سلطانِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین"  کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُول اللہ اور ریْحَانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان المعظم کو مدینۂ منورہ میں ہوئی، حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 25،26 متقظاً، دارالکتب العلمیہ بیروت)

کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی

زہرہ ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

(حدائق بخشش، ص79)

1۔غریبوں مسکینوں سے محبت:

محبت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا غریبوں اور مسکینوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ نواسۂ رسول حضرت سیّدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی زوجہ یہ پیغام لے کر گئیں کہ "ہم نے آپ کے لئے لذیذ کھانا اور خوشبو تیار کی ہے، آپ اپنے ہم پلہ دیکھیں اور انہیں ساتھ لے کر ہمارے پاس تشریف لائیے۔"حضرت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں جو مساکین تھے، انہیں لے کر گھر تشریف لے گئے، پڑوس کی خواتین آپ کی زوجہ کے پاس آ کر کہنے لگیں، خدا کی قسم!آپ کے گھر تو مساکین جمع ہوگئے ہیں، پھر حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:"میں تمہیں اپنے اُس حق کی قسم دیتا ہوں، جو میرا تجھ پر ہے کہ تم کھانا اور خوشبو بچا کر نہیں رکھو گی۔" پھر انہوں نے ایسا ہی کیا، آپ نے مساکین کو کھانا کھلایا، انہیں کپڑے پہنائے اور خوشبو لگائی۔(حسن اخلاق، ص62)

2۔گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیں:

ایک دفعہ عصام بن مصطلق نامی شخص جو کہ مولائے کائنات حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اُنہیں اور ان کے ابُّو جان حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہنے لگا، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کو جھڑکنے یا جوابی کارروائی کرنے کے بجائے اعُوذُ باللہ اور بِسْمِ اللہ پڑھنے کے بعد آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی:
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ؕ-اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۚ

ترجمہ کنز الایمان:اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو اور اے سننے والے، اگر شیطان تجھے کوئی کونچا دے( کسی بُرے کام پر اُکسائے) تو اللہ کی پناہ مانگ، بے شک وہی سنتا جانتا ہے، بے شک وہ جو ڈر والے ہیں، جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے، ہوشیار ہو جاتے ہیں، اُسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔"(پ9، الاعراف:199۔201)

پھر فرمایا:"اپنے اوپر بوجھ ہلکا رکھ لو اور میں اللہ سے تیرے لئے اور اپنے لئے مغفرت کا سوال کرتا ہوں، اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ اس قدر عفو ودرگزر، نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آئے کہ اُس کا بغض و عداوت ایک دم محبت میں تبدیل ہوگیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا:وَمَا عَلَی وَجْہِ الْاَرْضِ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْہُ وَ مِنْ اَبِبْہِ۔یعنی" روئے زمین پر حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ابو جان حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی معبود نہیں۔"(تفسیر بحر المحیط، جلد 4، صفحہ 446، دار الکتب العلمیہ بیروت، تفسیر قرطبی، جلد 4، صفحہ 250، ملخصاً دار الفکر بیروت)

3۔نواسۂ رسول رضی اللہ عنہ کی عبادات:

ہمارے آقا و مولا، شہیدِ کربلا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بڑے عبادت گزار تھے، چنانچہ شبِ عاشورا(10 محرم کی رات) امام عالی مقام، امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے پیارے بھائی حضرت سیّدنا عباس علمدار رضی اللہ عنہ کو فرمایا:"کسی طرح یہ لڑائی کل تک مؤخر ہو جائے اور آج کی رات ہمیں اللہ پاک کی عبادت کے لئے مل جائے، اللہ کریم خوب جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوتِ قرآن اور کثرت کے ساتھ دُعا مانگنا اور اِسْتغفار کرنا بہت پسند ہے۔"(الکامل فی التایخ، جلد 3، صفحہ 415، بیروت)

4۔نماز روزے کی کثرت:

حضرت سیدنا علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کثرت سے نماز پڑھتے، روزے رکھتے، حج کرتے، صدقہ و خیرات کرتے اور تمام بھلائی کے کاموں کو کرتے تھے ۔(اسد الغابۃ، ج 2، ص28، رقم 1173)

شہزادۂ امام عالی مقام، حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"میرے ابو جان حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دن اور رات میں ہزار(1000) رکعت نوافل ادا فرمایا کرتے تھے۔"(عقد الفرید، ج3، صفحہ 114، مختصراً، دار الکتب العلمیہ بیروت)

عظیم تابعی بزرگ حضرت سیّد نا امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں مکمل قرآن کریم ختم فرمایا کرتے تھے۔"(سیر اعلام النبلاء، ج4، ص410، دارالفکر بیروت)

آپ کو حج کا بہت شوق تھا، چنانچہ مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے 25 حج پیدل کئے۔(ابن عساکر، جلد 14، صفحہ 180)

4۔سخاوت:

امام ِعالی مقام، امامِ عرشِ مقام، امامِ ہمام، امامِ تشنہ کام، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سواری کا گزر مساکین کے پاس سے ہوا، وہ بچے کھچے ٹکڑے کھا رہے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں سلام ارشاد فرمایا، مساکین نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے پارہ 20، سورۃ القصص، آیت نمبر 83 کا یہ حصّہ تلاوت فرمایا: لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ

ترجمہ کنز الایمان:جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد۔

پھر آپ رضی اللہ عنہ سواری سے نیچے تشریف لائے اور اُن کے ساتھ کھانا کھایا، اس کے بعد ارشاد فرمایا:"میں نے تمہاری دعوت قبول کی، اب تم میری دعوت قبول کرو"، پھر حضرت سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اُن کو سوار کیا اور اپنے گھر لا کر ان کو کھانا کھلایا ا ور کپڑے اور دراہم عطا فرمائے۔(حسن اخلاق، ص63)

سخاوت بھی تیرے گھر کی، عنایت بھی ترے گھر کی

تِرے در کا سوالی، جھولیاں بھر بھر کے لاتا ہے

(وسائل بخشش،ص445)

5۔ابو جان سے محبت کا عالم:

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ابو جان حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ سے بے حد پیار کرتے تھے اور اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ اپنے تمام شہزادوں(بیٹوں) کے نام "علی" رکھتے تھے، بڑے شہزادے (یعنی بڑے بیٹے) کا نام "علی اکبر رضی اللہ عنہ"ہے، اُن سے چھوٹے جوکہ امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں، مگر اِن کا اَصل نام"علی اوسط رضی اللہ عنہ"اور سب سے چھوٹے شہزادے، ننھے ننھے پیارے پیارے"علی اصغر رضی اللہ عنہ"ہیں۔