یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ عُموماً جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے عقیقہ اس کے والِدَین ہی کرتے ہیں، لیکن ہم دیکھتی ہیں کہ جب حضرت  امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تب بھی اور جب حضرتِ امام حُسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی عقیقہ ان کے والِدَین نے نہیں کیا بلکہ ان کے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺنے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حُضُور ﷺاپنے نواسوں سے کیسی مَحَبَّت فرماتے تھے۔آقا ﷺ نہ صرف حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما سے پیار اور مَحَبَّت فرماتے تھے بلکہ آپ ﷺنے کئی مواقع پر ان کی شان و عظمت کو بھی بَیان فرمایا ہے، آئیے!حَسَنَین رضی اللہ عنہما کی عظمت وشان کے مُتَعَلِّق احادیثِ مُبارَکہ سنتی ہیں:

1) امیرُالمومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام حَسن اور حضرت اما م حُسین رضی اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور سوار بھی تو کیسے لاجواب ہیں۔

(ترمذی،5/432،حدیث: 3809)

2)ایک اور حدیثِ پاک میں اِرْشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان دونوں سےمحبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی)کی۔(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)

3) حَسَن اورحُسَین جَنَّتی جوانوں کے سردار ہیں۔( ترمذی،5/426،حدیث:3793)

حُضُورِ اقدس ﷺ اِن دونوں نو نہالوں کو سونگھتے اور سینۂ مُبارَک سے لپٹاتے۔

(ترمذی،5/428، حدیث:3797)

4) هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔

(ترمذی ، 5/ 427،حدیث: 3795)

آقا ﷺ حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما کو سُونگھا بھی کرتے اور فرماتے:حسن و حسین دنیا میں میرے دوپھول ہیں۔( بخاری،2/ 547 ،حدیث:3753)

اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں

کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل

(حدائقِ بخشش، ص77)

شرحِ کلامِ رضا:اے میرے پیارے آقا!اپنے جن دو شہزادوں کوآپ نے اپنا پُھول فرمایا یعنی حضرت امامِ حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما ان کے صدقے میں رَضا کو میدانِ محشر میں ہر قسم کی مشکلات و پریشانیوں سے بچا کر مسکراتے (یعنی کھلتے )ہوئے پھول کی طرح کر دیجئے۔

(شرح حدائقِ بخشش، ص217، ماخوذاً)

قرآنِ کریم کے بعد سب سے زیادہ قابلِ اعتماد احادیثِ مبارکہ کی کُتب صحاح سِتہ یعنی چھ صحیح کُتب کہلاتی ہیں جن میں سے ایک کتاب تِرمذی بھی ہے اِس میں ہے کہ وَلیوں کے شہنشاہ،مولیٰ علی مُشکل کُشا رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی شکل مبارک سَر سے سینہ تک حضور ﷺسے مُشَابِہ (یعنی مِلتی جُلتی)تھی اور امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی سینے سے ناخن پَا (یعنی پاؤں کے ناخن) تک۔

( ترمذی،5/ 430 ، حدیث: 3804)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

مَعْدوم نہ تھا سایۂ شاہِ ثقلین اس نور کی جلوہ گہ تھی ذاتِ حسنین

تَمْثِیْل نے اس سایہ کے دو حصّے کیے آدھے سے حَسن بنے ہیں آدھے سے حُسین

(حدائق بخشش،ص444)

شرحِ کلامِ رضا: انسان و جنات کے شہنشا ہ ، مکّی مَدَنی مصطَفٰے ﷺ کے مبار ک جسم کا سایہ مبارک نہ تھا مگر نور والے آقا ﷺ کا سایہ مبارک حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی صورت میں نظر آتا تھا کہ سرِ پاک سے سینہ ٔ مبارکہ تک امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حُسین رضی اللہ عنہ مبارک سینے سے پاؤں شریف تک حضور ﷺ سے مِلتے جُلتے تھے۔(فضائل امام حسین،ص7)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خیال رہے کہ حضرت (بی بی) فاطمہ زہرا ( رضی اللہ عنہا )ازسر تا قدم بالکل ہم شکلِ مصطفیٰ تھیں اور آپ کے صاحبزادگان (یعنی بیٹوں)میں یہ مشابہت تقسیم کردی گئی تھی۔(مراۃ المناجیح،8/480)

رسولُ اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیرِ نُبُوّت کا

(دیوانِ سالک)

آقا ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اَدِّبُوْا اَوْلَادَکُمْ عَلٰی ثَلاثِ خِصَالٍ یعنی اپنے بچوں کو تین(3)چیزیں سکھاؤ :حُبِّ نَبِیِّکُمْ اپنے نبی کی مَحَبَّت،وَ حُبِّ اہلِ بیتہٖ اور اہلِ بیت کی مَحَبَّت،وَ قِرَاءَۃِ الْقُرْاٰنِ اور قرآنِ پاک پڑھنا۔

(صواعق مُحرقہ، ص172)

اِس حدیثِ پاک سے مَعْلُوم ہو اکہ حُضُور ﷺ اپنے اہلِ بیت کرام سے کس قَدر مَحَبَّت فرماتے کہ صحابۂ کِرام علیہم الرضوان کو اس بات کی تعلیم اِرْشاد فرما رہے ہیں کہ تم تو مجھ سے اور میرے اہلِ بیت سے مَحَبَّت کرتے ہی ہو اپنی آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی میری اور میرے اہلِ بیت کی مَحَبَّت پیدا کرو تاکہ ان کا شُمار بھی نَجات یافتہ لوگوں میں ہو۔ایک اور مقام پر تو آقا ﷺ نے اپنے اہلِ بیت کرام کی مَحَبَّت کو اِیْمانِ کامل کے لیےشرط قرار دیا۔چنانچہ

فرمانِ مُصطَفٰے ﷺ:کوئی بندہ مومنِ کامل نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اسے اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوں اور میری اَولاد اس کو اپنی جان سے زیادہ پیاری نہ ہوا ور میرے اہل اُن کو اپنے اہل سے زیادہ مَحْبُوب نہ ہوں اور میری ذات اس کو اپنی ذات سے زیادہ پیاری نہ ہو۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث:1505)

اِیماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے وہ تیری محبت تِری عِتْرَت کی وِلا ہے

معلوم ہوا کہ مومنِ کامل بننے اور اُخروی نجات پانے کے لیے اہلِ بیت کرام کی مَحَبَّت بہت ضروری ہے۔اہلِ بیت کی محبت رَسُول ُاللہ ﷺ کی مَحَبَّت ہے، اہلِ بیت کی مَحَبَّت اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی رضا پانے کا سبب ہے، اہلِ بیت کی مَحَبَّت ایمانِ کامل کی نشانی ہے اور اہلِ بیت کی مَحَبَّت دونوں جہاں کی کامیابی پانے کا سبب ہے۔اللہ کریم ہمیں اہلِ بیت کی سچی پکی محبت نصیب فرمائے۔ آمین