سلطانِ کربلا،  امام عالی مقام، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین" کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُولُ اللہ اور ریْحانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 25،26 متقظاً، دارالکتب العلمیہ بیروت)

آپ رضی اللہ عنہ کے تو کیا کہنے!آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں، آپ کے سیدھے کان میں آخری نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے اذان دی اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جھوٹے شریف سے گھٹی عطا فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 24،25 ملخصاً)

1۔منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدتِ حمل چھ ماہ ہوئی ہو ۔(شواہد النبوۃ، صفحہ 228، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)

2۔شبیہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:حسن بن علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔(رواہ البخاری، 3792،3748)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے نچلے حصّے سے (سینے سے ناخن پاؤں تک) مشابہت رکھتے تھے۔ (ترمذی، جلد 5، صفحہ 430، حدیث 3804)

ایک سینے تک مشابہہ اک وہاں سے پاؤں تک

صاف شکل پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں

3۔سبطِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالی اس سے محبت فرماتا ہے، جو حسین سے محبت کرے، حسین اسباط میں سے ایک "سبط" ہیں۔(تر مذی، جلد 5، صفحہ 429، حدیث3800)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں اور حسین گویا ایک ہیں، ہم دونوں سے محبت ہر مسلمان کو چاہئے، مجھ سے محبت حسین سے محبت اور حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، چونکہ آئندہ واقعات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر تھے، اس لئےاس قسم کی باتیں اُمّت کو سمجھائیں اور" سبط" وہ درخت ہے، جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت، ایسے ہی میرے حسین سے میری نسل چلے گی اور ان کی اولاد سے مشرق و مغرب بھر جائے گی، دیکھ لو!آج ساداتِ کرام مشرق و مغرب میں ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حسنی سیّد تھوڑے ہیں اور حسینی سیّد بہت زیادہ ہیں، اس فرمانِ عالی کا ظہور ہے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 480، ضیاء القرآن پبلی کیشنر لاہور)

4۔جنتی جوانوں کے سردار:

آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔"(ترمذی، جلد 5، صفحہ 426، حدیث 3793)

ایک اور جگہ فرمایا:"جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے(ایک روایت میں ہے)جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے، وہ"حسین بن علی" کو دیکھے۔( اشرف المؤبد لآلِ محمد للنبہانی،صفحہ 49)

5۔ریحانۃ الرسول:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"(بخاری، جلد 2، صفحہ 547، حدیث3753)

اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن وحسین دنیا میں جنت کے پھول ہیں، جو مجھے عطا ہوئے، ان کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی ہے، اس لئے حضور انہیں سونگھا کرتے تھے اور حضرت علی سے فرماتے تھے:"اے دو پھولوں کے ابُّو! تم پر سلام ہو۔"(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 462)


۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں،  اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین سے محبت کرے، حسین اَسباط میں سے ایک "سِبط" ہے۔

2۔حسن و حسین رضی اللہ عنہ جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

3۔جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے، (ایک روایت میں ہے) جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے، وہ "حسین ابنِ علی" کو دیکھے۔

4۔حسن میرے ہیں اور حسین علی کے۔

5۔حضرت سیّدنا امام حسین کثرت سے نماز پڑھتے، روزے رکھتے، حج کرتے، صدقہ و خیرات کرتے اور تمام بھلائی کے کاموں کو کرتے تھے۔

کربلا کے جانثاروں کو سلام، فاطمہ کے پیاروں کو سلام

یا حسین ابنِ علی مشکل کشا، آپ کے سب جانثاروں کو سلام


حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ   کی ولادت 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے گھر مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک شبیر یعنی حسین رکھا گیا آپ کا نام بھی آپ کے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرح اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ۔ سبط رسول اللہ اور ریحانتہ الرسول (رسول اللہ کے پھول) آپ کے القابات ہیں ۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ نے دس محرم الحرام 60 ہجری کو میدان کربلا میں باطل کو خاک میں ملا کر جام شہادت نوش فرمایا۔ امام عالی مقام بے شمار خصوصیات کے حامل ہیں ،آپ کی تمام خصوصیات کا احاطہ کرنا قدرِ مشکل ہے۔ان میں سے چندیہ ہیں ۔

(1) انسانوں کی مدتِ حمل عموماً 9 ماہ ہوتی ہے یہ اللہ پاک کی قدرت ہے اور اس میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں وہی علیم و خبیر بہتر جانتا ہے ۔اگر کسی بچے کی پیدائش وقت سے پہلے ہوجائے تو وہ مردہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ بھی ہوتو کچھ دن کی اذیت و تکلیف کے بعد دم توڑ جاتا ہے مگر امام عالی مقام کی شان و خصوصیت کے کیا کہنے ! اس بارے میں حضرت عارِف بِاللّٰہ نورُالدّین عبدُ الرّحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ علیہ السلام اور امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچّہ زندہ نہ رہا جس کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہوئی ہو ۔( شواہد النبوۃ ، ص۲۲۸ )

(2)پیدائش کے بعد نبی پاک کی کرم نوازیاں : امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش کے بعد بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب سردار انبیاء ،حبیب کبریا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنے چھوٹے نواسے کی ولادت کی خبر سنی تو آپ سیدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی آغوشِ رحمت میں لے کر اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔ (البدايۃ والنہایہ، 5/519) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اور آپ کا نام شبیر یعنی حسین رکھا۔

(3)نورانی پیشانی و رخسار :آپ کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے توآپ رضی اللہ عنہ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدَّس رُخسار (یعنی گال ) سے انوار نکلتے اور قرب و جوارضِیا بار (یعنی اطراف روشن ) ہو جاتے۔ (شواہد النبوۃ ، ص۲۲۸ )

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

(حدائقِ بخشش، ص۲۴۶ )

(4)رنگ و جسامت میں نبی پاک سے مشابہت:آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک ﷺ کے مشابہ تھے جیساکہ حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:جس کی یہ خواہش ہو کہ وہ ایسی ہستی کو دیکھے جو چہرے سے گردن تک سرکار ﷺ کے سب سے زیادہ مُشابہ ہو وہ حَسن بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے اور جس کی یہ خواہش ہو کہ ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹَخْنے تک رنگ و جِسامت میں نبیِ کریم ﷺ کے سب سے زِیادہ مُشابہ ہو وہ حُسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے۔(معجم کبیر، ۳/۹۵، حديث:۲۷۶۸)

(5)یوم عاشورہ کا آپ سے منسوب ہونا : اسلام میں یوم عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام کو بہت اہمیت حاصل ہے اس دن بہت سے واقعات رونما ہوئے مثلا اسی دن حضرتِ سیِّدُنا نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری (2) اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی (3)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی (4)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے (5)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے (الفردوس ج۱ ص۲۲۳ حدیث ۸۵۶) (6)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت (دریائے نیل میں ) غرق ہوا(بخاری ج۲ ص۴۳۸ حدیث ۳۳۹۷۔۳۳۹۸) (7) اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی ملی (8)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے(فیض القدیر ج۵ص۲۸۸تحت الحدیث۷۰۷۵) (9)سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے خاندان اور رفقاء کو ا بھوکا پیا سارکھنے کے بعد اِسی عاشوراء کے دن میدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔لیکن جب 10 محرم الحرام کو آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ کی شہادت کو اتنی عظیم شہرت حاصل ہوئی کہ محرم الحرام کا مہینہ بالخصوص 10 محرم الحرام آپ کی ذات سے منسوب ہوگیا۔


۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سر اپا کرامت تھے آپ کی ولادت با سعادت بھی  با کر امت ہے آپ پانچ شعبان المعظم چار ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ، حضرت سیدنا نور الدین عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شو اہد النبوۃ میں فرماتے ہیں کہ امام پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے۔

2۔ حضرت علامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار یعنی گال سے انوار نکلتے اور اطراف روشن ہوجاتے۔

3۔ آپ رضی اللہ عنہ کا مبارک نام ، حسین، کنیت ابو عبداللہ اور القاب، سبطِ رسول اللہ اور ریحانہ الرسول ( یعنی رسول کے پھول ہیں)

کیا بات رضااس چمنستان کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسن اور حسین پھول

4 فرامین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :

4۔ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں اللہ پاک اسی سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے جس نے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ، حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں، حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا میں بھی میرے دو پھول ہیں۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرا نہ نور کا

5۔ صحابی رسول حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے جب یزیدیوں نے حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر انور کو نیزے پر چڑھا کر کوفے کی گلیوں میں گشت کیا اس وقت میں اپنے مکان کے بالا خانہ یعنی اوپر والے حصے پر تھا، جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سر پاک نے ( پارہ ۱۵ سورة الکہف کی آیت ۱۹ تلاوت فرمائی ۔ترجمہ کنزالایمان : کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ ( یعنی غار) اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے، اسی طرح ایک اور بزرگ نے فرمایا : جب سر مبارک کو نیزے سے اتار کر ابن زیاد بدنہاد کے محل میں داخل کیا،تو آپ رضی اللہ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ ا قدس پر پارہ ۱۳ سورة ابراہیم کی آیت ۴۲ تلاوت ہورہی تھی۔ ترجمہ کنزالایمان :اور ہر گز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔

عبادت ہو تو ایسی ہو تلاوت ہو تو ایسی ہو

سر شبیر تو نیزے پہ بھی قرآن سنا تا ہے


فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹) (سورۃ النساء ۔ 69)

تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔

ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مُردہ مت کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں(ان کی زندگی کا) شعور نہیں ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ)

اسی طرح ایک اورمقام پرارشادہوا:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، تم انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیاجاتا ہے‘‘۔

(سورۂ آل عمران)

شہید کا لغوی معنی ہے : گواہ ، کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔

اور شریعت میں اِسکا مفہوم ہے: اللہ تعالی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا ، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں، اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا۔

شہادت کی قِسمیں : (1) شہیدءِ المعرکہ :یعنی اللہ کے لئے نیک نیتی سے میدانِ جِہاد میں کافروں ، مُشرکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل ہونے والا ۔

(2)فی حُکم الشہید:شہادت کی موت کا درجہ پانے والا، یعنی میدان جِہاد کے عِلاوہ ایسی موت پانے والا جسے شہادت کی موت قرار دِیا گیا ۔

اپنے آخری رسول مُحمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمت پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ مُحمدیہ الصلاۃُ و السلام علی نبیھا ، میں درجہِ شہادت پر صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجہ پر فائزفرمایا ہے ۔

مندرجہ بالا صحیح احادیث میں ہمیں اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بتا یا کہ شہادت کی موت کون کون سی ہے ، اگر ہم اِن احادیث میں بیان کی گئی اموات کو ایک جگہ اکٹھا بیان کریں تو مندرجہ ذیل بنتی ہیں :

اللہ کی راہ میں قتل کیا جانے والا ، یعنی شہیدِ معرکہ ، اور مسلمانوں کے یقینی اجماع کے مطابق یہ افضل ترین شہادت ہے۔

اللہ کی راہ میں مرنے والا ، یعنی جو اللہ کی راہ میں نکلا اور موت واقع ہو گئی ، مثلاً غازی ، مہاجر ، وغیرہ (سورۃ النساء، آیت : 100)

مطعون ، طاعون کی بیماری سے مرنے والا

پیٹ کی بیماری سے مرنے والا

ڈوب کر مرنے والا

ملبے میں دب کر مرنے والا

ذات الجنب ( بیماری کا نام جِس میں پیٹ کے پھلاؤ ، ابھراؤ کی وجہ سے پسلیوں کی اندرونی اطراف میں ورم (سوجن) ہو جاتی ہے جو موت کا سبب بنتی ہے ) سے مرنے والا ۔

آگ سے جل کر مرنے والا

حمل کی وجہ سے مرنے والی ایسی عورت جس کے پیٹ میں بچہ بن چکا ہو

ولادت کے بعد ولادت کی تکلیف سے مرنے والی عورت،

پھیپھڑوں کی بیماری (سل) کی وجہ سے مرنے والا

جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا

جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا

جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا

جواپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا

شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹)

تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔(سورہ النساء ۔ 69)

اللہ تعالی کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔

1۔ کیونکہ اس کے لیے جنت کی شہادت ( یعنی گواہی ) دے دی گئی ہے (کہ وہ یقیناً جنتی ہے )

2۔ کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد ( یعنی حاضر ) رہتی ہیں ۔

3۔ کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی۔ نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا ۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے ۔ ( التذکرۃ للقرطبی )

4۔ ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی القتل یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا ۔

5۔ کیونکہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔

6۔ جب اللہ تعالی نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی( شہادت) کی وجہ سے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔

( 7 ) ابن انبار رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت (یعنی گواہی )دیتے ہیں اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے ۔

( 8 ) اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں ۔

( 9 ) کیونکہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد ( یعنی حاضر)ہوتے ہیں ۔

( 10 ) اس کے پاس ایک شاہد [ گواہ ] ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا ۔

شہداء کی زندگی( یعنی حیاۃ الشہداء ) کے بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں ۔

( 1 ) علامہ قرطبی اور اکثر علماء کرام فرماتے ہیں کہ شہداء کی حیات یقینی چیز ہے اور بلا شبہہ وہ جنت میں زندہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے خبر دی ہے اور ان کی موت بھی ہو چکی ہے اور ان کے جسم مٹی میں ہیں اور ان کی روحیں دوسرے ایمان والوں کی ارواح کی طرح زندہ ہیں البتہ شہداء کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ ان کے لیے شہادت کے وقت سے جنت کی روزی جاری کر دی جاتی ہے تو گویا کہ ان کے لیے ان کی دنیوی زندگی جاری ہے اور وہ ختم نہیں ہوئی

( 2 ) علماء کی ایک جماعت کا فرمانا ہے کہ قبروں میں شہداء کرام کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہ عیش و آرام کے مزے کرتے ہیں جیسا کہ کافروں کو ان کی قبروں میں زندہ کر کے عذاب دیا جاتا ہے ۔

( 3 ) مجاہد رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں کہ ان کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں رہتے ہیں اور وہ کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں ۔ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہنے اسے صحیح قول قرار دیا ہے۔

(4)ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے لیے ہر سال ایک جہاد کا اجر لکھا جاتا ہے اور وہ اپنے بعد قیامت کے دن تک کے جہاد میں شریک رہتے ہیں ۔

( 5 ) ایک قول یہ ہے کہ ان کی روحیں عرش کے نیچے قیامت تک رکوع سجدے میں مشغول رہتی ہیں جیساکہ ان زندہ مسلمانوں کی روحیں جو باوضو سوتے ہیں ۔

