔(البدايۃوالنہایہ، 5/519)
نام،القابات اورکنیت:آپ کا نام حسن، کنیت ابو محمد اور
لقب سبطِ رسول اللہ(رَسُولُ اللہﷺکا نَواسہ) اوررَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل(رَسُولُ اللہ ﷺ کا
پھول)ہے۔(تاریخ الخلفاء، ص149)
مبارك تحنیک (گھُٹی):نبیِ اکرم ﷺ نے آپ کے کان میں اذان کہی۔(معجم کبیر،1/313، حدیث: 926) اور
اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔(البدايۃ والنہایہ، 5/519)
شہد
خوارِ لعابِ زبانِ نبی چاشنی
گیر عصمت پہ لاکھوں سلام
ہم شکلِ مصطفیٰ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ امام حسن رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر
رسولِ کریم ﷺ سے ملتا جلتا کوئی بھی شخص نہ تھا۔(بُخاری،2/547،حدیث: 3752)
شفقتِ مصطفیٰ مرحبا مرحبا:نبیِّ رحمت،شفیعِ اُمّت ﷺ کو امام حسن
مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی۔ آپ ﷺ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ
کوکبھی آغوشِ شفقت (یعنی مبارک گود )میں اُٹھاتے تو کبھی دوشِ اقدس(یعنی مبارک
کندھوں) پر سوار کئے ہوئے گھر شریف سے باہَر تشریف لاتے، کبھی آپ رضی اللہ عنہ کو
دیکھنے اور پیار کرنے کے لئے سیّدہ فاطِمہ رضی اللہ عنہا کے گھر شریف پر تشریف لے
جاتے، حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ بھی
آپ ﷺ سے بے حد مانوس ہو(یعنی ہِل)گئے تھے کہ کبھی نماز کی حالت میں مبارَک پیٹھ
پر سُوار ہو جاتے تھے۔
راکبِ دَوشِ مصطفیٰ: ایک مرتبہ حضور پاکﷺ حضرت امامِ حسن
مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کو شانۂ اقدس (یعنی مبارک کندھے) پرسُوار کئے ہوئے تھے تو ایک
صاحِب نے عرض کی:نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ یَا غُلَام یعنی صاحبزادے !آپ کی سواری توبڑی اچھی ہے۔رسولِ اکرم ﷺ
نے فرمایا:وَنِعْمَ الرَّاکِبُ ہُوَیعنی سواربھی تو کیسا اچھا ہے! (ترمذی،5/432،حدیث:3809)
وہ
حسن مجتبیٰ، سیّد الاسخیا راکِبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش، ص309)
یہ میرا پھول ہے: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی کریم ﷺ ہمیں نماز پڑھا رہے تھے کہ
حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما جو ابھی چھوٹے سے تھے تشریف لائے۔جب بھی رسول
اللہﷺ سجدہ فرماتےحضرت امام حسن مجتبیٰ رضی
اللہ عنہ سرکارِ مدینہ ﷺ کی گردن شریف اور پیٹھ مبارک پر بیٹھ جاتے۔آپﷺ نہایت
آرام سے اپنا سرِ اقدس سجدے سے اٹھاتے اور انہیں شَفقَت سے اُتارتے۔جب نماز مکمَّل
کرلی تو صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارَسُول اللہ ﷺ! اس بچے سے آپ اس
انداز سے پیش آتے ہیں کہ کسی اور سے ایسا سُلوک نہیں فرماتے؟ارشاد فرمایا:یہ دنیا
میں میرا پھول ہے۔
(مسند بزار،9/111، حدیث:3657 ملخصاً)
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائق بخشش، ص77)
میرا یہ بیٹا سردار ہے:حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سرکارِ نامدار،مدینے
کے تاجدار ﷺ منبر پر جلوہ گر تھے اور امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کے
پہلو(یعنی برابر) میں تھے۔نبی کریم ﷺ کبھی
لوگوں کی طرف توجُّہ کرتے اورکبھی امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف نظر فرماتے، آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا:میرا یہ بیٹا سیِّد(یعنی سردار) ہے، اللہ پاک اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں
صلح فرمائے گا۔ (بخاری،2 /214،حدیث: 2704 )
