محمد عبدالرؤف عطاری ( درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد )
شہید
کامل زندگی والے ہیں، شہید اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہیں، شہیدوں کو روزی ملتی
ہے وہ دنیا اور دنیا دار وں کے انجام سے باخبر ہیں، شہدا کی تمام قوتیں اعلیٰ اور
کامل ہیں، شہدا کی روحیں سبز پر ندوں کی شکل میں جنت میں سیر کرتیں ہیں، اور جو چاہیں کھاتی ہیں۔
(تفسیر
نور العرفان ، صفحہ ۱۱۴۔ پارہ ۴)
شہید کے لغوی معنی : (۱) اللہ کی راہ میں مارا جانے والا
۔(۲) حاضر وباخبر جس کے علم سے کوئی چیز
پوشیدہ نہ ہو، اور گواہ ۔ (القاموس الوحید عربی اردو، صفحہ ۸۹۴)
اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں
جو بطور ِ ظلم کسی آلہ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو
اور دنیا سے نفع نہ اٹھایاہو۔
(بہار شریعت ، حصہ چہارم ۴، شہید کا بیان ، صفحہ ۸۶۰۔ مکتبہ
المدینہ مجلس مدینہ العلمیہ)
شہادت کے فضائل:
شہید کے بہت بڑے درجات ہیں شہید کو نبی سے قرب حاصل ہے ۔
۱۔ کہ انبیا کر ام
علیہم الصلوة والسلام کی نیند وضو نہیں توڑتی اور شہید کی موت غسل نہیں توڑتی۔
2۔ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کو بعد وفات رزق ایسے ملتا ہے
اور شہید کو بھی۔
3۔ نبی بعد وفات زندہ شہید بھی زندہ۔
4۔ شہید کا گوشت اور خون زمین نہیں کھاسکتی، نبی کا بھی
نہیں کھاسکتی زمین کے لیے حرام ہے۔(تفسیر نعیمی جلد دوم ، آیت : ۱۵۴ ، سورة البقرہ
، صفحہ ۸۸)
ترجمہ : روایت ہے
حضرت مقدم بن معدیکر ب سے فرماتے ہیں رسول
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ شہید کی اللہ کے ہاں چھ خصلتیں (درجے) ہیں۔۱۔ پہلی ہی دفعہ میں اسے بخش دیا جاتا ہے۔
۲۔اور اسے جنت کا ٹھکانہ دکھادیا جاتا ہے۔
۳۔ اور اسے قبر کے عذاب سے امان دی جا تی ہے۔
۴۔ اور وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔
۵۔ اور اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک یاقوت دنیا اور دنیا
کی چیزوں سے بہتر ہوگا۔
۶۔اوربہتر(۷۲) حوروں سے اس کا نکاح کرایا جائے گا۔ (۷) اور اس کے ستر (۷۰) اہل قرابت میں اس کی شفاعت
قبول کی جائے گی۔
بعض غازی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شہید ہونے
سے پہلے حضور علیہ الصلوة والسلام کی خدمت
اقدس میں عرض کیا کہ جنت وہ ہے یارسول
اللہ میں دیکھ رہا ہوں پھر شہید ہوئے ( مر اة المناجیح، جلد ۵، صفحہ ۵۰۶، حدیث ۳۳۳۴ نعیمی کتب خانہ )