اللہ پاک کی رضا کیلئے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے کو اِنْفاق فِیْ سبِیْلِ اللہ کہتے ہیں۔ نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے، خواہ وہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل۔ خواہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کوئی شِفا خانہ بنانا ہو یا یتیموں کی کفالت کرنا، اسی طرح طلبہ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو مال خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی انفاق فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیة 3 + 261، ملتقطاً)

خیال رہے کہ اللہ پاک کو لوگوں کے مال کی حاجت نہیں بلکہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں بندوں کا ہی دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔ دینی فائدہ تو یہ ہے کہ مال خرچ کرنے کی صورت میں وہ ثواب کے حقدار ٹھہریں اور (واجب ہونے کی صورت میں) خرچ نہ کرنے کے وبال سے بچ جائیں گے، جبکہ دنیوی فائدہ یہ ہے کہ غریب اور مَفْلُوکُ الحال لوگوں کو معاشی سکون نصیب ہو گا اور معاشرے سے غربت اور محتاجی کا خاتمہ ہوگا۔ (صراط الجنان، محمد، تحت الآیة 38، ملتقطاً)

جس طرح راہِ خدا میں خرچ کرنا دینی و دنیاوی فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے، اسی طرح خرچ نہ کرنا دنیا و آخرت میں نقصانات کا سبب ہے۔ جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ باری ہے:

• ”اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔“ (البقرة 198)

یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراط الجنان، البقرة، تحت الآیۃ 198)

• ”اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔“ (التوبۃ 34)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ (صراط الجنان، التوبة، تحت الآیۃ 34، ملتقطاً)

• ”ہاں ہاں یہ تم ہوجو بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔“ (محمد 38)

ارشاد فرمایا کہ جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا نقصان اٹھائے گا۔ (صراط الجنان، محمد، تحت الآیة 38)

• ”تو وہ چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔ کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں آنے نہ پائے۔ اور وہ خود کو روکنے پر قادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے۔ پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا توکہنے لگے:بیشک ہم ضرور راستہ بھٹک گئے ہیں۔ بلکہ ہم محروم ہوگئے ہیں۔“ (القلم 23۔27)

اس آیت میں ایک باغ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس کا مالک ایک نیک مرد تھا اور وہ باغ کے پھل کثرت سے فُقراء کو دیتا تھا، اس کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹوں نے باہم مشورہ کیا کہ اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں تو تنگ دست ہوجائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح سویرے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے ہی باغ میں چل کر پھل توڑ لیں گے تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو۔ لیکن جب وہ باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں پھل کا نام ونشان نہیں۔ اس پر وہ بولے: بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے۔ پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے لگے: ہم راستہ نہیں بھولے بلکہ حق دار مسکینوں کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے پھل سے محروم ہوگئے ہیں۔ (صراط الجنان، القلم، تحت الآیة 17۔32، مختصراً)

• ”اور جب وہ ہلاکت میں پڑے گا تو اس کا مال اسے کام نہ آئے گا۔“ (اللیل 11)

یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کر رہا ہے وہ جب مر کر قبر میں جائے گا یا جہنم کی گہرائی میں پہنچے گا تواس کا مال اللہ پاک کے عذاب سے بچانے میں اسے کچھ کام نہ آئے گا۔ (صراط الجنان، اللیل، تحت الآیة 11)

ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کے عطا کیے ہوئے مال میں سے دل کھول کر اس کی راہ میں خرچ کریں بالخصوص زکوٰة، فطرہ، عشر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہ کریں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلّم