درود پاک کی فضیلت:

بے چین دلوں کے چین، رحمتِ دارین، تاجدارِ حرمین، سرورِ کونین، نانائے حسین صلی اللہ علیہ وسلم ورضی اللہ عنہما کا فرمانِ رحمت شان ہے:جب جمعرات کا دن آتا ہے، اللہ تعالی فرشتوں کو بھیجتا ہے، جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مُجھ پر درود پڑھتا ہے۔

ولادتِ با کرامت:

راکب دوش مصطفی، جگر گوشہ مرتضی، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سید الشہدا، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سراپا کرامت تھے، حتٰی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی باکرامت ہے، حضرت سیّدی عارف باللہ نورالدّین عبدالرحمن جامی قدس سرہ السامی "شواھدالنبوہ" میں فرماتے ہیں، سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 4 شعبان المعظم، 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں منگل کے دن ہوئی، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔

مرحبا سرورِ عالم کے پسر آئے ہیں

سیّدہ فاطمہ کے لختِ جگر آئے ہیں

واہ قسمت! کہ چراغِ حرمین آئے ہیں

اے مسلمانو مبارک کہ حسین آئے ہیں

رُخسار سے انوار کا اظہار:

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں:حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار ہو جاتے(یعنی روشن ہو جاتے)۔

تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

حسین کے 4 حروف کی نسبت سے امام حسین کے فضائل پرچار فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ سے ہوں، اللہ پاک اس سے محبت فرماتا ہے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے۔

2۔حسن و حسین رضی اللہ عنہ سے جس نے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی، اس نے مجھ سے دشمنی کی۔

3۔حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

4۔حسن و حسین رضی اللہ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

کنویں کا پانی اُبل پڑا:

حضرت سیدنا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیّدنا ابن مطیع رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے عرض کی: میرے کنویں میں پانی بہت کم ہے ، براہِ کرم! دعائے برکت سے نواز دیجئے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کنویں کا پانی طلب فرمایا، جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مُنہ لگا کر اس میں سے پانی نوش کیا(یعنی پیا) اور کُلّی کی، پھر ڈول کو واپس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا۔

باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

تم کو مثردہ نار کا اے دُشمنانِ اہلِ بیت

سونے کے سِکّوں کی تھیلیاں:

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ، ابھی کُچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دیناریعنی سونے کے سکّوں کی پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پیش کی گئیں، حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہ ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس کرم نوازی کے باوجود تاخیر پر معذرت فرمائی۔

یا شہیدِ کربلا فریاد ہے

نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے

ہے میری حاجت میں طیبہ میں مروں

اے میرے حاجت روا فریاد ہے

خولی بن یزید کا درد ناک انجام:

دنیا کی محبت اور مال و زر کی ہوس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے، بدبخت خولی بن یزید نے دنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تن سے جدا کیا تھا، مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا میں ہی اس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے، چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امام حسین کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی، اسی ضمن میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا، وہ جہاں پایا جائے، مار ڈالا جائے، یہ حکم سن کر کوفہ کے جفاشعار سُورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا، جس کو جہاں پایا، ختم کر دیا، لاشیں جلا ڈالیں، گھر لُوٹ لئے، خولی بن یزید وہ خبیث ہے، جس نے حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ اقدس سے جُدا کیا تھا، یہ رُو سیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے پاس لایا گیا، مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے، پھر سُولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا، اس طرح لشکر ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا، چھ ہزار کوفی جو حضرت امام عالی مقام کے قتل میں شریک تھے، ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کر دیا۔

اے تشنگانِ خون جوانانِ اہل بیت دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی

کتوں کی طرح تمہاری لاشیں سڑاکئے گھوڑے پہ بھی رکھ گور کو تمہاری جا ملی

رُسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے مردودو تم کو ذلتِِ ہر دو سرا ملی

تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرہ کا بوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی

دنیا پرستو! دین سے مُنہ موڑ کر تمہیں دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی

آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے سر کٹ گئے اماں نہ تمہیں اک ذرا ملی

پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی