آپ ﷺ کے پانچ نواسے اور تین نواسیاں تھی۔

1۔آپ ﷺ کی بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ایک بیٹی حضرت امامہ رضی اللہ عنہا اور ایک بیٹا حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔

2۔آپ ﷺ کی دوسری بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کےایک بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تھے۔

3۔آپﷺ کی تیسری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کےتین بیٹے حضرت حسن ،حضرت حسین،حضرت محسن رضی اللہ عنہم تھے۔یہ تیسرے بیٹے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور دو بیٹیاں حضرت ام کلثوم اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما تھیں۔

عُمُوماً جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے عقیقہ اس کے والِدَین ہی کرتے ہیں، لیکن ہم دیکھتی ہیں کہ جب حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تب بھی اور جب حضرتِ امام حُسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی عقیقہ ان کے والِدَین نے نہیں کیا بلکہ ان کے نانا جان، رحمتِ عالمیان ﷺ نے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حُضُور ﷺ اپنے نواسوں سے کیسی مَحَبَّت فرماتے تھے؟آقا ﷺ نہ صرف حَسَنَینِ کَریمَیْن سے پیار اور مَحَبَّت فرماتے تھے بلکہ آپ ﷺ نے کئی مواقع پر ان کی شان و عظمت کو بھی بَیان فرمایا ہے۔چنانچہ

1: امیرُالمؤمنین حضرت عُمر فارُوقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام حَسن اور حضرتِ اما م حُسین رضی اللہ عنہما کو سرکار ﷺ کے کندھوں پر سُوار دیکھاتو کہا:آپ دونوں کی سُواری کیسی شاندار ہے؟تونبی ﷺ نے اِرْشاد فرمایا:اور سوار بھی تو کیسے لاجواب ہیں۔

(ترمذی،5/432،حدیث 3809)

2:ایک اور حدیثِ پاک میں اِرْشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّھُمَا فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے ان دونوں سےمحبت کی،اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی اس نے مجھ سے عَداوت(یعنی دُشمنی) کی۔(ابن ماجہ،1/96، حدیث:143)

3:حَسَن اورحُسَین جَنَّتی جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی،5/426،حدیث:3793)

4:یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے، دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ گلی میں کھیل رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ لوگوں سے آگے نکل گئے، اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے، حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے، ادھر ادھر بھاگنے لگے اور نبی اکرم ﷺ ان کو ہنسانے لگے، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیااور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ لیا، اور فرمایا:حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھےاور حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں ۔( ترمذی، 5/ 429 ،حدیث: 3800)

5:حُضُورِ اقدس ﷺ اِن دونوں نونہالوں کوسونگھتے اورسینۂ مُبارَک سے لپٹاتے۔

( ترمذی، 5/428،حدیث:3797)

6:هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا یعنی حَسن وحُسَین دُنیا میں میرے دو پُھول ہیں۔

(ترمذی،5/ 427،حدیث: 3795)

میرا یہ بیٹا سردار ہے:حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں اور امام حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔آپ ﷺ کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے ،کبھی اپنے نواسے کو ملاحظہ فرماتے اور ارشاد فرما تے:اِنَّ ابْنِيْ هٰذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ اَنْ يُّصْلِحَ بِهٖ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَیعنی میرا یہ بیٹا سردار ہے،اﷲ پاک اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرادے گا۔(بخاری،2/214،حدیث:2704)

7: رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا:میرےنزدیک حضرت حسن بن علی زیادہ محبوب اور پیارا کوئی نہیں۔

(بخاری،4/73،حدیث:5884)

8:حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھاتے، امام حسن رضی اللہ عنہ کو دوسری ران پر بٹھاتے اور پھر دونوں (رانوں) کو ملا کر یہ دعا کرتے:اَللّٰهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَاِنِّي اَرْحَمُهُمَا یعنی اے اللہ!ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں بھی ان پر رحم کرتا ہوں۔

(بخاری،4/101،حدیث:6003 )

نواسے کے رونے سے تکلیف:

9: نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کے قریب سے گزرے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی تو خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا:اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بُكَاءَهٗ يُؤْذِيْنِيْ یعنی کیا تم نہیں جانتیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے!(معجم کبیر،3/116،حدیث:2847 )

نواسے سے کھیلنے کا مبارک انداز:

10:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رحمتِ کونین،نانائے حسین ﷺ امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے اپنی زبان مبارک باہر نکالتے۔شہزادے جب مبارک زبان کو دیکھتے تو اس کی طرف لپکتے۔

(صحیح ابن حبان،9/60،حدیث:6936)

پیارے آقا ﷺ کی حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما سے کیسی کمال مَحَبَّت و اُلفت تھی، وہ لوگ جو اپنے بچوں سے اِس وجہ سے پیار و مَحَبَّت سے پیش نہیں آتے کہ کہیں ان کا رُعب و دبدبہ ختم نہ ہو جائے ،ان کے لیے آقا ﷺکا یہ عمل درسِ نصیحت ہے کہ حُضُورِ اکرم ﷺسیدِ کائنات ہونے کے باوجود بھی اپنے نواسوں کو کندھوں پر سوار فرماتے تھے۔

آقا ﷺنے حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما کی محبت کو اپنی مَحَبَّت قرار دیا اورحَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما سے دشمنی کو خود سے دشمنی قرار دیا، اپنی اولاد کو چُومنا، خُود سے چمٹانا، کندھوں پر سوار کرنا اور اُنہیں سینے سے لگانا یہ تو ہوتا ہی ہے لیکن آقا ﷺ حَسَنَینِ کَریمَیْن رضی اللہ عنہما کو سُونگھا بھی کرتے اور فرماتے: حسن و حسین دنیا میں جنت کے پھول ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/462)

فرمانِ مُصطَفٰے ﷺ:کوئی بندہ مومنِ کامل نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اسے اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوں اور میری اَولاد اس کو اپنی جان سے زیادہ پیاری نہ ہوا ور میرے اہل اُن کو اپنے اہل سے زیادہ مَحْبُوب نہ ہوں اور میری ذات اس کو اپنی ذات سے زیادہ پیاری نہ ہو۔(شعب الایمان ، 2/189،حدیث:1505)

ایک مُسَلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی جان، مال،اولاد سے بڑھ کر سرکارِ مدینہ،قرارِ قلب وسینہ ﷺ سے مَحَبَّت رکھے، کیونکہ حُضُور ﷺکی مَحَبَّت ہی اصلِ ایمان ہے، اس کے بغیر دعویِ ایمان ہر گز قابلِ قبول نہیں۔آقا کریم ﷺ سے مَحَبَّت کی علامت یہ بھی ہے کہ بندہ اُن تمام لوگوں سے بھی مَحَبَّت کرےاور ان کا ادب و احترام کرےجن کو رَسُولُ اللہ ﷺ سے نسبت وتعلق حاصل ہے۔اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین