آقا کریم ﷺ کی ولادت کے بعد سب سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی الله عنہا  نے اپنے نورِ نظر اور لختِ جگر کو دودھ پلایا،پھر ابولہب کی آزاد کرده کنیز حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا۔جن خوش قسمت خواتین نے آپ کو دودھ پلایا انہیں یہ انعام ملا کر انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی۔حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حق یہ ہے کہ حضرت ثویبہ اور حضرت حلیمہ اسی طرح حضرت حلیمہ کے خاوند مسلمان ہوگئے۔(مراۃ المناجیح،6/534)

حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا: بی بی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور ﷺ نے نکاح کر لیا تو حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہما آپ کے پاس آیا کرتی تھیں۔حضور ﷺ ان کا بہت احترام فرماتے تھے اور مدینہ منورہ سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لیے کپڑے وغیرہ ہدیا بھیجا کرتے تھے۔(مراۃ المناجیح،6/ 534)

حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا:جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ غزوۂ حنین کے موقع پر جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔(الاستیعاب، 4/ 374)

ابو طفیل غنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی مقام پر حضور ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی، پس نبی کریم ﷺ نےاپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ابو طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حاضرین سے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سرکار دو عالمﷺ کو دودھ پلانے والی (دائی حلیمہ) ہے۔(ابو داود،4/434،حدیث:5144)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کے یہ دونوں عمل اظہار احترام واظہار کے لئے تھے۔معلوم ہوا!قیام تعظیمی جائز ہے اور انسان خواہ کتنا ہی عظمت والا ہو مگر اپنے مربی یعنی (تربیت کرنے والے) کا احترام کرے۔(مراۃ المناجیح،5/51)

ایک مرتبہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے پاس آئیں اور قحط سالی کی شکایت تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو 2 اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔(الحدائق لابن جوزی، 1/149)

حضرت بی بی ام ایمن رضی اللہ عنہا:حضرت ام ایمن ربیعہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کی ولادت کے بعد اپنی ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزار دی۔آپ حضور ﷺ کی رضائی والدہ بھی تھی۔حضور ﷺ فرماتے ہیں:ام ایمن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیۃ ، 1/ 428 ملخصاً)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ اپنی رضاعی ماؤں کا بھی کسی قدر ادب کیا کرتے تھے۔ جب دودھ پلانے والی دائی کا یہ ادب ہے تو سگی ماں کا ادب احترام کیا ہو گا!لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے والدین ، چاہے وہ سگے سوتیلے یا رضاعی ہوں ان کا دل و جان سے ادب کریں ،ان کی ضروریات کا خیال رکھیں،ان سے اچھے لہجے میں بات کریں،ان کے جذبات کا خیال رکھیں،ان کو تکلیف دینے سے بچیں،ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں،ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں،ان کی بات کو تو جہ سے سنیں،ان کا ہر جائز حکم مانیں۔ الغرض جب تک کوئی مانع شرعی نہ ہو ماں باپ کےحقوق ادا کریں۔