اے اللہ!میں اس سے محبت کرتا ہوں:حضرت بَراء بن عازِب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے
سَرْوَر ﷺ امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما
کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں:اَللّٰہمَّ اِنِّی اُحِبُّہٗ فَاَحِبَّہٗ یعنی اے اللہ پاک!میں اس سے محبت
کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(ترمذی، 5 / 432 ،حدیث: 3808 )
یا
حسن! اپنی محبت دیجئے! عشق
میں اپنے ہمیں گُم کیجئے
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ:حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادت 5 شعبانُ المعظم 4 ہجری کو حضرت علی رضی اللہُ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے
گھر مدینۂ منورہ میں ہوئی۔آپ کا اسمِ مبارک حسین رکھا گیا۔آپ کی کُنْیت ابو عبدُاللہ اورآپ کے ا لقاب سِبطُ رَسُولِ اللہِ(یعنی رسولِ خداﷺ کے نواسے) اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل(یعنی رسولِ خداﷺ کے پھول)ہیں۔آپ نے دس محرمُ
الحرام 60 ہجری کو میدانِ کربلا میں باطل
کو خاک میں ملا کر جامِ شہادت نوش فرمایا۔اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ نےاپنے پیارے پیارے نواسے حضرتِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسیدھے(Right)کان میں اَذان
دی اور بائیں (Left)کان میں تکبیر
پڑھی اور اپنے مبارک جُوٹھے شریف سے گُھٹی عطا فرماتے ہوئے دُعاؤں سے نوازا۔ساتویں
دن آپ کا نام حُسین رکھا اور ایک بکری سے عقیقہ کیا۔
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: حُسین مجھ سے ہیں اور میں حُسین سے ہوں۔ اللہ پاک اُس سے مَحَبَّت فرماتا ہے جو حُسین سے
مَحَبَّت کرے ۔ حُسین اَسباط میں سے ایک سِبط ہیں۔( ترمذی، 5/ 429 ، حدیث: 3800)
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک
کےتحت اِرشادفرماتے ہیں:میں اورحُسین گویا ایک ہی ہیں ہم دونوں سے مَحَبَّت ہر
مسلمان کو چاہیے،مجھ سے مَحَبَّت حُسین سے مَحَبَّت ہے اور حُسین سے مَحَبَّت مجھ
سے مَحَبَّت ہےچونکہ آئندہ واقعات حضور پاکﷺ کے پیشِ نظر تھے اِس لیے اِس
قسم کی باتیں اُمت کو سمجھائیں۔سِبط وہ
درخت جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت ایسے ہی میرے حُسین سے میری نسل چلے گی اور
اِن کی اَولاد سے مشرق و مغرب بھرجائے گی،دیکھ لو!آج سادات ِکرام مشرق و مغرب میں
ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حَسَنی سیّد تھوڑے ہیں حُسینی سید بہت زیادہ ہیں اِس
فرمانِ عالی کا ظہور ہے۔
(مراۃ المناجیح، 8/480)
یاشہیدِ
کربلا فریاد ہے نورِ چشمِ فاطمہ
فریاد ہے
آہ!
سِبطِ مصطَفٰے فریاد ہے ہائے!
ابنِ مُرتَضیٰ فریاد ہے
(وسائلِ بخشش،ص596)
حسن میرے ہیں اور حُسین علی کے۔( فیض القدیر، 3 / 551 )
مفتی احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:اِس فرمانِ عالی شان
کا مطلب یہ ہے کہ بڑا بیٹا دادا ، نانا کا ہوتا ہے چھوٹا بیٹا باپ کا ، یہ تقسیم
اظہار ِکرم کے لیے ہے۔(مراۃ المناجیح،8/479)
جِسے یہ پسند ہو کہ
کسی جنتی مَرد کو دیکھے (ایک روایت میں ہے)جنّتی جوانوں کے سردار کو دیکھے وہ حُسین
بن علی کو دیکھے۔( الشرف المؤبد،ص 69)
حُسین
ابنِ علی کا صدقہ
ہمارے غوثِ جلی کا صدقہ
عطا
مدینے میں ہو شہادت نبیِّ
رَحمت شفیعِ اُمّت
(وَسائلِ بخشش،ص214)
محسن ابنِ
علی: یہ بی بی فاطمہ کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں ان کا انتقال بچپن
ہی میں ہو گیا تھا۔
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب
مغفرت ہو۔ آمین