دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو اور جن کے ساتھ ہمارا تعلق وابستہ ہے ان کے ساتھ اچھا اور محبت  بھرا انداز رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خصوصاً اپنے رشتہ داری کے تعلق کو قائم رکھنے کا درس دیتا ہے ۔اسی رشتے میں ایک رشتہ رضاعی ماں کا بھی ہے یعنی وہ عورت جس نے مدتِ رضاعت میں کسی بچے کو دودھ پلایا ہو تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے۔دیگر رشتہ داروں کی طرح رضاعی ماں کو بھی اہمیت حاصل ہے اور اس کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔اگر بات کی جائے حضور ﷺ کی ماؤں کی تو ان میں سب سے پہلی خاتون جن کو پیارے آقا ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل ہوئی وہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا ہیں۔جنہوں نے ابتدائی ایام میں حضور ﷺ کو دودھ پلایا۔ان کے بعد حضور ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کو ملی اور ان کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے یہ خدمت سر انجام دی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص59)جن مبارک ہستیوں نے حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا ان میں ایک نام حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا بھی ملتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 30/296مفہوماً)

رسولِ اکرم ﷺ کو جتنی بھی خواتین نے دودھ پلایا ان کے ایمان کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ سب ایمان لائیں ۔(فتاویٰ رضویہ،30/295)

حضور ﷺ کا انداز کریمانہ جہاں اپنی ازواجِ مطہرات، اولاد پاک، غلاموں اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ قابل رشک و بے مثال تھا وہیں آپ کا مبارک انداز اپنی رضاعی ماؤں کے ساتھ بھی لاجواب تھا ۔اس کا اندازہ ذیل کی گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ

حضور اقدس ﷺ کی حقیقی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر شریف چھ سال کی ہوئی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص62) چونکہ آقا ﷺ نے اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی حیات کا زیادہ عرصہ نہ پایا تھا اس لیے جب ایک موقع پر آقا ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے تو رونے لگے۔صحابہ کرام نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: مجھے اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آگئی تو میں روپڑا۔(سیرۃ حلبیہ،1/154)

آقا ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ جب حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا بہت ادب و احترام فرماتے اور مدینہ منورہ سے ان کے لیے تحائف بھیجا کرتے تھے۔(الکامل فی التاریخ ،1/356)

اسی طرح حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ جب یہ پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور ان سے محبت بھرا برتاؤ کرتے۔ایک مرتبہ ان کے آنے پر حضور ﷺ نے ان کے لیے اپنی مبارک بچھا دی۔ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر قحط سالی کی شکایت کی تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں 1 اونٹ اور 40بکریاں دی۔(الحدائق لابن جوزی،1/169)

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے آقا ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا:اُمُّ اَیْمَن اُمِّی بَعْدَ اُمِّی یعنی اُمِّ اَیمَن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیہ،1/428 ملخصاً)

ایک موقع پر آپ کو جنتی ہونے کی بشارت یوں عطا فرمائی کہ جو کسی جنّتی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ اُمِّ اَیمَن سے نکاح کرلے۔(الاصابہ،8/359)

حضور ﷺ کا اپنی ماؤں کے ساتھ یہ محبت بھرا انداز اپنے اندر ہمارے لیے درس کے بے شمار پہلو رکھتا ہے۔ آقا ﷺ کی حیات طیبہ کے اس پہلو سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے بڑوں کا خصوصاً والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور ان کے آنے پر تعظیما کھڑے ہو جانا چاہئے۔ آقا ﷺ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے کبھی والدین کے لیے ہم بھی اپنی چادر بچھا دیں، ان کے سامنے اونچی آواز سے کلام نہ کریں ۔نیز ان کی وفات کے بعد بھی ان کو یاد رکھیں اور ان کو خوب ایصال ثواب کرتی رہیں۔اللہ پاک حضور ﷺ کی ماؤں کے صدقے ہمیں اپنی ماؤں کی محبت اور ان کی قدر نصیب فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