( 6 ) ایک قول یہ ہے کہ ان کے جسم قبر میں خراب نہیں ہوتے اور انہیں زمین نہیں کھاتی یہی ان کی زندگی ہے ۔

شہداء کی حیات کا مطلب یہ ہے کہ شہداءکو ایک طرح کی جسمانی زندگی بھی حاصل ہوتی ہے جو دوسرے مردوں کی زندگی سے زیادہ ممتاز ہوتی ہے اور ان کی ارواح کو بھی اللہ کے ہاں مختلف مقامات حاصل ہوتے ہیں یعنی ان کی روحوں کا تعلق ان کے جسموں سے بھی رہتا ہے اور ان کی ارواح کو اللہ تعالی کے ہاں بھی مختلف مقامات ملتے ہیں ان میں سے بعض کی ارواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتے پیتے ہیں اور عرش کے سائے میں بنی ہوئی قندیلوں میں بیٹھتے ہیں جیسا کہ صحیح احادیث کے حوالے سے ان شاء اللہ آگے آئے گا اوران میں سے کچھ جنت کے دروازے کے پاس دریا کے کنارے والے محل میں ہوتے ہیں اور جنت سے صبح اور شام ان کی روزی آتی ہے جیسا حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ کی روایت میں گذر چکا ہے اور کچھ ان میں سے فرشتوں کے ساتھ جنت میں اور آسمانوں میں اڑتے پھرتےہیں جیسا کہ حضرت جعفر رضی اللہُ عنہ کی روایت میں آئے گا اور کچھ ان میں سے جنت کی اونچی مسہریوں پر ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن رواحہ رضی اللہُ عنہ کی روایت میں آئے گا ان کے مقامات کا یہ فرق دنیامیں ان کے ایمان اخلاص اور جان دینے کے جذبے کے فرق کی وجہ سے ہوگا شہادت سے پہلےجس کا ایمان و اسلام میں جتنا بلند مقام ہوگا شہادت کے بعد اللہ کے ہاں اس کا اتنا بلند مقام ہوگا آیئے اب شہداء کی جسمانی زندگی پر کچھ دلائل پڑھتے ہیں ۔

٭ حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمرو بن جموع رضی اللہُ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ دونوں انصاری صحابی تھے ۔ سیلاب کی وجہ سے ان کی قبریں کھولی گئیں تاکہ ان کی جگہ بدلی جاسکے یہ دونوں حضرات ایک قبر میں تھے جب ان کی قبریں کھولی گئیں تو ان کے جسموں میں کوئی فرق نہیں آیا تھا گویا کہ انہیں کل دفن کیا گیا ہو، ان میں سے ایک کا ہاتھ شہادت کے وقت ان کے زخم پر تھا اور وہ اسی حالت میں دفن کئے گئے تھے دیکھا گیا کہ اب تک ان کا ہاتھ اسی طرح ہے لوگوں نے وہ ہاتھ وہاں سے ہٹایا مگر وہ ہاتھ واپس اسی طرح زخم پر چلا گیا غزوہ احد کے دن یہ حضرات شہید ہوئے تھے اور قبریں کھودنے کا یہ واقعہ اس کے چھیالیس سال بعد کا ہے ۔ ( مؤطاامام مالک، سیر اعلام النبلاء )

یہ روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے براہ راست بھی آئی ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الجہاد میں سند کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہر کظامہ جاری کرنے کا اردہ فرمایا تو اپ نے اعلان کروایا کہ جس شخص کا کوئی شہید ہوتو وہ پہنچ جائے پھر ان شہداء کے اجسام نکالے گئے تو وہ بالکل تر و تازہ تھے یہاں تک کہ کھودنے کے دوران ایک شہید کے پاؤں پر کدال لگ گئی تو خون جاری ہو گیا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک )

٭ عبدالصمد بن علی رحمۃُ اللہِ علیہ( جو بنو عباس کے خاندان میں سے ہیں )کہتے ہیں کہ میں اپنے( رشتے کے ) چچا حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ کی قبرپر آیا قریب تھا کہ سیلاب کا پانی ان کو ظاہر کر دیتا میں نے انہیں قبر سے نکالا تو وہ اپنی سابقہ حالت پر تھے اور ان پر وہ چادر تھی جس میں انہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفنایا تھا اور ان کے قدموں پر اذخر(گھاس ) تھی ۔ میں نے ان کا سر اپنی گود میں رکھا تو وہ پتیل کی ہانڈی کی طرح ( چمک رہا) تھا میں نے گہری قبر کھدوائی اور نیا کفن دے کر انہیں دفنا دیا ۔ ( ابن عساکر )

٭ قیس بن حازم فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو ان کے کسی رشتہ دار نے خواب میں دیکھا تو انہوں نے فرمایا تم لوگوں نے مجھے ایسی جگہ دفن کر دیا ہے جہاں پانی مجھے تکلیف پہنچاتا ہے میری جگہ یہاں سے تبدیل کرو ۔ رشتے داروں نے قبر کھو دی تو ان کا جسم نرم و نازک چمڑے کی طرح تھا اور داڑھی کے چند بالوں کے علاوہ جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ( مصنف عبدالرزاق )

ترمذی [ حدیث کی کتاب ] میں اصحاب الاخدود ( خندوقوں میں شہید کئے جانے والے جن کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ بروج میں ہے ] کا واقعہ مذکور ہے اس میں یہ بھی ہے کہ لڑکا جسے بادشاہ نے شہید کرکے دفن کر دیا تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قبر سے نکالا گیا تو اس کی انگلی اس کی کنپٹی پر تھی [ کیونکہ یہیں اس کو تیر لگا تھا ] ۔ ( ترمذی )

مصنف رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیانی فترۃ والے زمانے کا ہے ۔

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل کوفہ یہ بات نقل کرتےہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی دیوار گر گئی اور یہ ولید بن عبدالمالک کا دور حکومت تھا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے تو روضہ مبارک سے ایک پاؤں کھل گیا لوگ ڈر گئے کہ شاید یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں مبارک ہے چنانچہ لوگ سخت غمگین ہوئے اس وقت حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر نے آکر وہ پاؤں دیکھا تو فرمایا یہ میرے دادا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں مبارک ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے ۔ ( التذکرۃ للقرطبی )

حضرت ثابت بن قیس بن شماس کا واقعہ بہت مشہور ہے اور یہ واقعہ کئی صحابہ کرام اورمفسرین نے ذکر فرمایا ہے حضرت ثابت کی بیٹی فرماتی ہیں کہ جب قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی : ترجمہ : اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کر و ۔ ( الحجرات، 2 )

تو میرے والد گھر کے دروازے بند کرکے اندر بیٹھ گئے اور رونے لگے جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ پایا تو بلا کر گھر بیٹھ رہنے کی وجہ پوچھی انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری آواز ( طبعی طورپر )بلند ہے میں ڈرتا ہوں کہ میرے اعمال ضائع نہ ہو جائیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ ان میں سے نہیں ہیں بلکہ آپ خیر والی زندگی جئیں گے اور خیر والی موت مریں گے ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی : ترجمہ : اللہ تعالی کسی اترانے والے خودپسند کو پسند نہیں کرتا ۔ ( لقمان ۔ 18 )

تو میرے والد نے پھر دروازہ بند کر دیا گھر میں بیٹھ گئے اور روتے رہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں نہ پایا تو انہیں بلوایا اور وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو خوبصورتی کو پسند کر تا ہوں اور اپنی قوم کی قیادت کو بھی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ ان میں سے نہیں (جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے)بلکہ آپ تو بڑی پسندیدہ زندگی گزاریں گے اور شہادت کی موت پاکر جنت میں داخل ہوں گے۔ جنگ یمامہ کے دن جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مسلمانوں نے مسیلمہ کذاب پر حملہ کیا تو ابتداء میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اس وقت حضرت ثابت بن قیس اور حضرت سالم رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو اس طرح نہیں لڑتے تھے۔ پھر دونوں حضرات نے اپنے لیے ایک ایک گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہوکر ڈٹ کر لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے اس دن حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک قیمتی زرہ پہن رکھی تھی ان کی شہادت کے بعد ایک مسلمان نے وہ زرہ اٹھالی ۔

اگلے دن ایک مسلمان نے خواب میں دیکھاکہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ اسے فرما رہے ہیں میں تمہیں ایک وصیت کر رہا ہوں تم اسے خیال سمجھ کر ضائع نہ کر دینا میں جب کل شہید ہوا تو ایک مسلمان میرے پاس سے گزرا اور اس نے میری زرہ اٹھالی وہ شخص لوگوں میں سب سے دور جگہ پر رہتا ہے اور اس کے خیمے کے پاس ایک گھوڑا رسی میں بندھا ہوا کود رہا ہے اور اس نے میری زرہ کے اوپر ایک بڑی ہانڈی رکھ دی ہے اور اس ہانڈی کے اوپر اونٹ کا کجاوہ رکھا ہوا ہے تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ کسی کو بھجوا کر میری زرہ اس شخص سے لے لیں پھر جب تم مدینہ منورہ جانا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) سے کہنا کہ میرے ذمے اتنا اتنا قرضہ ہے اور میرے فلاں فلاں غلام آزاد ہیں ( پھر اس خواب دیکھنے والے کو فرمایا ) اور تم اسے جھوٹا خواب سمجھ کر بھلا مت دینا ۔ چنانچہ (صبح ) وہ شخص حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان تک پیغام پہنچایا تو انہوں نے آدمی بھیج کر زرہ وصول فرمالی ۔ پھر مدینہ پہنچ کر اس شخص نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پورا خواب سنایا تو انہوں نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی وصیت کو جاری فرما دیا ۔ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے مرنے کے بعد وصیت کی ہو اور اس کی وصیت کو پورا کیا گیا ہو سوائے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ۔ ( المستدرک )

مصنف رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح کا ایک واقعہ علامہ حزولی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو محمد عبد اللہ بن زید رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں لکھا ہے یہ واقعہ کچھ معتمد لوگوں نے حضرت ابو محمد رحمۃ اللہ علیہ سے خود سناہے ابومحمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں عبدالرحمن بن ناصر اندلسی کے زمانے میں خندق والے سال جہاد میں نکلا ۔ لڑائی میں مسلمانوں کو شکست ہوگئی اور بچ جانے والے مختلف اطراف میں بکھر گئے میں بھی بچ جانے والوں میں شامل تھا میں دن کو چھپ جاتا تھا اور رات کو چلتا تھا ایک رات اچانک میں ایک ایسے لشکر میں پہنچ گیا جس نے پڑاؤ ڈالا تھا ۔

ان کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے آگ جل رہی تھی اور جگہ جگہ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی میں نے شکر ا دا کہ مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گیا ہوں چنانچہ میں ان کی طرف چل پڑا اچانک میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی اس کا گھوڑا قریب بندھا ہوا تھا اور وہ بنی اسرائیل کی تلاوت کر رہاتھا میں نے اسے سلام کیا اس نے جواب دیکر کہا کیا آپ بچ جانے والوں میں سے ہیں میں نے کہا جی ہاں اس نے کہا آپ بیٹھے اور آرام کیجئے پھر وہ میرے پاس بے موسم کے انگور دو روٹیاں اور پانی کا پیالہ لے آیا میں نے ایسا لذیذ کھانا کبھی نہیں کھایا تھا پھر اس نے کہا کیا آپ سونا چاہتے ہیں میں نے کہا جی ہاں اس نے اپنی ران پر میرا سر رکھا اور میں سو گیا یہاں تک کہ سورج کی شعاعوں نے مجھے جگایا میں نے دیکھا کہ اس میدان میں کوئی بھی نہیں ہے اور میرا سر ایک انسانی ہڈی کے اوپر پڑا ہوا ہے میں سمجھ گیا کہ وہ سب شہداء کرام تھے میں اس دن چھپا رہا جب رات ہوئی تو پھر میں نے دیکھا کہ ایک لشکر وہاں سے گزر رہا ہے اور وہ گزرتے ہوئے مجھے سلام کرتے تھے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے ان سب کے آخر میں ایک آدمی لنگڑے گھوڑے پر سوار تھا اس نے مجھے سلام کیا تو میں نے کہا اے بھائی یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا یہ شہداء ہیں اور اپنے گھر والوں سے ملنے جا ر ہے ہیں میں نے کہا تمہارا گھوڑا لنگڑا کیوں ہے اس نے کہا اس گھوڑے کی قیمت میں سے میرے ذمے دو دینار باقی ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم اگر میں مسلمانوں کے ملک پہنچ گہا تو تمہارے یہ دو دینار ادا کروں گا یہ گوڑ سوار گھوڑا چلاتا ہوا لشکر میں شامل ہو گیا پھر وہ واپس لوٹا اور اس نے مجھے اپنے پیچھے بٹھالیا جب صبح مرغوں کی اذان سنائی دی تو ہم مدینہ سالم نامی جگہ پہنچ چکے تھے اس شہر اور اس جگہ جہاں سے میں سوار ہوا تھا کے درمیان دس دن کی مسافت تھی اس شہید نے مجھے کہا تم اس شہر میں چلے جاؤ میں اسی میں رہتا تھا وہاں جاکر تم محمد بن یحییٰ غافقی کے گھر کا پوچھنا اس گھر میں جاکر تم میری بیوی جس کا نام فاطمہ بنت سالم ہے کہ میرا سلام کہنا اور اسے یہ پیغام دینا کہ طاق میں ایک تھیلی ہے جس میں پانچ سو دینار رکھے ہوئے ہیں تم ان میں سے دو دینار فلاں آدمی کو پہنچا دو کیونکہ میرے ذمے گھوڑے کی قیمت میں سے یہ دو دینار باقی ہیں میں شہر میں داخل ہوا اور میں نے اس کے کہنے کے مطابق کیا ۔ اس کی بیوی نے وہ تھیلی نکالی پھر مجھے کھانا کھلایا اور دس دینار دے کر کہا یہ سفر میں آپ کے کام آئیں گے۔ ( شرح دیباجۃ الرسالہ )

محمود وراق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک کالے رنگ کا مبارک نامی شخص تھا ہم اسے کہتے تھے کہ اے مبارک کیا آپ شادی نہیں کرتے تو وہ کہتے تھے میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ حورعین سے میری شادی کر دے ۔ محمود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم جہاد میں نکلے ہوئے تھے کہ دشمنوں نے ہم پر حملہ کردیا اس میں مبارک شہید ہوگیا ہم نے اسے دیکھا تو اس کا سر الگ پڑا ہواتھا اور باقی جسم الگ اور اس کے ہاتھ اس کے سینے کے نیچے تھے ۔ ہم اس کے پاس کھڑے ہوئے اور ہم نے کہا اے مبارک اللہ تعالی نے کتنی حوروں سے آپ کی شادی کرائی ہے انہوں نے اپنا ہاتھ سینے کے نیچے سے نکالا اور تین انگلیاں بلند کرکے اشارہ کیا ( کہ تین حوروں سے شادری ہوئی ہے ) ( روض الریاحین )

سعیدالعجمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم سمندر میں جہاد کے لیے نکلے ہمارے ساتھ ایک بہت عبادت گزار نوجوان بھی تھا جب سخت لڑائی شروع ہوئی تو وہ بھی لڑتا ہوا شہید ہو گیا اور اس کی گردن کٹ گئی ہم نے دیکھا کہ وہ سر پانی کے اوپر آیا اور ہماری طرف متوجہ ہو کر یہ آیت پڑھنے لگا:ترجمہ: وہ ( جو) آخرت کا گھر ( ہے ) ہم نے اسے ان لوگوں کے لیے ( تیار ) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور انجام ( نیک ) تو پرہیزگاروں ہی کا ہے ۔

(قصص ۔ 38 ، شوق العروس و انس النفوس )

عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ملک شام میں اندر [ نامی مقام ] پر ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا اس کا ایک بیٹا شہید ہو چکا تھا ایک بار اس نے دیکھا کہ اس کا وہی بیٹا گھوڑے پر بیٹھ کر آرہا تھا اس نے اپنی بیوی کو بتایا تو بیوی نے کہا توبہ کرو کیونکہ شیطان تمہیں ورغلا رہا ہے ہمارا بیٹا تو شہید ہو چکا ہے وہ توبہ کرنے لگا مگر اس نے پھر دیکھا کہ واقعی اس کا بیٹا آرہا ہے اس نے بیوی کو بتایا تو اس نے بھی دیکھ کر کہا بخدا یہ تو ہمارا بیٹا ہے وہ نوجوان جب ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا بیٹا آپ تو شہید ہو چکے تھے اس نے کہا جی ہاں لیکن ابھی ابھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا ہے اور کچھ شہداء نے اللہ تعالی سے ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت لے لی ہے میں بھی ان میں سے ہوں اور میں نے آپ دونوں کو سلام کرنے کی اجازت بھی لے لی تھی پھر اس نے ان دونوں کے لیے دعا کی اور لوٹ گیا۔ اسی دن حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تھا اور اس بستی والوں کو ان کے انتقال کی خبر اسی بزرگ( یعنی شہید کے والد) نے دی ورنہ انہیں معلوم نہیں تھا۔

ایسا ہی ایک واقعہ علامہ ابو علی حسین بن یحییٰ بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپبی کتاب " روضۃ العلماء " میں ذکر فرمایا ہے کہ ایک کوفی نوجوان جہاد میں نکلا پھر اس نے خواب میں اپنا محل اور حوریں دیکھیں پھر رومیوں نے اسے مسجد میں گھس کر شہید کر دیا کچھ عرصے کے بعد اس کے والد نے اسے گھوڑے پر سوار دیکھا تو پوچھا بیٹے آپ تو شہید ہوئے تھے اس نے کہا جی ہاں مگر آج ہم لوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔

( روضۃ العلماء)

ابو عمران الجونی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے فرمایا مسلمانوں میں ایک شخص بطال نامی تھا وہ رومیوں کے علاقے میں چلا جاتا اور ان کا حلیہ اپنا لیتا اور اپنے سر پر انہیں کی ٹوپی پہن کر انجیل گلے میں لٹکا لیتا تھا پھر اگر اسے دس سے پچاس تک رومی کہیں مل جاتے تو انہیں قتل کر دیتا تھا اور اگر اس سے زیادہ ہوتے تو انہیں کچھ نہیں کہتا تھا چونکہ رومی اسے اپنا پادری سمجھتے تھے اس لیے انہیں کچھ نہیں کہتے تھے اس طرح سے سالہا سال تک وہ رومیوں کے اندر گھس کر [ یہ خفیہ ] کاروائیاں کرتا رہا ۔ ہارون الرشید کے زمانے میں وہ واپس آیا تو ہارون الرشید نے اسے بلایا اور فرمایا اے بطال رومیوں کے ملک میں جو سب سے عجیب واقعہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہو وہ سناؤ اس نے کہا حاضر اے امیر المؤمنین (لیجئے سنئے )

میں ایک بار کسی سبزہ زار سے گزر رہا تھا کہ ایک نیزہ بردار مسلح شہسوار میرے پاس آیا اور اس نے مجھے سلام کیا میں سمجھ گیا کہ یہ مسلمان ہے میں نے اسے جواب دیا اسے نے مجھے کہا کیا آپ بطال کو جانتے ہیں میں نے کہا میں بطال ہوں تمہیں کیا کام ہے اس نے گھوڑے سے اتر کر مجھے گلے لگایا اور میرے ہاتھ پاؤں چومے اور کہا میں اس لیے آیا ہوں تاکہ زندگی بھر آپ کا خادم بن کر رہوں میں نے اسے دعا دی اور ساتھ لے لیا ایک بار ہم جارہے تھے کہ رومیوں نے ہمیں دور سے ایک قلعے سے دیکھ لیا وہاں سے چار مسلح سپاہی گھوڑے دوڑاتے ہوئے ہمارے طرف بڑھے اس نوجوان نے کہا اے بطال مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کا مقابلہ کروں میں نے اجازت دے دی وہ ان کے مقابلے پر نکلا اور تھوڑی دیر بعد شہید ہوگیا وہ چاروں میری طرف حملہ کرنے کے لیے بڑھے اور کہنے لگے تم خود کو بچاؤ اور جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ چھوڑ جاؤ میں نے کہا میرے پاس تو یہی ٹوپی اور انجیل ہے اگر تم مجھ سے لڑنا چاہتے ہو تو مجھے مہلت دو تاکہ میں اپنے ساتھی کا اسلحہ پہن لوں اور اس کے گھوڑے پر سوار ہو جاؤں انہوں نے کہا ٹھیک ہے تمہیں اجازت ہے میں جب تیار ہو گیا تو وہ پھر آگے بڑھے میں نے کہا یہ کیسا انصاف ہے کہ چاروں مل کر ایک پر حملہ کر رہے ہو تم بھی ایک ایک کرکے میرا مقابلہ کرو ۔

انہوں نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو چنانچہ وہ ایک ایک کرکے میرے مقابلے پر آتے رہے میں نے تین کو تو مار گرایا مگر چوتھے کے ساتھ مقابلہ سخت رہا لڑتے لڑتے ہمارے نیزے تلواریں اور ڈھالیں ٹوٹ گئیں پھر دونوں میں کشتی شروع ہوگئی مگر کوئی غالب نہ آسکا میں نے اسےکہا اے رومی میری نماز قضا ہو رہی ہے اور تمہاری عبادت بھی چھوٹ رہی ہوگی کیوں نہ ہم اپنی اپنی عبادت کو ادا کریں اور رات کو آرام کریں اور کل صبح پھر مقابلہ کریں اس نے کہا یہ ٹھیک ہے وہ خود ایک پادری تھا ہم نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا میں نے اپنی نمازیں پڑھیں اور وہ کافر بھی کچھ کرتا رہا ۔ سوتے وقت اس نے کہا تم عرب لوگ دھوکے باز ہوتے ہو پھر اس نے دو گھنٹیاں نکا لیں ایک اپنے کان پر اور ایک میرے کان پر باندھ دی اور کہا تم اپنا سر میرےاوپراور میں اپنا سر تمہارے اوپر رکھوں گا ہم میں سے جو بھی حرکت کرے گا اس کی گھنٹی بجے گی تو دوسرا متنبہ ہو جائے گا ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ صبح میں نے نماز پڑھی اور کافر بھی کچھ کرتا رہا ۔ پھر ہم کشتی میں مشغول ہو گئے میں نے اسے پچھاڑ دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ کر اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا ۔ اس نے کہا اس بار مجھے چھوڑ دو تاکہ ہم پھر مقابلہ کریں میں نے اسے چھوڑ دیا جب دوبارہ مقابلہ ہوا تو میرا پاؤں پھسل گیا وہ مجھے گرا کر میرے سینے پر بیٹھ گیا اور اس نے خنجر نکال لیا میں نے کہا میں تمہیں ایک بار موقع دے چکا ہوں کیا تم مجھے موقع نہیں دو گے اس نے کہا ٹھیک ہے اور مجھے چھوڑ دیا ۔

تیسری بار کی لڑائی میں اس نے مجھے پھر گرا دیا اور میرے کہنے پر مجھے چھوڑ دیا جب چوتھی بار اس نے مجھے گرا یا تو کہنے لگا میں تمہیں پہچان چکا ہوں کہ تم بطال ہو اب میں تمہیں لازماً ذبح کروں گا اور زمین کو تجھ سے راحت دوں گا۔ میں نے کہا اگر میرے اللہ نے مجھے بچانا چاہا تو تم نہیں مار سکو گے اس نے کہا تم اپنے رب کو بلاؤ کہ وہ تمہیں مجھ سے بچائے یہ کہہ کر اس نے خنجر بلند کیا تاکہ میری گردن پر وار کرے اے امیر المؤمنین اسی وقت میرا شہید ساتھی اٹھا اور اس نے تلوار مار کر اس رومی کا سر اڑا دیا اور اس نے یہ آیت پڑھی:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ ترجمہ : شہیدوں کو مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں۔ پھر وہ دوبارہ گر گیا یہ وہ عجیب ترین واقعہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے ۔ ( روضۃ العلماء )

مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بطال کا نام عبداللہ تھا ۔ اور ان کی کنیت ابو محمد یا ابو یحییٰ تھی اور وہ تابعی تھے علامہ ابن ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بطال بہادروں اور جانبازوں کے سردار اور شامی امراء میں ممتاز مقام رکھتے تھے ۔ رومی ان کے نام سے خوف اور ذلت محسوس کرتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت بطال کی طرف بہت غلط اور جھوٹی باتیں مشہور کر رکھی ہیں ۔ ان کے عجیب و غریب واقعات مشہور ہیں ان میں سے ایک واقعہ وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم ایک بستی پر حملہ کرنے کے لیے آئے تو ایک گھر میں چراغ جل رہا تھا اور ایک بچہ رو رہا تھا اس بچے کی ماں نے کہا چپ ہو جاؤ ورنہ تمہیں بطال کو دے دوں گی بچہ پھر بھی روتا رہا تو عورت نے اسے چار پائی سے اٹھا کر کہا اے بطال اسے لے لو میں اندر داخل ہوا اور میں نے کہا لاؤ دے دو۔

شہداء کی حیات کے واقعات بے شمار ہیں ہم نے ان میں سے چند واقعات ذکر کئے ہیں ۔ اور ان کی اسی حیات کو دیکھتے ہوئے کئی ائمہ فرماتے ہیں کہ چونکہ شہید زندہ ہے اس لیے اس پر نمازجنازہ نہیں پڑھی جائے گی جبکہ دوسرے ائمہ فرماتے ہیں کہ برکت کے لیے نماز جنازہ پڑھی جائے گی اسی طرح اکثر [بلکہ تقریبا تمام ] ائمہ کے نزدیک شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ ان کے خون کے ساتھ انہیں دفن کیا جائے گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں فرمایا تھا کہ انہیں خون کے ساتھ دفن کر دو چنانچہ انہیں غسل نہیں دیا گیا۔ ( بخاری )

اور اس کی وجہ دوسری حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے دن شہداء اپنے خون کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ شہید کے فضائل اور مقامات بے شمارہیں یہاں میں نے وہ فضائل بیان کیے ہے جن تک میراقلیل علم اور ناقص سمجھ کی رسائی ہوئی ہے۔


اما م عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کا تعارف ۔ نام مبارک حسین، کنیت، ابو عبداللہ ، القاب : سبطِ رسول اللہ اور ریحانہ الرسول (رسول کے پھول ) ولادت ، ہجرت کے چوتھے سال ، پانچ شعبان کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ (اسد الغابہ ج ۲، ص ۲۵۔۲۶)

فضائل امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ :

1۔ حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں : فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے، حسین رضی اللہ عنہ اسباط میں سے ایک سبط ہیں۔

(ترمذی ۵، ۴۲۹ حدیث : ۳۸۰)

مفتی احمد یار خان کی شرح :

یعنی میں اور حسین گویا ایک ہی ہیں ہم دونوں سے محبت ہر مسلمان کو چاہیے مجھ سے محبت حسین سے محبت ہے اور حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے ۔ سبط ، وہ درخت ہے جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت ۔ ایسے ہی میرے حسین سے میری نسل چلے گی اور ان کی اولاد سے مشرق و مغرب بھرجائے گی، مشروق و مغرب میں آج حسنی سید کم ہیں حسینی سید زیادہ ہیں۔

( مر اة المناجیح ج۸،ص۴۸۰)

2۔ جنتی نوجوانوں کا سر دار :

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے( ایک روایت میں یہ ہے) جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے، وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھے

(الشرف المؤید لال محمد النبانی ص۶۹)

3۔ دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم :

جو حسن رضی اللہ عنہ کو دوست رکھے، حسین سبط ہے اسباط سے

(ترمذی حدیث: ۳۸۰۰ ، ج ۵، ص ۴۲۹)

4۔ نبی کریم کی گھٹی اور اذان :

اللہ کریم کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیار ے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سیدھے کان میں اذان دی اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبار ک جھوٹے شریف سے گھٹی عطا فرمائی ( اسد الغابہ ج ۲، ص ۲۴،۲۵ )

5۔میرے پھول:

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ ( بخار ی ج ۲، ص ۵۴۷، حدیث ۳۷۵۳)


تعارف:  حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نام حسین ہے، کنیت ابو عبداللہ ۔ القاب : سبطِ رسول ، ریحانہ الر سول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ولادت : ہجرت کے چوتھے سال پانچ شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں آپ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین سے محبت کرے۔

2۔حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ ( ترمذی )

حضر ت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور ہوں جنتی حضرات حسنین کریمین ان کے سر دار ہیں ، ورنہ جنت میں تو سبھی جوان ہوں گے۔

3۔ حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں (بخاری)

4۔ یہ میرے دونوں بیٹے میر ی بیٹی کے بیٹے ہیں۔

حضور پاک نے ارشاد فرمایا ہے الہی میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔( ترمذی ج ۵، ص ۴۲۷ )

5۔ اللہ کریم کے آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اہل جنت میں آپ کو زیادہ پیار ا کون ہے ؟ فرمایا حسن اور حسین اور حضور پاک (حضر ت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے کہ میرے پاس بچوں کو بلاؤ پھر انہیں سونگھتے تھے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔

اے عاشقانِ صحابہ و اہل بیت حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں کیوں نہ سونگھتے، وہ دونوں تو حضور کے پھول تھے پھول سونگھے ہی جا تے ہیں انہیں کلیجے سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لیے تھا اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سونگھنا ، ان سے پیار کرنا سنت رسول پاک ہے،(مراة ج۸، ص ۴۷۸)


