سلطانِ کربلا،  امام عالی مقام، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مبارک نام"حسین" کنیت ابو عبداللہ اور القاب"سِبْطِ رسُولُ اللہ اور ریْحانۃُ الرَّسُول (یعنی رسول کے پھول ہیں)، آپ کی ولادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 25،26 متقظاً، دارالکتب العلمیہ بیروت)

آپ رضی اللہ عنہ کے تو کیا کہنے!آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں، آپ کے سیدھے کان میں آخری نبی علیہ الصلوۃ و السلام نے اذان دی اور بائیں کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جھوٹے شریف سے گھٹی عطا فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔(اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 24،25 ملخصاً)

1۔منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدتِ حمل چھ ماہ ہوئی ہو ۔(شواہد النبوۃ، صفحہ 228، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)

2۔شبیہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:حسن بن علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔(رواہ البخاری، 3792،3748)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے نچلے حصّے سے (سینے سے ناخن پاؤں تک) مشابہت رکھتے تھے۔ (ترمذی، جلد 5، صفحہ 430، حدیث 3804)

ایک سینے تک مشابہہ اک وہاں سے پاؤں تک

صاف شکل پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں

3۔سبطِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ تعالی اس سے محبت فرماتا ہے، جو حسین سے محبت کرے، حسین اسباط میں سے ایک "سبط" ہیں۔(تر مذی، جلد 5، صفحہ 429، حدیث3800)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں اور حسین گویا ایک ہیں، ہم دونوں سے محبت ہر مسلمان کو چاہئے، مجھ سے محبت حسین سے محبت اور حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، چونکہ آئندہ واقعات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر تھے، اس لئےاس قسم کی باتیں اُمّت کو سمجھائیں اور" سبط" وہ درخت ہے، جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت، ایسے ہی میرے حسین سے میری نسل چلے گی اور ان کی اولاد سے مشرق و مغرب بھر جائے گی، دیکھ لو!آج ساداتِ کرام مشرق و مغرب میں ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حسنی سیّد تھوڑے ہیں اور حسینی سیّد بہت زیادہ ہیں، اس فرمانِ عالی کا ظہور ہے۔(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 480، ضیاء القرآن پبلی کیشنر لاہور)

4۔جنتی جوانوں کے سردار:

آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔"(ترمذی، جلد 5، صفحہ 426، حدیث 3793)

ایک اور جگہ فرمایا:"جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے(ایک روایت میں ہے)جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے، وہ"حسین بن علی" کو دیکھے۔( اشرف المؤبد لآلِ محمد للنبہانی،صفحہ 49)

5۔ریحانۃ الرسول:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔"(بخاری، جلد 2، صفحہ 547، حدیث3753)

اس کا مطلب یہ ہے کہ حسن وحسین دنیا میں جنت کے پھول ہیں، جو مجھے عطا ہوئے، ان کے جسم سے جنت کی خوشبو آتی ہے، اس لئے حضور انہیں سونگھا کرتے تھے اور حضرت علی سے فرماتے تھے:"اے دو پھولوں کے ابُّو! تم پر سلام ہو۔"(مرآۃ، جلد 8، صفحہ 462)