پیارے اسلامی بھائیو! حُقُوق دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک حُقُوقُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حُقُوق اور دوسرا حُقُوقُ الْعِباد یعنی بندوں کے حُقُوق۔ حُقُوقُ اللہ تو ہم پر اس وجہ سے لازِم ہیں کہ ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے ہیں، اس نے ہمیں پیدا فرمایا، وہی ہمارا خالق و مالک اور پالنے والا ہے،اِسی وجہ سے اس کے اَحکامات کی بجاآوری ہم پر لازِم ہے۔لیکن بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہم پرکیوں ضروری ہے؟ اس بات کا جواب دیتے ہوئے حُجَّۃُالْاِسْلام، حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اِرْشاد فرماتے ہیں: انسان یا تو اکیلا رہتا ہے یا کسی کے ساتھ اور چونکہ انسان کا اپنے ہم جنس لوگوں کے ساتھ مَیل جول رکھے بغیر زِندگی گُزارنا مُشکل ہے، لہٰذا اس پر مل جُل کر رہنے کے آداب سیکھنا ضروری ہیں۔ چُنانچہ ہر اِختِلاط (میل جَول) رکھنے والے (شخص) کے لیے مل جُل کر رہنے کے کچھ آداب (حقوق)ہیں۔ (احیاء العلوم،2/699)

معلوم ہوا بندوں کے حقوق کے لازِم ہونے کا بُنیادی سبب تمام اِنْسانوں کا مل جُل کر ایک ساتھ رہنا ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! مسلمان کی حق تَلَفی آخرت کیلئے بَہُت زِیادہ نُقصان دِہ ہے،حضرت سیِّدُنا شیخ ابُوطالب محمد بن علی مکی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ قُوْتُ الْقُلوب میں فرماتے ہیں: زِیادہ تَر (اپنے نہیں بلکہ) دوسروں کے گُناہ ہی دوزخ میں داخِلے کا باعِث ہوں گے جو(حُقُوقُ العِباد تَلَف کرنے کے سبب) انسان پر ڈال دئیے جائیں گے۔ نیز بے شُمار اَفْراد (اپنی نیکیوں کے سبب نہیں بلکہ) دوسروں کی نیکیاں حاصِل کرکے جنَّت میں داخِل ہوجائیں گے۔ (قُوتُ القُلُوب ج2 ص 253) ظاہر ہے دوسروں کی نیکیاں حاصل کرنے والے وہی ہوں گے، جن کی دُنیا میں دل آزاریاں اور حق تلفیاں ہوئی ہوں گی، یُوں بروزِ قیامت مظلوم اور دُکھیارے لوگ فائدے میں رہیں گے۔ (ظلم کا انجام، ص17،18ملتقطاً)

پیارے اسلامی بھائیو! احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر مسلمانوں کے حقوق کی اَہَمیّت بیان کی گئی ہے، آئیے!ان میں سے پانچ (5) فرامینِ مُصطفٰے پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

1 مُسَلمان کی سب چیزیں مُسلمان پر حرام ہیں، اس کا مال اور اس کی آبرو اور اس کا خُون۔ آدمی کی بُرائی سے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کوحقیر جانے۔(ابو داود، 4/354، حدیث:4882، غیبت کی تباہ کاریاں،101)

2 جس کے ذِمّے اپنے بھائی کا کسی بات کا ظُلم ہو، اسے لازِم ہے کہ قیامت کا دن آنے سے پہلے یہیں دنیا میں اس سے مُعافی مانگ لے،کیونکہ وہاں نہ دِینار ہوں گے اور نہ دِرْہَم، اگر اس کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی، تو بقَدَر اُس کے حق کے،اِس سے لے کر اُسے دی جائیں گی، ورنہ اُس (مظلوم) کے گناہ اِس (ظالم) پر رکھے جائیں گے۔(بخاری، 2/128، حدیث:2448 از غیبت کی تباہ کاریاں،294)

3 دفتر (رجسٹر) تین (3) ہیں، ایک دفتر میں اللہ تَعَالٰی کچھ نہ بخشے گا اور ایک دفتر کی اللہ تَعَالٰی کو کچھ پروا نہیں اور ایک دفتر میں اللہ تَعَالٰی کچھ نہ چھوڑے گا، وہ دفتر جس میں اَصلاً (بالکل) معافی کی جگہ نہیں،وہ توکفر ہے کہ کسی طرح نہ بخشاجائے گا اور وہ دفتر جس کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کچھ پروا نہیں،وہ بندے کا گناہ ہے،خالص اپنے اور اپنے رَبّ عَزَّوَجَلَّ کے مُعاملہ میں (کہ کسی دن کا روزہ ترک کیا یا کوئی نماز چھوڑ دی، اللہ تَعَالٰی چاہے تو اسے مُعاف کر دے اور دَرْگُزر فرمائے) اور وہ دفتر جس میں سے اللہ تَعَالٰی کچھ نہ چھوڑے گا وہ بندوں کاآپس میں ایک دوسرے پرظُلم ہے کہ اس میں ضرور بدلہ ہوناہے۔ (مستدرک، 5/794، حدیث: 8757، از فتاویٰ رضویہ، 24/460)

