انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق مختصر تمہیدی گفتگو: ہر مسلمان کو چاہئے کہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے رہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کر سکے۔ راہِ خدا میں انفاق کرکے وہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں جو ہر کوئی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر اللہ نے آپ کو مال دیا ہے تو ضرور نیک کاموں میں خرچ کرے۔ حشر کے میدان میں کوئی بھی چیز فائدہ نہیں دے گی۔ دنیوی دوستی بھی بیکار ہو گی بلکہ ماں باپ بھی اپنی اولاد سے جان چھڑا رہے ہونگے۔ ہر عزیر و اقرباء ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہوں گے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ آخرت کا فکر کرتے ہوئے نیک و جائز کاموں میں اپنا مال انفاق کرے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۵۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے دئیے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدفروخت ہے نہ کافروں کے لیے دوستی اور نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254)

فکرآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا میں اللہ پاک کا دیا ہوا مال خر چ کرلو۔ قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ صرف اِذنِ الٰہی سے اللہ پاک کے مقبول بندے شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیتُ الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی۔ (صراط الجنان)

جو راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں اسے اللہ رب العزت ایک مثال کے ذریعے بیان کر رہا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمہ کنز الایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔(پ3،البقرۃ:261)

راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ پاک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، طاوس عن ابن عباس، 11 / 52، حدیث: 4745)

اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں وغیرہ پر کھلادیا جائے۔(صراط الجنان)

اللہ پاک ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انفاق کرے تو کہاں کرے۔ تو اس بارے میں بھی اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے : لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ٘-یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ-تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْۚ-لَا یَسْــٴَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠(۲۷۳)ترجمہ کنز الایمان: ان فقیروں کے لیے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔(پ3،البقرۃ:273)

اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ دین کا کام تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کر سکے۔ اٰمین یا رب العالمین۔

انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار: لیکن آج جب ہم معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ سستی کا شکار ہے۔ وہ سوچتے ہیں ہمارا مال ختم ہو جائے گا ۔ ہم مفلس ہو جائیں گے۔ لوگ ہم سے زیادہ مالدار ہو جائے گا۔ اس طرح کے وسوسے انسانوں کو شیطان دلاتا ہے جسے اللہ پاک نے قرآن میں بیان کیا ہے: اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ(۲۶۸) ترجمۂ کنز الایمان : شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے بخشش اور فضل کا اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (پ3 ،البقرۃ : 268 )

بغیر کسی دنیاوی مفاد کے رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرنے کے فضائل کے بیان کے بعد اِس راہ میں پیش آنے والے سب سے بڑے وسوسے کا بیان کیا جا رہا ہے کہ شیطان طرح طرح سے وسوسے دلاتا ہے کہ اگرتم خرچ کرو گے ،صدقہ دو گے تو خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے لہٰذا خرچ نہ کرو۔ یہ شیطان کی بہت بڑی چال ہے کہ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس طرح کے اندیشے دلاتا ہے حالانکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا جارہا ہوتا ہے وہی لوگ شادی بیاہ میں جائز و ناجائز رسومات پر اور عام زندگی میں بے دریغ خرچ کررہے ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے لیکن اللہ پاک تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو گھٹنے نہ دے گا بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔(صراط الجنان)

لہذا مسلمانوں کو شیطانی وسوسے سے بچنا چاہئے اور فضائل کو ذہن نشین رکھے کہ صدقہ غضبِ الٰہی کو بجھاتا اور بری موت دور کرتا ہے۔ گناہ مٹاتا ہے۔ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے اور بری قضا ٹال دیتا ہے۔ صدقہ دینے سے روزی اور مدد ملتی ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ آفتیں دور ہوتی ہیں، نیز بلا صدقے سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ (فتاوی رضویہ، 23 / 137تا 140، ملخصاً)