غلام نبی انجم رضا عطاری ( درجہ خامسہ جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جڑانوالہ )
سیّدُالشُہَدا ، امامِ عالی مقام حضرتِ
سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہُ عنہ کی ولادتِ مبارکہ 5 شعبانُ المُعظَّم 4ھ کو
مدینہ منورہ میں ہوئی۔امام حسین رضی اللہُ عنہ کا اسمِ گرامی حُسین کُنیت ابو عبدُ اللہ ، القاب : سِبطِ رسول اللہ اور رَیحانةُ الرَّسول (یعنی رسول کے پھول) ہے۔
(امام حسین کی
کرامات ، ص2)
نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کی حیاتِ طیبہ کو جب زیرِ مطالعہ لایا جائے تو آپ کی مبارک زندگی خوف خدا
، پرہیزگاری ، صبر ، شکر ، توکل ، اخلاقِ باکمال ، استقامت ، سخاوت ، بہادری ،
جرأت ، شفقت ، صلح رحمی ، کثرتِ عبادت ، شوقِ تلاوت جیسے عظیم اوصاف و کمالات سے
بھر پور نظر آتی ہے۔
امام عالی مقام کو جہاں کثرت کے ساتھ فیضانِ
نبوت و رسالت نصیب ہوا وہاں آپ نے اپنے والد محترم مولائے کائنات حضرت سیدنا علی
المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کی بارگاہِ بابرکت سے تعلیم و تربیت پائی ، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ
الزاہرہ رضی اللہُ عنہا کی آغوشِ مبارک اور حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہُ عنہ جیسے بھائی
کی برسوں صحبت پائی۔
اللہ پاک
نے آپ رضی اللہُ عنہ کو کثیر
خصوصیات و کرامات سے نوازہ۔ذیل میں آپ کی 5 عظیم الشان خصوصیات کو پڑھنے کی سعادت
حاصل کرتے ہیں :
1۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آپ سے بے پناہ محبت :
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ سے بے پناہ محبت فرماتے ، حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہُ عنہ روایت
فرماتے ہیں : صحابہ کرام پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک دعوت کے لئے نکلے جہاں انہیں بلایا
گیا تھا وہاں حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ گلی
میں کھیل رہے تھے ، پس رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں سے آگے
بڑھے اور اپنے ہاتھوں کو پھیلایا پھر سیدنا امام حسین کبھی اُس طرف بھاگتے تو کبھی
اِس طرف اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم آپ سے ضحک فرماتے حتی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سیدنا امام
حسین رضی اللہُ عنہ کو پکڑ لیا پھر آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ایک ہاتھ امام حسین رضی اللہُ عنہ کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا آپ کے سر کی ہڈی پر پھر اسے چوم لیا اور
فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ حسین ایک نسلِ نبوت کی اصل ہے
( سنن ابن ماجہ ،
باب فضل الحسن والحسین رضی اللہُ عنہ ، ج 1 ، ص 51 ، بیروت )
حضرت
یعلی بن مرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے
ہوں ، جو حسین سے محبت کرتا ہے اللہ ا سے اپنا محبوب بنا لیتا ہے ۔(جامع الترمذی
، باب مناقب الحسن و الحسین ج 6،ص 122)
2۔ جوانانِ جنت کے
سردار:
پیارے آقا مدینے والے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام حسن
اور امام حسین کی نسبت ارشاد فرمایا : ہمارے یہ دونوں بیٹے جوانانِ جنت کے سردار
ہیں(آئینہ قیامت ، ص13)
3۔ شبیہِ رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے روایت ہے : حسن سینے سے
سر تک رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابہ ہیں اور حسین اس نیچے والے حصہ
میں۔
(جامع الترمذی ، باب
مناقب الحسن والحسین ج 6 ،ص 126 ، بیروت)
حضرت انس رضی اللہُ عنہ سیدنا امام
حسین رضی اللہُ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : آپ سب سے زیادہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابہ تھے۔
(صحیح البخاری
،باب مناقب الحسن والحسین ج 5 ، ص 26 ، طوق النجاة)
امامِ اہلسنت سیدی اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اللہ علیہ کیا
خوب فرماتے ہیں :
ایک سینے
تک مشابہ اک وہاں سے پاؤں تک
حسن سبطین
ان کے جاموں میں ہے نیما نور کا
صاف شکلِ
پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خطِ تَو
اَم میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا
(حدائق بخشش)
4۔ مُقدَّس
رخسار سے نور کا نکلنا :
علامہ جامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سیدنا امامِ حسین رضی اللہُ عنہ جب اندھیرے
میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رُخسار یعنی گال سے
اَنوَار نکلتے اور قُرب و جوار ضیا بَار یعنی اطراف روشن ہو جاتے۔(امام حسین کی
کرامات ص 3)
5۔ نیزہ پر آپ کے سرِ
اقدس کا تلاوت کرنا :
حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے
کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے
سر مبارک کو نیزہ پر چڑھا کر کوفہ کی
گلیوں میں گشت کیا تو میں نے اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سر مبارک میرے
سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَ
الرَّقِیْمِۙ كَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ترجمۂ کنزالایمان : کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی
کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ پ18، الکہف : 9، (کراماتِ
صحابہ ص 246)