محمد طلحٰہ خان عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین ،راولپنڈی،پاکستان)
اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سےاسکی خوشنودی و رضا کو
حاصل کرنے کے لیے اسکے حاجت مند بندوں پر اور راہِ خدا میں خرچ کرنا ”انفاق فی
سبیل اللہ“ کہلاتا ہے۔ راہ خدا میں خرچ
کرنے کا حکم قراٰن مجید میں جابجا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ الَّذِیْنَ فِیْۤ
اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌﭪ(۲۴) لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِﭪ(۲۵) ترجمۂ کنزالایمان : اور وہ
جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے۔ اس کے لیے
جو مانگے اور جو مانگ بھی نہ سکے تو محروم رہے۔(پ29، المعارج:25،24) معلوم حق
سے مراد زکوٰۃ ہے جس کی مقدار معلوم ہے یا اس سے وہ صدقہ مراد ہے جو آدمی اپنے آپ
پر مُعَیَّن کرلے اور اس ے مُعَیَّن اوقات میں ادا کیا کرے ۔ اس سے
معلوم ہوا کہ مُستحب صدقات کیلئے اپنی طرف سے وقت مُعَیَّن کرنا شریعت
میں جائز اور قابلِ تعریف ہے۔ سائل سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے وقت
سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو حاجت کے باوجود شرم و حیا کی وجہ سے
نہیں مانگتا اور اس کی محتاجی ظاہر نہیں ہوتی۔( تفسیر
کبیر، المعارج، تحت الآیۃ: 24-25، 10 / 645، خازن، المعارج،
تحت الآیۃ: 24-25، 4 / 310، ملتقطاً)اس سے معلوم ہوا کہ ہر
صاحبِ استطاعت شخص کے مال میں فقیروں مسکینوں اور محتاجوں کا بھی حق ہوتا ہے، لہٰذا
اسے راہِ خدا میں حسبِ توفیق خرچ کرتے رہنا چاہیے۔
اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں
کے متعلق قراٰن و حدیث میں سخت وعیدات موجود ہیں۔ چند وعیدیں ملاحظہ ہوں،
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا
یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- ترجمۂ کنزُالایمان: ہاں ہاں یہ جو تم ہو
بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل
کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے ۔(پ26،محمد:38) یہاں اپنی جان سے بخل کرنے سے
مراد یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے میں کنجوسی کرنے سے ثواب سے محرومی ہے اور
ثواب کی کمی بروزِ حشر مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اور ارشاد فرمایا:
وَ لَا
یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ
اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ
لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-ترجمۂ کنزُالایمان:
اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے
لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت
کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔(پ4،آل عمرٰن:180)
مال جمع کرنا بذاتِ خود برا عمل نہیں ہے لیکن اس کے حقوق
یعنی زکوٰة اور صدقاتِ واجبہ ادا نہ کرنا انتہائی برا عمل ہے اور دردناک عذاب کی
طرف لے جانے والا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ
لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى
عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ
ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ
تَكْنِزُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور
چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی جس
دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں
اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔(پ10،التوبۃ:35،34)
اور فرماتا ہے:وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا
بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ
کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔(پ2، البقرة:195) یہاں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے مراد راہِ خدا
میں خرچ نہ کرنا بھی ہے ۔
جب بھی خرچ کرنے کا ذہن ہو تو کوشش کرنی چاہیے ہمیشہ اپنی
محبوب ترین شے کو راہِ خدا میں خرچ کیا جائے ورنہ اعلٰی تقوٰی کو پانے میں ناکامی
ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ترجمۂ کنز الایمان : تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے
جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو ۔(پ4، اٰل عمرٰن:92) اس آیت میں
بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے ۔ (صراط الجنان،2/10)
مال اللہ پاک کی نعمت ہے اور یہ بندے پر ہے کہ وہ اس نعمت
کا درست استعمال کر کے اپنے لیے منافع بخش بناتا ہے یا غلط استعمال اور بخل کر کے
اپنی ہلاکت کا سامان بناتا ہے ۔ اللہ پاک نے ہر انسان کو اس دنیا میں امتحان کے
لیے بھیجا ہے ۔ کسی کو امیر بنایا اور کسی کو غریب ۔ غریب کا امتحان یہ ہے کہ وہ
صبر و شکر کرے اور جس حال میں اللہ پاک نے رکھا ہے اس پر رضا مند رہے اور امیر کا
امتحان یہ ہے کہ وہ راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرے اور مال کو سنبھال کر نہ رکھے
ورنہ یہی مال تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔جیسا کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ
اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے
مالداروں سے اللہ پاک سخت حساب لے گا اور انہیں دردناک
عذاب دے گا۔( معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ: دلیل، 2/ 374،
حدیث: 3579)
اسی لیے رضا الٰہی حاصل کرنے اور ثواب کمانے کی نیت سے راہِ
خدا میں خوب اپنا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم