شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین دیں ہست حسین دیں
پناہ ہست حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید حقا کہ بنائے
لا الہ ہست حسین
)خواجہ اجمیری (
نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول ، امام عالی مقام ، نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ
سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسول ، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ
تعالی وجہہ الکریم کے نور نظر ، سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراءکے
لخت جگر ، حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ
تعالی عنہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔امام حسین کا نام پاک حسین اور کنیت ابو عبداللہ ہے
اور لقب ذکی ، شہید اکبر، طیب، سبط ہیں۔امام حسین پیارے آقاصلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کے چھوٹے نواسے تھے۔ ان کے بارے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ حُسَيْن
مِنِّي وَأَنَا مِنْ الحُسَيْن أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا یعنی 'حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے
محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے گا۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا۔"حسن اور حسین نوجوانان اہل بہشت کے سردار ہیں"
(اَلْبِدایَة و النَّهایَة،فَضائِلُ الصَّحابَة، تاریخ
دمشق)
جب تک دنیا قائم رہے گی امام حسین کا نام زندہ رہے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ
نواسہ رسول ہے ، اس لئے نہیں کہ وہ جگر گوشہ بتول ہےاور اس لئے نہیں کہ وہ نور
نگاہ علی ہے۔ یہ تمام سعادتیں بھی بڑی سعادتیں ہیں لیکن امام حسین کا نام اس لئے
بھی زندہ رہے گا کہ آپ بے شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ آپ بہت جرات مند اور بہادر تھے
۔امام عالی مقام سیدنا امام حسین بے حد
فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔ سخاوت،
مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپ کی
خصوصیات حسنہ تھیں۔عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے۔ آپ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپ کے
کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے پاپیادہ کیے۔ آپ نہایت
ایماندار ، نیک سیرت ، اعلی اخلاق کے حامل تھے ۔ دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور واقعہ
کربلا میں شہید ہوئے۔
آپ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے
شبیہ تھے۔ آپ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ
ہوجاتی ہیں۔ سیدنا امام حسین نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ
نبوی میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپ کے گھر
میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا امام حسین کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر
آپ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت امام حسین دینی علوم کے علاوہ عرب
کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔یوں تو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بے
شمار خوبیوں کے حامل تھے۔ آئیے چند خصوصیات کا اجمالی تذکرہ پڑھتے ہیں۔
1۔ حضرت امام حسین
عبادت گذار تھے:- امام حسین ایسے عابد تھے کہ انتہائی مظلومی و بے کسی کے عالم میں
بھی شب عاشورہ کی ساری رات اپنے خیمے میں عبادت الہی میں گذاری اور ایسے عابد کہ
جوان بیٹے کی لاش پر گھوڑے دوڑتے دیکھ کر، مظلوم اصغر کے حلق پر تیر پیوست ہوتا دیکھ
کر ، عباس کے بازو قلم ہوتے دیکھ کر ، عون و محمد کی لاش تڑپتی دیکھ کراور پھر
اپنے جسم پاک پر سینکڑوں زخم کھانے کے بعد بھی میدان کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر تہ
خنجر بھی نماز ادا کر گئے۔
2۔ امام حسین بہت بہادر تھے :- حضرت امام حسین ایسے بہادر
تھے کہ بے سرو سامان ہونے اور تین دن کے بھوکے پیاسے ہونے کے باوجود بھی بیس ہزار
دشمنوں کے مقابلے میں صبح سے لے کر ظہر تک ڈٹے رہے اور ایسے بہادر کہ جن پر تیروں
کا مینہ برسا، نیزوں کی بارش ہوئی،
برچھیوں کے بادل چھائے اور تلواروں کے طوفان اٹھے مگر آپ کے پاؤں میں ذرہ بھر بھی
لغزش نہ آئی اور آخری دم تک ثابت قدم رہے۔
3۔ امام حسین نہایت سخی تھے:-
امام حسین ایسے سخی تھے کہ دشت کربلا میں اللہ کی راہ میں
اپنے جوان بیٹے اکبر کو قربان کیا، اپنے مظلوم بچے اصغر کو اپنی جھولی میں دم
توڑتے دیکھا، اپنے بھائی کی امانت قاسم کے سر کو پائیمال کروایا ، اپنی بہن کے جگر
گوشے عون و محمد کی لاشوں کو خون میں تڑپتے دیکھا۔ اپنے
بھائی عباس کے بازو قلم کروائے اور پھر سب سے آخر میں اپنی جان بھی سخاوت کردی۔
4۔ امام حسین پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے
تھے:-
جگرگوشۂ بتول، سیدنا حضرت امام حسین فضائل و مناقب اور
سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیثِ مبارکہ آپ کی فضیلت پر
دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہِ رسالتﷺ میں حضرات حسنین کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے
کہ اکثر نبی مہربانﷺ آپ دونوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپ کے ساتھ
محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:
٭… ’’حسن اور حسین، یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں،
اے اللہ! میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت
کرے تو بھی ان سے محبت فرما‘‘۔ (ترمذی۔ مشکوٰۃ)
ایک موقع پر خاتم النبیینﷺ نے فرمایا: ’’جس نے حسن و حسین
سے محبت کی،اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جو ان دونوں سے بغض رکھے گا، وہ
دراصل مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔ (البدایۃ و النہایۃ ج8 ص208)
5۔ فصاحت و بلاغت:
امام حسین علیہ السلام ایک بہترین سخنور تھے۔ آپ ایسے گھر
میں پروان چڑھے کہ جہاں الٰہی فرشتے کلام خدا لے کر نازل ہوتے تھے۔ جب آپ نے
انکھیں کھولیں تو سب سے پہلے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک
سے اذان و اقامت کی صورت میں کلام وحی کو سنا۔ آپ کی معلم اور مربی آپ کی والدہ
گرامی سیدہ کونین دختر رسول جناب حضرت فاطمہ زہرا تھیں اور استاد آپ کے والد
بزرگوار علی مرتضیٰ تھے کہ جن کا خطابت کے میدان میں عرب و عجم میں کوئی ماں کا
لال مقابلہ نہ کر پایا۔
6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شباہت:-
حضرت امام حسین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے۔
اصحاب نے اس بات کا ذکر امام حسین علیہ السلام کی صورت و سیرت کے سلسلے میں متعدد
مرتبہ کیا ہے۔ خاص طور سے آپ کی قامت رسول اسلام سے بہت زیادہ مشابھت رکھتی تھی
اور جو بھی آپ کو دیکھتا اسے رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