حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ   کی ولادت 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے گھر مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک شبیر یعنی حسین رکھا گیا آپ کا نام بھی آپ کے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرح اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ۔ سبط رسول اللہ اور ریحانتہ الرسول (رسول اللہ کے پھول) آپ کے القابات ہیں ۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپ نے دس محرم الحرام 60 ہجری کو میدان کربلا میں باطل کو خاک میں ملا کر جام شہادت نوش فرمایا۔ امام عالی مقام بے شمار خصوصیات کے حامل ہیں ،آپ کی تمام خصوصیات کا احاطہ کرنا قدرِ مشکل ہے۔ان میں سے چندیہ ہیں ۔

(1) انسانوں کی مدتِ حمل عموماً 9 ماہ ہوتی ہے یہ اللہ پاک کی قدرت ہے اور اس میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں وہی علیم و خبیر بہتر جانتا ہے ۔اگر کسی بچے کی پیدائش وقت سے پہلے ہوجائے تو وہ مردہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ بھی ہوتو کچھ دن کی اذیت و تکلیف کے بعد دم توڑ جاتا ہے مگر امام عالی مقام کی شان و خصوصیت کے کیا کہنے ! اس بارے میں حضرت عارِف بِاللّٰہ نورُالدّین عبدُ الرّحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ علیہ السلام اور امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچّہ زندہ نہ رہا جس کی مدّتِ حَمْل چھ ماہ ہوئی ہو ۔( شواہد النبوۃ ، ص۲۲۸ )

(2)پیدائش کے بعد نبی پاک کی کرم نوازیاں : امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش کے بعد بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب سردار انبیاء ،حبیب کبریا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنے چھوٹے نواسے کی ولادت کی خبر سنی تو آپ سیدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی آغوشِ رحمت میں لے کر اپنے لعابِ دہن سے گھٹی دی۔ (البدايۃ والنہایہ، 5/519) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اور آپ کا نام شبیر یعنی حسین رکھا۔

(3)نورانی پیشانی و رخسار :آپ کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت علّامہ جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے توآپ رضی اللہ عنہ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدَّس رُخسار (یعنی گال ) سے انوار نکلتے اور قرب و جوارضِیا بار (یعنی اطراف روشن ) ہو جاتے۔ (شواہد النبوۃ ، ص۲۲۸ )

تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا

تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

(حدائقِ بخشش، ص۲۴۶ )

(4)رنگ و جسامت میں نبی پاک سے مشابہت:آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک ﷺ کے مشابہ تھے جیساکہ حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:جس کی یہ خواہش ہو کہ وہ ایسی ہستی کو دیکھے جو چہرے سے گردن تک سرکار ﷺ کے سب سے زیادہ مُشابہ ہو وہ حَسن بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے اور جس کی یہ خواہش ہو کہ ایسی ہستی کو دیکھے جو گردن سے ٹَخْنے تک رنگ و جِسامت میں نبیِ کریم ﷺ کے سب سے زِیادہ مُشابہ ہو وہ حُسین بن علی رضی اللہ عنہما کو دیکھ لے۔(معجم کبیر، ۳/۹۵، حديث:۲۷۶۸)

(5)یوم عاشورہ کا آپ سے منسوب ہونا : اسلام میں یوم عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام کو بہت اہمیت حاصل ہے اس دن بہت سے واقعات رونما ہوئے مثلا اسی دن حضرتِ سیِّدُنا نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری (2) اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی (3)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی (4)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے (5)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے (الفردوس ج۱ ص۲۲۳ حدیث ۸۵۶) (6)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت (دریائے نیل میں ) غرق ہوا(بخاری ج۲ ص۴۳۸ حدیث ۳۳۹۷۔۳۳۹۸) (7) اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی ملی (8)اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے(فیض القدیر ج۵ص۲۸۸تحت الحدیث۷۰۷۵) (9)سیِّدُنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے خاندان اور رفقاء کو ا بھوکا پیا سارکھنے کے بعد اِسی عاشوراء کے دن میدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔لیکن جب 10 محرم الحرام کو آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ کی شہادت کو اتنی عظیم شہرت حاصل ہوئی کہ محرم الحرام کا مہینہ بالخصوص 10 محرم الحرام آپ کی ذات سے منسوب ہوگیا۔