ماں درحقیقت دنیا میں محبتِ الٰہی کا ایک روپ ہے۔چنانچہ سورۂ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴)(پ21،لقمن:14)ترجمہ:اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے نہ صرف ہمیں والدین کی خدمت کے احکام بتائے بلکہ عملی زندگی میں آپ نے کر کے دکھایا ۔چنانچہ رسولِ پاک ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے بعد پہلے آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لخت جگر کو خود دودھ پلایا اس کے بعد کچھ مدت کے لیے کنیز ثویبہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بعد یہ خدمت سر انجام دی۔در اصل مکہ کے شرفا میں رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خواہ بچے کو کچھ عرصے کے لیے گاؤں میں رکھنا پسند فرماتے تاکہ شہر کی آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری فضا میں بچوں کی صحت خوشگوار رہے۔

حضور ﷺ کی رضائی ماؤں میں یہ خواتین شامل ہیں:

1- حلیمہ سعدیہ

2-ام فروہ

3-بی بی ثوبیہ

4- بنو سلیم کی دو خواتین۔(آخری نبی کی پیاری سیرت،ص137)

رضائی ماں کا احترام:جعرانہ مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جہاں حضور ﷺ فتحِ حنین کے بعد 16 دن قیام پذیر رہے اور مالِ غنیمت تقسیم فرماتے رہے۔

ابو طفیل غنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی مقام پر حضور ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی، پس نبی کریم ﷺ نےاپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ابو طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حاضرین سے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سرکار دو عالمﷺ کو دودھ پلانے والی (دائی حلیمہ) ہے۔(ابو داود،4/434،حدیث:5144)

معلوم ہوا!حضور ﷺ نے ماں کی خدمت کی صرف ترغیب ہی نہیں دی بلکہ عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔جب رضائی ماں کا اس قدر احترام ہے تو حقیقی ماں کی شان کا عالم کیا ہوگا!