حضور ﷺ کی اپنے نواسوں سے محبت از بنتِ اشرف،
فیضان اُمّ عطّار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
پیارے آقا ﷺ کی اپنے
نواسوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کے حوالے سے بہت سی احادیث ِ مبارکہ اور
واقعات موجود ہیں کہ پیارے آقا ﷺ کو اپنے نواسوں سے کتنی محبت ہے۔چنانچہ
حدیثِ مبارک میں ہے:حضرت بَراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ مقبول،بی بی آمنہ کے پھول ﷺ
نے(اپنے دونوں نواسوں) حَسن اور حُسین کی طرف(محبت بھری نظر سے ) دیکھا اور
(ربّ کی بارگاہِ عالی میں ) عرض کی:اے
اللہ پاک ! میں اِن دونوں سے محبت کرتاہوں، تُو بھی اِن سے محبت فرما۔
( ترمذی ،4/523،حدیث:4136)
یہاں تک کہ پیارے آقا ﷺ نے اپنی امت کو بھی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی ترغیب دلائی
اور ان سے بغض رکھنے والے کے بارے میں وعید
بھی ارشاد فرمائی۔چنانچہ
حضرت سلمان رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولِ ہاشمی، مکی مدنی
ﷺ نے حضرت حَسن اورجناب حُسین رضی اللہ عنہما سے متعلّق اِرشاد فرمایا:جس نے ان دونوں سے محبت کی ، وہ میرا محبوب ہوگیا
اور جو میرا محبوب ہوگیا اللہ اُس سے محبت فرماتاہے اور جس سے اللہ پاک محبت فرمائے ، اُسے جَنَّاتِ نعیم(نعمتوں والے باغات) میں داخل فرمائے گا۔
جس نے ان دونوں(حسن و حسین) سے بُغض رکھا یا ان سے بغاوت کی، وہ میری بارگاہ میں
بھی مبغوض ہوگیااور جو میری نظر میں مبغوض ہوگیا ،وہ اللہ پاک کے جلال و غضب کا مستحق ہوگیا اور جو خُدائے قہار کے غضب کا شکار ہوگیا تو اللہ پاک اُسے جہنم کے عذاب میں داخل فرمائے گا اور اس کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب
ہے۔(معجم کبیر ، 3/43 حدیث:2655)
مَنْ اَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ اَحَبَّنِي
وَمَنْ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِي یعنی جس
نے حسن و حسین سے محبت کی تو بے شک اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی تو بلاشبہ اس نے مجھ سے دشمنی کی۔
(ابن
ماجہ،1/96،حدیث:143)
ولادت کے
وقت نام مبارک عطا فرمائے:خاتونِ جنت،حضرت فاطمہ
زہرا ء رضی اللہ عنہا کے یہاں امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولاد ت پر حضورِ اقدس ﷺ
تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:اَرُوْنِیْ اِبْنِیْ مَا سَمَّیْتُمُوْہُ یعنی مجھے میرا بیٹا دکھاؤ،تم نے اس کا کیا نام رکھا؟مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے
عرض کی:میں نے اس کا نام حَرْب رکھا ہے۔فرمایا:بلکہ وہ حسن ہے۔امام حسین رضی اللہ
عنہ کی ولادت پر بھی رحمتِ عالَم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا:مجھے میرا بیٹا دکھاؤ،
تم نے اس کا کیا نام رکھا؟ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: حَرْب۔فرمایا:بلکہ
وہ حسین ہے۔اس کے بعد تیسرے شہزادے کی ولادت پر تشریف لاکر بھی یہی سوال کیا اور
مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے وہی نام عرض کی تو فرمایا:بلکہ وہ محسن ہے۔اس کے بعد
ارشا د فرمایا:اِنَّمَا سَمَّيْتُهُمْ بِاسْمِ وُلْدِ
هَارُوْنَ شَبَرٌ وَ شُبَيْرٌ وَ مُشْبِرٌ یعنی میں
نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شَبَر، شُبَیْر اور مُشْبِر کے
ناموں پر رکھے ہیں۔(مستدرک، 6/221 ، حدیث:4829 )
شرح ِ حدیث:اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:شَبَر
شُبَیْر مُشْبِر حَسَن حُسَیْن مُحْسِن ان سے ہم وزن و ہم معنی ہیں ، اس سے مولیٰ
علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو تنبیہ ہوئی کہ اولاد کے نام اَخیار کے ناموں پر رکھنے
چاہئیں لہٰذا ان کے بعد اپنے صاحبزادوں کے نام ابو بکر، عمر، عثمان، عباس وغیرہا
رکھے ۔ (فتاویٰ رضویہ، 29 /80)
نواسے کے
لئے سجدے کو لمبا کر دیا:حضرت شَدّاد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ
امام حسن یا امام حسین رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو اٹھائے ہوئے نمازِ ظہر یا
عصر کے لئے ہمارے پاس تشریف لائے۔آپ نے آگے بڑھ کر بچے کو (زمین پر) رکھا،تکبیرِ
تحریمہ سے نماز شروع فرمائی اور پھر نماز کے دوران (غیر معمولی طور پر)لمبا سجدہ
فرمایا۔میں نے سر اٹھاکر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ سجدے کی حالت میں تھے اور شہزادے
اپنے نانا جان کی مبارک پیٹھ پر سوار
تھے۔(یہ منظر دیکھ کر)میں واپس سجدے میں چلا گیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مکمل
فرمائی تو لوگوں نے عرض کی:یارسول اللہﷺ!آپ نے اس نماز کے دوران اتنا لمبا سجدہ
فرمایا کہ ہم سمجھے کوئی معاملہ ہوگیا ہے یا آپ کی طرف وحی نازل ہورہی ہے۔ارشاد
فرمایا: ایسا کچھ نہیں تھالیکن میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا تو میں نے ناپسند
کیا کہ جلدی کروں یہاں تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔ (مسند
احمد،5/426،حدىث:16033 )
شرح ِ حدیث:شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امام حسن مجتبیٰ
رضی اللہ عنہ کے پُشت مبارک پر بیٹھنے کے
بعد حضورِ اقدس ﷺ نے قَصْداً(جان بوجھ کر)سجدہ کو دَراز(لمبا) فرمایا کہ کہیں ایسا
نہ ہو کہ یہ گر پڑیں اور چوٹ آجائے۔حضورِ اقدس ﷺ کے اس فعل مبارک سے ثابت ہوا کہ
کوئی چھوٹا بچہ جو ناپاک نہیں،اگر سجدہ میں کسی کی پیٹھ پر بیٹھ جائے اور وہ بغیر
عملِ کثیر کے اُتار نہ سکے اور سجدے سے سر اٹھانے میں بچے کے گر کر چوٹ لگنے کا
اندیشہ ہو تو جب تک بچہ اتر نہ جائے ، سجدے سے سر نہ اٹھائے۔سجدے کو تَقَرُّباً(نیکی
کے طور پر)دَراز(لمبا)کرلینا جائز ہے اور کسی بچے کو اذیت(تکلیف) سے بچانا بھی
کارِ تَقَرُّب (نیکی کا کام) ہے۔(فتاویٰ
شارحِ بخاری،2/26)
تمہارے مردوں
میں بہترین:حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ رحمت ،شافعِ اُمّت ﷺ نے اِرشاد فرمایا:تمہارے مَردوں میں بہترین علی بن ابو طالب ہیں،تمہارے
نوجوانوں میں بہترین حسن اور حُسین ہیں اور تمہاری خواتین میں بہترین فاطمہ بنتِ
محمد ہیں۔(تاریخ بغداد،6/59)
حضرت حسن
و حسین رضی اللہ عنہما پر دم فرماتے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:نبیِ مکرَّم،شفیعِ اُمَم ﷺ حضرت
حَسن اور حضرت حُسین رضی اللہ عنہما پر تعویذ(دَم)کرتے تھے اور فرماتے تھےکہ بیشک
تمہارے والد(یعنی جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادوں)حضرت اسمعیل
اور حضرت اسحاق علیہما السلام کی حفاظت
کے لیے یہ دُعا پڑھتے تھے:میں تمہیں اللہ پاک کے پورے کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں
، ہرشیطان و زہریلے جانور سے اور ہر بیمار کرنے والی نظر سے۔
(بخاری،ص832، حدیث:3371)