ہمارے آقا و مولا آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایسے نور ہیں جو ظاہر و باطن دونوں کو چمکاتے ہیں تو جو خوش نصیب حضور سراپہ نور صلی اللہ علیہ وسلم سے چمکے وہ خوب چمکے، پھر ان کا کیا عالم ہوگا جو پر نور صلی اللہ علیہ وسلم سے چمکے وہ خوب چمکے، پھر ان کا کیا عالم ہوگا جو پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود مبارکہ میں بڑے ہوئے یعنی نواسہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سید الشہدا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ وہ چمکے کہ اپنے تو اپنے اغیار کی آنکھیں بھی ان کی چمک سے چکا چوند ہیں۔

نمبر1۔ حضرت یعلی بن مرۃ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سےمحبت کرے حسین اسباط میں سے ایک سبط ہیں۔(مشکوة المصابیح جلد ۲، صفحہ ۵۷۹)

یعنی حسین کو حضور سے اور حضور کوحسین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و رضی اللہُ عنہ سے انتہائی قرب ہے گویا دونوں ایک ہیں۔

نمبر2 ۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ جنتی جوانوں کے سر دار کو دیکھے وہ حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ کو دیکھے۔

(الشرف المؤید، ص۶۹ مکتبہ الثقافۃ الدینیہ )

نمبر3۔مروی ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کہ وہ کعبہ شریف کے سایہ میں تشریف تھے انہوں نے حضرت امام حسین ر ضی اللہ عنہ کو آتے دیکھا تو فرمایا :آج یہ آسمان والوں کے نزدیک تمام زمین والوں سے زیادہ محبوب ہیں۔

(الشرف المؤبد، ص 69 مکتبہ الثقافتہ الدینیہ)

نمبر4 ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کود یکھا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لعابِ دہن کو اس طرح چوستے جیسے کہ آدمی کھجور چوستا ہے۔ (خاک کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ص 156،)

نمبرحضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ نے پیدل چل کر 25 حج کیے آپ بڑی فضیلت کے مالک تھے اور کثرت سے نماز روزہ، حج صدقہ، اور دیگر امور خیر فرماتے تھے۔

(خاکِ کربلا اور امام حسین رضی اللہ عنہ صفحہ 156 )

شہد خوار لعابِ زبان نبی

چاشنی گیر باعظمت پہ لاکھوں سلام 


نام و القاب  :آپ رضی اللہُ عنہ کا نام مبارک حسین ،کنت ابو عبد اللہ اور القابات سبط رسول اللہ اور یحانۃ الرسول یعنی رسول کے پھول ہیں۔

ولادت باکرامت :

ر اکب دوشِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جگرگوشہ مرتضیٰ دل بند فاطمہ، سلطانِ کر بلا، سید الشہدا ، امام عالی مقام امام عرشِ مقام، امام ہمام ، امام تشنہ کام ، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ رضی اللہُ عنہ سراپا کرامت تھے، آپ کی ولادت باسعادت بھی با کرامت ہے، سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادت باسعادت پانچ شعبان المعظم کو مدینہ منورہ زاد ھا اللہ شرفا و تعظیماً میں ہوئی۔

( معجم الصحابہ للبغوی ج ۲ ص ۱۶)

امام عالی مقام کی چند خصوصیات ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرت علامہ جامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ رضی اللہ رضی اللہُ عنہا کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ رضی اللہُ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار ( یعنی گال ) سے انوار نکلتے اور قر بو جوار روشن ہوجاتے۔

(شواہد النبوة ، ص 238)

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

( حدائق بخشش)

2۔ حضرت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابن مطمع رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے عرض کی میرے کنویں میں پانی بہت کم ہے بر ائے کرم دعائے برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کا پانی طلب فرمایا جب پانی کا ڈول حاضرکیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے منہ لگا کر اس میں سے پانی نوش فرمایا اور کلی کی ، پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈا ل دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیز بھی ہوگیا۔(طبقاتِ ابن سعد ج ۵، ص ۱۰ ملخصاً)

3۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنی تنگ دستی (یعنی غربت) کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ایک ایک ہزار دینار یعنی سونے کے سکوں کی پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئیں ۔

حضر ت سیدناامام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کردی اور اس کرم نوازی کے باوجود تاخیر پرمعذرت فرمائی۔(کشف المحجوب ص 77 ملخصا)

4۔ حسن و حسین جنتی جوانوں کے سر دار ہیں۔( حدیث ۳۷۲، ترمذی ج ۵)

حکیم الامت حضرت مفی احمد یار خان نعیمی علیہ الرَّحمہ فرما تے ہیں :جو لوگ جوانی میں وفات پائیں گے، اور ہوں جنتی حضرت حسنین کر یمین رضی اللہ عنہما ان کے سر دار ہیں ورنہ جنت میں سبھی جوان ہوں گے۔ (مراة المناجیح ، ج ۸، ص ۴۶۲)

5۔ شہزادہ گل گوں (یعنی گلاب کی طرح سرخ جبہ پہنے ہوئے) حضرت سیدنا امام عالی مقام نے ار شاد فرمایا : من احبنا للہ کنا نحن وھو یوم القیامہ کھاتین۔ یعنی جس نے اللہ پاک کی رضا کے لیے ہم سے محبت کی ہم اور وہ قیامت کے دن یوں ہوں گے شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا۔(معجم کبیر ج ۳۔ص ۱۲۵)

6۔ حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ نے پیدل 25 حج کیے آپ بڑ ی فضیلت کے مالک تھے اور کثرت سے نماز روزہ، حج، صدقہ اور دیگر امور خیر فرماتے تھے۔

(خاکِ کربلا اور امام حسین صفحہ 156 )

آپ کا اسمِ گرامی حسین کنیت ابو عبد اللہ لقب سبط الرسول اور ریحانۃ الرسول نسب مبارک یہ ہے حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سید ہ فاطمۃ الزہراہ بنت محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔

ولادت باسعادت:

امام حسین رضی اللہُ عنہ 6ھ کے ماہ شعبان المعظم کی پانچ ہوئی تو حضرت سیدہ فاطمہ الزہراہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں مدینہ طیبہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔

امام حسین فضائل :

1۔ حضرت زید ابن زیاد سے روایت ہے: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ رَضِي اللهُ عَنْهَا، فَمَرَّ عَلَى بَيْتِ فَاطِمَةَ، فَسَمِعَ حُسَيْنًا يَبْكِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ أَلَمْ تَعْلَمِي أَنَّ بُكاءَهُ يُؤْذِينِي (تاریخ ابن عساکر )

پس رسول اللہ امیر المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کے گھر سے نکلے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے گھر کے دروازے سے ہوا تو آپ نے سنا کہ حضرت حسین رو رہے ہیں آپ نے فرمایا : اے فاطمہ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ حسین کے رونے سے میرے دل کو تکلیف ہوتی ہے ۔

2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو میں نے اس حال میں دیکھا کہ لعاب الحسن کما یمص الرجل ثمرة ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت حسین کے لعاب دہن کو اس طرح چوس رہے ہیں جیسے آدمی کجھور چوستا ہے۔

(سخط النجوم الموالی ، شہادت نواسہ سید الابرار ومناقب اٰل نبی المختار)

3۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حسن کے لیے میری ہیبت و سیادت اور حسین کے لیے میری جرات و سخاوت ہے۔ (کنزالعمال ،فضائل حسنین کریمین)

ھما ریحانتای من الدنیا، یعنی حسن و حسین رضی اللہُ عنہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

( بخاری شریف ، فضائل حسین کریمین )

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخض اہل جنت کے سردار کو دیکھنا چاہے وہ حسین ابن علی کو دیکھ لے۔(صحیح ابن حبان ) 


سچ تو یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہُ عنہ کی جتنی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں وہ کم ہیں، یہ اپنی حیثیت اپنی شان اللہ نے جو انہیں عطا کی ہے اس اعتبار سے بہت عظمت والی شخصیت ہیں، ہم تو جوشان و خصوصیات بیان کرتے ہیں وہ اپنی آخرت کے لیے راہیں آسان کر تے ہیں۔

یا علی کے (پانچ) حروف کی نسبت سے امام حسین کی (پانچ) خصوصیات

1۔ حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسین منی وانا من الحسین، احب اللہ من احب حسیناً ترجمہ ْ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اسے محبوب بنالیتا ہے۔(جامع الترمذی ، باب مناقب ، الحسن والحسین رضی اللہُ عنہما، جلد ۶،صفحہ ۱۲۲، دارالغرب الاسلامی ، بیروت ، محرم الحرام اور عقائد و نظریات صفحہ 240، مکتبہ امام اہلسنت)

اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے پیارے پیارے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے سید ھے کان میں اذان دی ا ور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جوٹھے شریف سے گھٹی عطا فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔ ساتویں دن آپ کا نام ’’ حسین رکھا اور ایک بکر ی سے عقیقہ کی اور آپ کی امی جان خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا : حسن رضی اللہ عنہ کی طرح ان کا سرمنڈا کر بالوں کے برابر چاندی خیرات کرو۔(شرح شجرہ قادریہ صفحہ 45۔ مکتبۃ المدینہ کراچی)

امام حسین کی پانچ خصوصیات:

(1) شبیہ ر سول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں :کان اشبہ برسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ترجمہ : آپ سب سے زیادہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابہ تھے۔ ( صحیح بخاری، باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما جلد۵ ، صفحہ۲۶ ، محرم الحرام اور عقائد و نظریات صفحہ236 ۔ مکتبہ امام اہلسنت)

(2)جدائی گوارا نہ فرمائی :

ایک روز نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے داہنے زانو پر امام حسین رضی اللہ عنہ اور بائیں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹھے تھے، حضرت جبریل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کی کہ ان دونوں کو خدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ رکھے گا ایک کو اختیارفرمائیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدائی گوارا نہ فرمائی، تین دن کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوگیا اس واقعہ کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ حاضر ہوتے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بوسے لیتے اور فرماتے :ایسے کو مرحبا جس پر میں نے اپنا بیٹا قربان کیا۔(شرح شجرہ قادریہ صفحہ 46 مکتبہ المدینہ کراچی)ٗ

(3) جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے : ایک روایت میں ہے، جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے وہ حسن بن علی کو دیکھے۔( فضائل امام حسین صفحہ نمبر۸)

حسین ابن علی کا صدقہ ہمارے غوث جلی کا صدقہ

عطا مدینے میں ہو شہادت نبی رحمت شفیع اُمت

(وسائل بخشش)

سیّدُالشُہَدا ، امامِ عالی مقام حضرتِ سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادتِ مبارکہ 5 شعبانُ المُعظَّم 4ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔امام حسین رضی اللہُ عنہ کا اسمِ گرامی حُسین کُنیت ابو عبدُ اللہ ، القاب : سِبطِ رسول اللہ اور رَیحانةُ الرَّسول (یعنی رسول کے پھول) ہے۔

(امام حسین کی کرامات ، ص2)

نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کی حیاتِ طیبہ کو جب زیرِ مطالعہ لایا جائے تو آپ کی مبارک زندگی خوف خدا ، پرہیزگاری ، صبر ، شکر ، توکل ، اخلاقِ باکمال ، استقامت ، سخاوت ، بہادری ، جرأت ، شفقت ، صلح رحمی ، کثرتِ عبادت ، شوقِ تلاوت جیسے عظیم اوصاف و کمالات سے بھر پور نظر آتی ہے۔

امام عالی مقام کو جہاں کثرت کے ساتھ فیضانِ نبوت و رسالت نصیب ہوا وہاں آپ نے اپنے والد محترم مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کی بارگاہِ بابرکت سے تعلیم و تربیت پائی ، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزاہرہ رضی اللہُ عنہا کی آغوشِ مبارک اور حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہُ عنہ جیسے بھائی کی برسوں صحبت پائی۔

اللہ پاک نے آپ رضی اللہُ عنہ کو کثیر خصوصیات و کرامات سے نوازہ۔ذیل میں آپ کی 5 عظیم الشان خصوصیات کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :

1۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آپ سے بے پناہ محبت :

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ سے بے پناہ محبت فرماتے ، حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہُ عنہ روایت فرماتے ہیں : صحابہ کرام پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک دعوت کے لئے نکلے جہاں انہیں بلایا گیا تھا وہاں حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ گلی میں کھیل رہے تھے ، پس رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں سے آگے بڑھے اور اپنے ہاتھوں کو پھیلایا پھر سیدنا امام حسین کبھی اُس طرف بھاگتے تو کبھی اِس طرف اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ سے ضحک فرماتے حتی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کو پکڑ لیا پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ایک ہاتھ امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا آپ کے سر کی ہڈی پر پھر اسے چوم لیا اور فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ حسین ایک نسلِ نبوت کی اصل ہے

( سنن ابن ماجہ ، باب فضل الحسن والحسین رضی اللہُ عنہ ، ج 1 ، ص 51 ، بیروت )

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، جو حسین سے محبت کرتا ہے اللہ ا سے اپنا محبوب بنا لیتا ہے ۔(جامع الترمذی ، باب مناقب الحسن و الحسین ج 6،ص 122)

2۔ جوانانِ جنت کے سردار:

پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام حسن اور امام حسین کی نسبت ارشاد فرمایا : ہمارے یہ دونوں بیٹے جوانانِ جنت کے سردار ہیں(آئینہ قیامت ، ص13)

3۔ شبیہِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے : حسن سینے سے سر تک رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابہ ہیں اور حسین اس نیچے والے حصہ میں۔

(جامع الترمذی ، باب مناقب الحسن والحسین ج 6 ،ص 126 ، بیروت)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : آپ سب سے زیادہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابہ تھے۔

(صحیح البخاری ،باب مناقب الحسن والحسین ج 5 ، ص 26 ، طوق النجاة)

امامِ اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

ایک سینے تک مشابہ اک وہاں سے پاؤں تک

حسن سبطین ان کے جاموں میں ہے نیما نور کا

صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں

خطِ تَو اَم میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا

(حدائق بخشش)

4۔ مُقدَّس رخسار سے نور کا نکلنا :

علامہ جامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سیدنا امامِ حسین رضی اللہُ عنہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رُخسار یعنی گال سے اَنوَار نکلتے اور قُرب و جوار ضیا بَار یعنی اطراف روشن ہو جاتے۔(امام حسین کی کرامات ص 3)

5۔ نیزہ پر آپ کے سرِ اقدس کا تلاوت کرنا :

حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں نے اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سر مبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ الرَّقِیْمِۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ترجمۂ کنزالایمان : کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ پ18، الکہف : (کراماتِ صحابہ ص 246)