4۔ جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے (یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نے منع کیا) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کے دن اس کو جہنم کی آگ سے بچائے۔ (شرح السنۃ، 6/494، حدیث: 3422)

5 تم لوگ حُقُوق، حق والوں کے سپرد کردو گے،حتّٰی کہ بے سینگ والی کا سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (صَحِیح مُسلِم ص1394حدیث:2582)

پیارے اسلامی بھائیو! ابھی ہم نے پانچ (5) اَحادیثِ مُبارَکہ پڑھیں، ان میں بیان کردہ آخری حدیثِ مُبارَکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے دُنیا میں لوگوں کے حُقُوق اَدا نہ کئے تو لَامَحالہ (یعنی ہر صورت میں) قِیامت میں اَدا کرو گے، یہاں دنیا میں مال سے اور آخِرت میں اعمال سے، لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ دُنیا ہی میں ادا کر دو، ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ مِراٰۃ شَرحِ مشکوۃ میں ہے: جانور اگرچِہ شرعی احکام کے مُکلَّف نہیں ہیں، مگر حُقُوقُ العِباد جانوروں کو بھی اَدا کرنے ہوں گے۔ (مراٰۃ ج6ص674ملتقطاً،از ظلم کا انجام،ص9)

پیارے اسلامی بھائیو! مسلمانوں کے حقوق کا مُعاملہ واقعی بہت نازُک ہے، ہمیں اس بارے میں ہر وَقْت مُحتاط رہنا چاہیے۔اگر کبھی دانستہ یا نادانستہ طور پرکسی مسلمان کا حق تَلَف ہوجائے تو فوراً توبہ کرتے ہوئے صاحبِ حق سے مُعافی بھی مانگنی چاہیے۔حُقُوقُ اللہ سچی توبہ سے مُعاف ہو جاتے ہیں، جبکہ بندوں کے حقوق میں توبہ کے ساتھ ساتھ جس کا حق مارا ہے،اس سے بھی مُعافی مانگنا ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت،امامِ اَہْلسُنَّت،مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:حق کسی قسم کا بھی ہو، جب تک صاحبِ حق مُعاف نہ کرے،مُعاف نہیں ہوتا، حُقُوقُ اللہ میں توظاہر (ہے) کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا دوسرا معاف کرنے والا کون ہوسکتا ہے کہ (قرآنِ پاک میں ہے)(وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہ تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے)اور بندوں کے حقوق میں رَبّ تَعَالٰی نے یہی ضابطہ مقرَّرفرما رکھا ہے کہ جب تک وہ بندہ مُعاف نہ کرے، مُعاف نہ ہوگا۔ اگرچہ مَولیٰ تَعَالٰی ہمارا اور ہمارے جان و مال و حُقُوق سب کا مالک ہے، اگر وہ بے ہماری مرضی کے،ہمارے حُقُوق جسے چاہے مُعاف فرمادے، تو بھی عین حق اور عدل ہے کہ ہم بھی اسی کے اور ہمارے حُقُوق بھی اسی کے مُقرَّر فرمائے ہوئے ہیں، اگر وہ ہمارے خُون، مال اورعزت وغیرہا کو معصوم و محترم نہ کرتا تو ہمیں کوئی کیسا ہی آزار (تکلیف) پہنچاتا، کبھی ہمارے حق میں گرفتار نہ ہوتا۔ یُونہی اب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ جسے چاہے، ہمارے حُقُوق معاف فرما دے کیونکہ وہی مالکِ حقیقی ہے،مگر اس کریم،رحیم عَزَّوَجَلَّ کی رحمت (ہے) کہ ہمارے حُقُوق کا اِختیار ہمارے ہاتھ (میں) رکھا ہے، بے ہمارے بخشے مُعاف ہوجانے کی شکل نہ رکھی،تاکہ کوئی مظلوم یہ نہ کہے کہ اے میرے مالک! مجھے میرا حق نہ ملا۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/460،بتغیر قلیل)

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بندوں کے حقوق کی اَہمیّت سمجھنے اور ان کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