حضرت امام حسن اور
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما یقیناً کرم
وشفقت کے باغ کے مہکتے پھول ہیں۔یہ دونوں سرکارِ کائنات، فخر موجودات ﷺ کے نواسے ہیں
اور آقا کریم ﷺ کو ان سے کمال محبت تھی ، آئیے!ان کی محبت اور ان کا ذکرِ خیر کرنے
کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔چنانچہ
حضرت حسن رضی
اللہ عنہ جگر گوشۂ رسول،حضرت فاطمۃ رضی
اللہ عنہا کے بڑے شہزادے اور حضور ﷺ کے نواسےہیں۔آپ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سےبہت مشابہ تھے۔آپ کا نام حسن حضور ﷺ نے ہی رکھا۔جاہلیت
میں کسی شخص کایہ نام نہیں رکھا گیا اور حضور ﷺ کے چھوٹے نواسے حضرت حسین رضی
اللہ عنہ ہیں۔حُضور پُر نُور،سیِّد
ِعالَم ﷺ نے آپ کانام حُسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنابیٹا فرمایا۔
( اسد الغابہ، 2 / 25 ، 26 ملتقطاً)
رسول
الله ﷺ کےہم شكل:حضور نبی کریم،روف رحیم ﷺ کے دونوں نواسے آپ کے مشابہ تھے ،
حضرت علی المرتضىٰ،شيرِ خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس کی یہ خواہش ہو کہ
وہ ایسی ہستی کو دیکھے جو چہرے سے گردن تک سرکار ﷺ کے سب سے زیادہ مشابہ ہو وہ حسن
بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے اور جس
کی یہ خواہش ہو کہ ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹخنے تک رنگ و صورت میں نبی کریم
ﷺکے سب سے زیادہ مشابہ ہو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے۔( معجم كبير ،3/95، حدیث:2768)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
معدوم
نہ تھا سایۂ شاہِ ثقلین اس
نور کی جلوہ گاہ تھی ذاتِ حسنین
تمثیل
نے اس سایہ کے دو حصے کیے
آدھے سے حسن بنے آدھے سے حُسین
دنیا میں
دو پھول: ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)
اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے
باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہےایسے ہی دُنیا اور دُنیا کی تمام چیزوں
میں مجھے حضرات حسنین کریمین پیارے ہیں۔اَولاد
پھول ہی کہلاتی ہے سارے نواسی نواسوں میں حضور ﷺ کو یہ دونوں فرزند(یعنی بیٹے)بہت
پیارے تھے۔
(مراۃ المناجیح،8/403)
اُن دو کا صدقہ جن کو کہا
میرے پُھول ہیں
کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل
(حدائقِ بخشش،ص77)
حسنین
کریمین رضی اللہ عنہما کی محبت حضور ﷺ کی
محبت ھے:مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ
أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِی یعنی جس نے ان
دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے
عداوت کی۔(ابن ماجہ، 1/96، حدیث:143)
اہلِ
بیت میں زیادہ پیارا : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ
اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا: حسن اور حسین۔حضور ﷺ فاطمہ رضی
اللہ عنہاسے فرماتے تھے کہ میرے پاس میرے
بچوں کو بلاؤ پھر انہیں سونگھتے تھے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔
(ترمذی،5/428، حدیث:
3797)
اس کی شرح میں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ حضور انہیں کیوں نہ سونگھتے وہ دونوں تو حضور کے پھول تھے پھول
سونگھے ہی جاتے ہیں انہیں کلیجے سے لگانا انتہانی محبت و پیار کے لیے تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سونگھناانہیں پیار کرنا انہیں لپٹانا چمٹانا
سنتِ رسول ہے۔
(مراۃ المناجیح، 8 / 404)
حضور ﷺ کی اسی شفقت و محبت کے سبب دونوں شہزادے اکثراَوقات رسول ِ اکرم ، شاہِ بنی
آدمﷺ کے پاس رہا کرتے اور آپ ان کے رونے
کی آواز سُن کر پریشان ہوجاتے۔حضرت ابوہرىرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبى کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر مىں نکلے،ابھى کچھ ہی راستہ
طے کیا تھا کہ آپ نےحضرات حَسن و حُسىن رضی اللہ عنہماکے رونے کی آواز سنى اور
دونوں اپنى والدہ ٔماجدہ سَىِّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے پاس ہى تھے، سرکار
دوعالم ﷺ ان کے رونے کی آواز سُن کر بے
قرار ہو گئے اور تىزى سےان کے پاس پہنچےاور سىدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
مىرے بىٹوں کو کىا ہوا؟حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا نے عرض کی:انہىں سَخْت پىاس لگى
ہے، حُضُورِ اکر م ﷺ پانى لىنے کے لىے
مشکىزے کى طرف بڑھے مگر اس میں پانی موجود نہیں تھا۔ان دنوں پانى کى سَخْت قِلَّت
اور شدىد حاجت تھى، آپ ﷺ نے آواز دى، کىا کسى کے پاس پانى ہے؟ ہر اىک نے کجاوؤں
سے لٹکتے ہوئے مشکىزوں مىں پانى دىکھا مگر پانی کا ایک قَطرہ تک نہ ملا، آپ نے فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرماىا:اىک بچہ مجھے دو، سیدہ فاطمہ رضی
اللہ عنہا نے اىک بچے کو پردے کے نىچے سے
دے دىا، آپ نے پکڑ کر اپنے سىنے سے لگالیامگر وہ پىاس کى وجہ سے مُسلسل روتے رہے
، آپ نے ان کے مُنہ مىں اپنى زبان مُبارک ڈال دى وہ اسے چوسنے لگے حتى کہ سىراب
ہو گئے۔حضرت ابوہرىرہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں نے دوبارہ اس کے رونے کی آواز
نہ سنی ، جبکہ دوسرے شہزادے مسلسل رورہے تھے، حضور ﷺ نے فرمایا:دوسرے کو بھی مجھے
دو، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دوسرے کو بھی حضور ﷺ کے حوالے کر دیا ، آپ نے ان
کے ساتھ بھی وہی معاملہ فرمایا، یعنی ان کے منہ میں بھی اپنی مبارک زبان ڈال دی تو
وہ بھی سیراب ہو کر خاموش ہو گئے۔اس کے بعد وہ دونوں ایسے خاموش ہو گئے کہ دوبارہ
ان کے رونے کی آواز نہ سنی۔(معجم كبير ،3/50، حدیث:2656)