حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت میں سے ہیں،  قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ۚ

ترجمہ کنزالعرفان:"اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردے۔(پارہ22، الاحزاب، آیت33)

اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی المرتضی، حضرت سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہراء، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی۔(سوانح کربلا، ص 79)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شہزادے پر آپ رضی اللہ عنہ کو ترجیح دی، جیسا کہ مروی ہے کہ ایک روز حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے دہنے زانو پر امام حسین رضی اللہ عنہ اور بائیں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کی کہ"ان دونوں کو خدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ رکھے گا، ایک کو اختیار فرما لیجئے"، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی، تین دن کے بعد حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا، اس واقعے کے بعد جب حاضر ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوسے لیتے اور فرماتے"مرحبا بمن فدیتہ بابنی"(ایسے کو مرحبا جس پر میں نے اپنا بیٹا قربان کیا)۔(آئینہ قیامت، ص13، 14)

آپ رضی اللہ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں، چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔"(سوانح کربلا، ص 94)

جنتی جوانوں کا سردار فرمانے سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ راہِ خدا عزوجل میں اپنی جوانی میں راہی جنت ہوئے، حضرت امامینِ کریمین ان کے سردار ہیں۔(سوانح کربلا، ص 103)

حضوراقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کمال رافت و محبت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا:"وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"(سوانح کربلا، ص 104)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں نونہالوں کو پھول کی طرف سونگھتے اور سینہ مبارک سے لپٹاتے۔(سوانح کربلا، ص 104)

ایک حدیث شریف میں ارشاد ہوا:"جس نے ان دونوں(حضرت امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما)سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی، اس نے مجھ سے عداوت کی۔"(سوانح کربلا، ص 103)

نیز فرمایا:"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ دوست رکھے اُسے جو حسین کو دوست رکھے، حسین سبط ہے اسباط سے۔"( آئینہ قیامت، ص 13)

آپ رضی اللہ عنہ نے راہِ حق میں پہنچنے والی تکالیف پر صبر کیا، یہاں تک کہ جامِ شہادت نوش فرمایا، لیکن باطل کے آگے سر نہ جھکایا۔

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اِسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد