1۔ولادت باکرامت:امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے،
حتٰی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت
بھی باکرامت ہے، سیّدنا امام حسین رضی
اللہ عنہ کی ولادت باسعادت شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضرت سیّدنا عارف باللہ نورالدین عبدالرحمن
جامی قدس سرہ السامی "شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ
ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ
الصلاۃ والسلام اور امام حسین رضی اللہ
عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔
مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں
سیّدہ فاطمہ کے
لختِ جگر آئے ہیں
واہ قسمت! کہ چراغِ حرمین آئے ہیں
اے مسلمانو مبارک کہ حسین آئے ہیں
2۔امام حسین کے فضائل پرچار فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم:
حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے
ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔
حسن و حسین رضی
اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے
محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے
مجھ سے دشمنی کی۔
حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
حسن و حسین رضی
اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول
ہیں۔(امام حسین کی کرامات، ص3)
3۔رُخسار سے انوار کا اظہار:
حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی
اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے
اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے۔
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
4۔کنویں کا پانی اُبل پڑا:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ
کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیّدنا ابن مطیع رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات
ہوئی، انہوں نے عرض کی: میرے کنویں
میں پانی بہت کم ہے ، براہِ کرم! دعائے
برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے
اس کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ
عنہ نے مُنہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا(یعنی پیا) اور کُلّی کی، پھر ڈول کو
واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔
باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت
تم کو مثردہ نار کا اے دُشمنانِ اہلِ بیت
5۔سونے کے سِکّوں کی تھیلیاں:
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے
اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:"تھوڑی دیر بیٹھ
جاؤ، ابھی کُچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت
سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار(یعنی سونے کے سکّے) کی پانچ تھیلیاں
آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئیں، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس کرم نوازی کے
باوجود تاخیر پر معذرت فرمائی۔
یا شہیدِ کربلا فریاد ہے
نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے
ہے میری حاجت میں طیبہ میں مروں
اے میرے حاجت روا فریاد ہے