اللہ پاک نے انسانوں کو پیدا کیا تاکہ ان کو دیکھ سکے کہ کون ان میں سے اچھے اعمال کرتا ہے پھر نیک اعمال پرجنت رکھ دی اور بوڑھے اعمال پر دوزخ رکھ دی جنت کے نیک اعمال میں سے ہمیں مسلمانوں کے حقوق بھی دیئے اسلام میں مسلمانوں کے بہت زیادہ حقوق ہیں جس کو ہم پر پورا کرنا لازمی ہے آئیں ہم مسلمانوں کے کچھ حقوق سنتے ہیں:

(1)مسلمانوں پر ظلم نہ کریں: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہ کرے اس کو رسوا نہ کرے جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے مصائب میں سے کوئی مصیبت دور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالی اس کا پردہ رکھے گا۔(بخاری، کتاب المظالم و الغضب،باب لا یظلم المسلم،حدیث 2442)

(2) مسلمان ایک جسم کی طرح: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو سارے جسم میں درد ہوگا۔(مسلم، حدیث 2586)

(3) مسلمان ایک کی طرح: حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔(مسلم، حدیث2585)

(4)مسلمان کی عیادت کرنا: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے 70 ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک 70 ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا۔(مسلم،حدیث 2568)

(5) مسلمان کے جنازے میں شرکت کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو نماز ادا کرنے تک جنازے میں شریک رہا اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے اور تدفین تک شریک رہا اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے پوچھا گیا دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا دو عظیم پہاڑوں کی مثل۔(بخاری ،حدیث1325)

اللہ تعالی مسلمانوں کو باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


صحت مند اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ہر مسلمان کے حقوق کی ادائیگی کا اور انکی پامالی نہ ہو اس چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اللہ عزّوجل نے جو حقوق ہم پر فرض فرمائے ہیں وہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانیت کی نفسانی اور نفسیاتی طبیعت کے عین مطابق ہے۔

حقوق کے معنٰی : حقوق کے معنٰی ہیں واجب۔ بعض جگہ اس سے مراد سچ ہوتا ہے جیسے حق بات۔

حقوق کی اقسام : حقوق کی دو اقسام ہیں۔ 1۔حقوق اللہ یعنی اللہ کے حقوق جیسے نماز روزہ حج زکوٰة المختصر عبادات۔ 2۔حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق۔

اسلام نے ہر چھوٹے بڑے کو اس کا حق دیا۔ بادشاہ سے رعایا تک آقا سے غلام تک سب کو منصفانہ حقوق دیئے ہیں، آئیے جانیں کہ اسلام نے مسلمان کو کیا حقوق دیئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا؛ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔ 1۔سلام کا جواب دینا۔ 2۔مریض کی بیمار پرسی کرنا۔ 3۔جنازے کے ساتھ جانا۔ 4۔اسکی دعوت قبول کرنا۔ 5۔چھینک کا جواب دینا۔ (بخاری، حدیث:1240) اس حدیث پاک کے تحت چند باتوں کی طرف توجّہ دلائی گئی ہے

1۔ بیمار کی مزاج پرسی بیمار کے لیے باعثِ ایذا نہ ہو۔

2۔جنازے میں جاتے وقت کوئی کام خلافِ سنّت نہ ہو تب ہی حق ادا ہو گا۔

3۔ دعوت کے معاملے میں خلاف شریعت ہونے والی دعوت کو منع کرنے میں حرج نہیں ۔

4۔چھینکنے والا اونچی آواز سے الحمدللہ کہے تو ہم پر لازم ہے کہ یرحمک اللہ یعنی اللہ تم پر رحم کرے یہ کہیں

مسلمان کا حق یہ ہے کہ اسے گناہوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے نیکی کی دعوت دی جائےایک قول کے مطابق جب گنہگار کو جہنم کی سزا سنائی جائے گی وہ کہے گا اے اللہ میرے ساتھ میرے ارد گرد رہنے والوں کو بھی جہنم میں ڈال کیونکہ جب میں گناہ کرتا تھا تو وہ مجھے منع نہیں کرتے تھے یاد رہےکہ نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انتہائی، حکیمانہ،تدبرانہ انداز اختیار کرنا چاہیے نرمی کے ساتھ غصے تشدد سخت انداز سے بچتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے۔

تربیت: صرف اپنے بلکہ معاشرے کے ہر بچے کی اچھی تربیت ان کا حق ہے جہاں تک ہو سکے بچوں کو آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتیں سکھائیں ۔

برابری: مسلمان کا یہ حق ہے کہ اسے کسی سے کمتر نہ سمجھا جائے بلکہ سب کے برابر حقوق ہونے چاہیے اونچ نیچ کے فرق کی اسلام نفی کرتا ہے۔

گناہوں پر پردہ: یوں ہی ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس کے گناہوں پر پردہ ڈالا جائے جب بھی کوئی کمزور بات کسی مسلمان بھائی کے متعلق علم میں آئے تو اسے چھپا کر پردہ ڈالنا چاہیے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو ہم اکثر سنتے رہتے حقوق اللہ اور حقوق العباد۔یعنی بندوں کے حقوق کے بارے میں احادیث کی روشنی میں قرآنی آیات میں بھی اکثر مقامات پر مسلمانوں کے حقوق بیان کئے جاتے ہیں ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ میرے ایک مسلمان بھائی کے دوسرے مسلمان پر کیا حقوق ہیں مسلمان کے مسلمان پر حقوق بہت زیادہ ہیں، ان میں سے کچھ عینی طور پر واجب ہیں کہ ہر شخص انہیں ادا کرے گا، اگر کوئی چھوڑ دے گا تو گناہ گار ہو گا۔ اور کچھ حقوق واجب کفایہ ہیں، یعنی اگر کچھ لوگ اس حق کو ادا کر دیں تو بقیہ سب پر ادا کرنا لازم نہیں ہو گا، کچھ حقوق مستحب ہیں واجب نہیں ہیں اگر ان میں سے کوئی حق رہ جائے تو مسلمان کو گناہ نہیں ہو گا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو فرماتے ہوئے سنا: مسلمان کے مسلمان پر 5 حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، تدفین کے لیے جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک لینے والے کو الحمد للہ کہنے پر یرحمک اللہ کہنا۔( بخاری:حدیث:1240۔ مسلم، حدیث:2162)

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں، کہا گیا: وہ کون سے ہیں؟ اللہ کے رسول! تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب آپ مسلمان سے ملیں تو اسے سلام کہیں، جب وہ آپ کو دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کریں، اور جب وہ آپ سے مشورہ طلب کرے تو اسے اچھا مشورہ دیں، اور جب اسے چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ کے ساتھ جواب دے، اور جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور جب فوت ہو جائے تو تدفین کے لیے ساتھ جائے۔

1۔ اگر سلام ایک فرد کو کیا جائے تو سلام کا جواب دینا فرض ہے اور اگر پوری جماعت کو سلام کہا جائے تو یہ فرض کفایہ ہے۔ جبکہ سلام میں پہل کرنے کے حوالے سے اصل یہ ہے کہ یہ سنت ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: آپس میں سلام عام کرو اگر سلام ایک شخص کو کیا جائے تو سلام کا جواب دینا واجب ہے، اور اگر سلام پورے گروپ کو کیا جائے تو سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے، چنانچہ اگر کوئی ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو بقیہ پر جواب نہ دینے کی وجہ سے کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر سب کے سب جواب دیں تو سب ہی فرض ادا کر دیں گے چاہے اکٹھے جواب دیں یا آگے پیچھے جواب دیں، اور اگر کوئی بھی جواب نہ دے تو سب کو گناہ ہو گا کیونکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔

2۔جنازے کے ہمراہ چلنا بھی فرض کفایہ ہے۔

3۔دعوت قبول کرنے کے حوالے سے یہ ہے کہ اگر ولیمے کی دعوت ہو تو جمہور اس دعوت کو قبول کرنا واجب کہتے ہیں، ہاں اگر کوئی شرعی عذر ہو تو ان کے ہاں بھی عدم شرکت کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر دعوت ولیمے کی نہیں ہے تو جمہور ایسی دعوت قبول کرنے کو مستحب کہتے ہیں۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں پہلا سلام کا جواب دینا دوسرا بیمار کی عیادت کرنا تیسرا جنازوں کے ساتھ جانا چوتھا دعوت کو قبول کرنا پانچواں چھینک کا جواب دینا ۔

اس حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض اوقات کو شمار کرنے کے لیے صرف ان کا ذکر فرمایا ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :

مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں سلام کا جواب دینا یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے تو آپ اس کا سلام کا جواب دیں جو شخص مسلمان کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو بدرجہ اولی پورا کرے گا اسی طرح سے وہ ان واجبات حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی معزر ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرط یہ کہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار ہے ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو تیسرا حق جنازے کے پیچھے چلنا اور ان کے ساتھ ساتھ جانا ہے مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے گھر سے لے کر جنازہ گاہ تک اس کے جنازے کے ساتھ ساتھ چلے ۔

چوتھا حق دعوت قبول کرنا مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ جب وہ اسے دعوت دے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے پانچواں حق چھینک کا جواب دینا کیونکہ چھینک آنا اللہ تعالی کی نعمت ہے اور اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزاءبدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے اور یوں چھینکنے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے چاہیے کہ اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اس کے بھائی کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ہائے افسوس! آج مسلمان ان حقوق کی ادائیگی سے غافل ہیں شاید! ایسا علم دین کی کمی کی وجہ سے ہے۔ شریعت مطہرہ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت سے حقوق ضروری قرار دیئے ہیں لیکن مشاہدات، تجربات اور بزرگان دین کی تعلیمات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان سب حقوق کا ایک مقصد مسلمانوں کی حرمت (عزت) کا خیال رکھنا اور ان کی دل آزاری سے بچنا ہے۔

جیسا کہ الله پاک قران پاک میں فرماتا ہے:ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کیے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ سر لیا۔(پ:22، الاحزاب:58) ایک اور جگہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔(پ:26، الحجرات:12) اور ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہے۔(پ:26، الحجرات:11)

احادیث میں بھی حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا ہے: جیسا کہ حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: لوگوں نے پوچھا: یا رسول الله! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ جس کے ماننے والے مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔(صحیح البخاری، کتاب الایمان، حدیث: 11)

اور فرمایا: الله کے بندوں! بے شک الله نے حرج کو اٹھا دیا ہے مگر وہ شخص جو اپنے بھائی کی آبرو ریزی کے در پہ ہو تو ایسا شخص ہلاک ہوا۔(ابی داؤد،کتاب المناسک، 305، حدیث: 2015)

اور دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتاب غیبت کی تباہ کاریاں'' صفحہ 28 پر بھی نقل ہے: چنانچہ حضرت سیدنا امام احمد بن حجر مکی شافعی نقل کرتے ہیں: کسی (مسلمان) کی برائی بیان کرنے میں خواہ کوئی سچا ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس (مسلمان) کی غیبت کو حرام قرار دینے میں حکمت مومن کی عزت کی حفاظت میں مبالغہ کرنا ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کی عزت و حرمت اور اس کے حقوق کی بہت زیادہ تاکید ہے (الزواجر عن افتراف الکبائر،ج2،ص10)

خلاصہ کلام: اس گفتگو میں مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق جیسا کہ اس کی غیبت نہ کی جائے،اسے ناحق ستایا نہ جائے، اسے جسمانی اذیت نہ پہنچائی جائے، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی نہ کی جائے، اس کا مذاق نہ اُڑایا جائے وغیرہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر لحاظ سے ایک مسلمان کی دل آزاری سے بچا جائے۔ یہی وہ اہم ترین حق ہے جس کا ہر شوہر، بیوی، اولاد، والدین، بھائی،وغیرہ ہر رشتہ دار سے، دوستوں سے،پڑوسی سے، بلکہ تمام مسلمانوں کے ساتھ مختلف انداز میں ادا کرنے کا حکم ہے۔

ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے مسلمانوں کے اس حق کو ضرور ادا کریں اور ان کی حرمت کا خیال رکھیں۔ہماری وجہ سے ہرگز کسی مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہیئے ۔ الله پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا ہے اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

ایسے بہت سے ضروری احکام سیکھنے اور علم دین حاصل کرنے کا ایک ذریعہ دعوت اسلامی کا مدنی ماحول بھی ہے اس لیے ہر جمعرات ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی اور ہر ہفتہ مدنی چینل پر ہونے والے مدنی مذاکرہ کو دیکھنے کی اور ہر ماہ کے مدنی قافلوں میں عاشقان رسول کے ساتھ شرکت کی مدنی التجا ہے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان سے اس لیے پیدا کیا کہ اس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کا احساس ہو۔دکھ درد میں دوسروں کے کام آئیں۔اس بات کو مسلمانوں کے حقوق کا نام دیا گیا ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر وسیع اختیارات دیئے ہیں۔زمین و آسمان کی ہر چیز کو انسان کی نفع رسانی کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے ہر انسان کے ذمے یہ فریضہ عائد کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ہر چیز اور مخلوقات کے لیے ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے کسی کا حق تلف نہ ہو۔حقوق العباد در حقیقت بندوں کے آپس میں وہ حقوق ہیں کہ ہر کوئی اپنے حق کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارے جس سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے حقوق کی ادائیگی میں لوگ انتہائی غفلت کرتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا دروازہ کھلتا تھا۔سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسان کے ہر رشتہ کے لحاظ سے حقوق کی حدود متعین کر دیں۔جب ہر کوئی اپنے فرائض کو شرعی قواعد کے مطابق ادا کرے گا تو پھر کسی کی حق تلفی نہ ہوگی اور نہ کسی پر ظلم ہوگا۔حقوق کی حفاظت کا اہتمام جتنا شریعتِ اسلامیہ میں کیا گیا ہے دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔

بندوں کے حقوق اچھی طرح وہ ادا کر سکے گا جسے یہ علم ہوگا کہ اللہ کے نبی نے ہر ایک کے حقوق کے بارے میں فرداً فرداً کیا فرمایا ہے۔ مسلمان ایک ملت اور قوم ہے لہٰذا اسلام نے ہر مسلمان پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ آپس میں اتفاق،سلوک اور پیار محبت سے رہیں کیونکہ اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔مسلمانوں کو ایک برادری کی حیثیت حاصل ہے۔خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں رہتے ہوں۔آپس میں مسلمانوں کا رشتہ نہایت ہی مضبوط رشتہ ہے۔اس رشتہ نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے اور ان کے درمیان آپس میں رحم،شفقت،محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کو لازم قرار دیا ہے۔جنہیں حقوق کے نام سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ان حقوق کو ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کے حقوق ادا کرتا رہے گا تو اسے بھی وہی سہولتیں میسر آ جائیں گی جو ہر مسلمان کے لیے ہیں۔

اس کے بارے میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث مبارکہ سنئے: عن أبي ه‍ريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال المؤمن مألف و لا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن الفت کرنے والا ہے اور اس میں کوئی بھلائی نہیں جو الفت نہ کرے اور اس سے الفت نہ کی جائے۔(بیہقی)

عن النعمان بن يسير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المؤمن كرجل واحد انشتكي عينه الشتكي كله وان الشتكي رأسه شتكي كله ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایمان والے ایک جسم کی طرح ہیں۔اگر آنکھ کو تکلیف ہو جائے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر کو تکلیف ہو جائے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔(مسلم)

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا ہے کہ اگر آنکھ کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔

اخلاقی طور پر ایک مسلمان اگر اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی میں کوئی برائی یا خرابی دیکھے تو اسے بڑی حکمت سے دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ برائی کر رہا ہے کیونکہ اس میں احساس برائی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔اس لیے کسی مسلمان میں برائی ہو تو اس میں احساس پیدا کریں کہ تمہارا فلاں عمل برا ہے اس کی اصلاح کر لو۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ۔وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ۔اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (36)

ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔(پ5، النسآء: 36)

موضوعِ آیت:اس آیتِ کریمہ میں بندوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے۔ بندوں کے حقوق میں بنیادی اصول* دوسروں کو تکلیف سے بچانا اور سہولت و راحت پہنچانا ہے۔ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، بدکلامی اور بدگمانی سے بچیں، کسی کا عیب نہ بیان کریں، کسی پر الزام تراشی نہ کریں، تلخ کلامی سے بچیں، نرمی سے گفتگو کریں، مسکراہٹیں بکھیریں، جو اپنے لئے پسند کریں وہی دوسروں کےلئے پسند کریں، دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں اور ان کے لئے باعثِ خیر بنیں۔

پھر بندوں کے حقوق میں درجہ بدرجہ تفصیل ہے مثلا ًماں باپ کا حق سب سے مقدم ہے اور کسی اجنبی کا حق سب سے آخر میں ہے۔ آیتِ کریمہ میں کثیر افراد کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں والدین، رشتے دار، یتیم، محتاج، قریب اور دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے، مسافر، اجنبی لوگ، اپنے خادمین وغیرہ سب شامل ہیں۔ ان کے جدا جدا حقوق یہ ہیں: اور اب اس میں سے کچھ کے حقوق کو حدیث پاک سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں

(1)رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا: ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری، 2/10، حدیث: 2067)

صلہ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔(بہارِ شریعت، حصہ 16، 3/588)

اور اسی طرح ہمسایوں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اس میں قریب کے ہمسایوں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور اسی طرح دور کے ہمسایوں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور قریب کے ہمسایوں سے مراد وہ جن کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا ہو یا وہ جو آپ کے رشتے دار ہو ان کو بھی قریب کے ہمسائے کہا جاتا ہے اور وہ جو جن کا گھر آپ کے گھر سے تو نہ ملا ہو پر وہ مسلمان ہو اسے بھی قریب کا ہمسایہ کہا جاتا ہے اور دور کے ہمسائے وہ جن کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا نہ ہو پر وہ آپ کی گلی میں رہتا ہوں ان سب سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

یتیموں سے بھی حسن سلوک : یتیموں کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے ان کے سر پر نرمی کا ہاتھ رکھے اور اس کے مال کو ناحق نا کھاے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔(بخاری، 3/497، حدیث: 5304 )

مسکینوں سے بھی حسن سلوک کا حکم : اور ان کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی مدد کرے اور جب کوئی مانگنے آئے تو اسے کھالی ہاتھ نہ جانے دے اور اس کو برا بھلا نہ کہے جیسا حدیث پاک میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہ ِخدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (بخاری، 3/511، الحدیث: 5353

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی مدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور کسی کا حق کھانے اور کسی کو تکلیف پہنچائے سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الحدیث الاول: حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہرمسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اس پرواجب ہے کہ وہ اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے اسے(مدد کی ضرورت ہوتو) بے یارو مددگار نہ چھوڑے اور نہ اسے حقیر جانے اور نہ اس سے حقارت کا برتاؤ کرےپھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تقوی یہاں ہوتا ہے آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہےاسکا خون بھی اسکا مال بھی اور اسکی آبرو بھی ۔(صحیح مسلم)

اس حدیث میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیکر کچھ معاشرتی حقوق بیان فرماے جن کی وضاحت کرتے ہیں :

پہلا حق :ان میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان پر کسی قسم کا ظلم نہ کیا جائے اس میں ہر قسم کاظلم داخل ہے خواہ جسمانی ہو یا مالی ہو زبانی ہو یا نفسیاتی ہو ۔

الحدیث الثانی :چنانچہ ایک اور حدیث میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کسی مسلمان کو ایسی جگہ بےیار مدد گار چھوڑے گا اللہ تعالٰی اس کو ایسی جگہ بے یار مدد گار چھوڑے گا جہاں مدد کی ضرورت ہو گی۔ (ابو داؤد)

تیسرا حق:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تیسرا حق یہ بیان فرمایا کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو نہ حقیر سمجھے اور نہ اس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے ۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آخر میں ایک اصولی ہدایت یہ عطا فرمائی کہ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے اس کی جان بھی مال بھی اور آبرو بھی ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں ایک حقوق الله یعنی الله کے حقوق اور دوسرا حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق تو ہم پر اس وجہ سے لازم ہے کہ ہم اللہ کے بندے اس نے ہمیں پیدا فرمایا وہی ہمارا خالق مالک اور پالنے والا ہے اس وجہ سے ہم پر اس کے احکامات کی بجا آوری ہم پر لازم ہے ۔

پیارے اسلامی بھائیو اسلام میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی کہا گیا ہے چنانچہ اپنے بھائی کی اصلاح کی فکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے اس کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ آپس میں ہمدرد غمگسار اور شفیق حلیم بن کر رہیں اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے اس کی مزید وضاحت اس طرح فرمائی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی سے مصیبت دور کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کی مصیبت میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا ۔

جو شخص کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔(البخاری)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا ہے کہ اگر آنکھ کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہےاخلاقی طور پر ایک مسلمان اگر اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی میں کوئی برائی یا خرابی دیکھے تو اسے بڑی حکمت سے دور کرنے کی کوشش کریں کیونکہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ برائی کر رہا ہے کیونکہ اس میں احساس برائی ختم ہو چکا ہوتا ہے اس لیے کسی مسلمان میں برائی ہو تو اس میں احساس پیدا کریں کہ تمہارا فلاں عمل برا ہے اس کی اصلاح کر لو ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں سلام کا جواب دینا مریض کی عیادت کرنا جنازے کے ساتھ جانا دعوت کا قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا ۔

حدیث مبارکہ:

ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں جب تو اسے ملے تو اسے سلام کرے جب وہ تجھے دعوت دے تو تو اس کی دعوت قبول کرے جب وہ تجھ سے مشورہ مانگے تو تو اسے اچھا مشورہ دے جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون سا اسلام افضل ہے تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا وہ جس کے ماننے والے مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں رہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان حدیث نمبر 11)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام نے معاشرے میں مؤمن کی شان کو واضح کرنے کےلئے حقوق مقرر کئے ہیں تاکہ ان حقوق پر عمل پیرا ہوکر مسلمان ایک دوسرے سے محبت کریں، ان میں اتحاد و اتفاق اور محبت و الفت بڑھے، کہیں بھی بَدْ اَمْنی نظر نہ آئے، ان کے دلوں سے کینہ و نفرت نکل جائے اور ان میں حقیقی بھائی چارا کی فضا قائم ہوجائے۔ آئیے! ان میں سے چند حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1)معاف کرنا: حقوقُ العباد میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمان بھائی کی غلطی و خطا سے درگزر کیا جائے اگر کوئی بُرا فعل یا قول سنے تو معاف کر دیا جائے۔ جیسا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مسلمان بھائی کی لغزش کو معاف کیا تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن معاف فرمادے گا۔(شعب الایمان، 6/314،حدیث: 8310)

(2)حُسنِ اَخلاق: ہمیں چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئیں اور ان کے ساتھ گالی گلوچ سے پرہیزکریں۔

(3)حاجت روائی کرنا:مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرنے کا عظیم ثواب ہے، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے جاتا ہے اللہ پاک اس پر پچھتر ہزار فرشتوں کے ذریعے سایہ فرماتا ہے وہ فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور فارغ ہونے تک رحمت میں غوطہ زن رہتا ہے اور جب وہ اس کام سے فارغ ہو جاتا ہے تو اللہ پاک اس کے لئے ایک حج اورایک عمرے کا ثواب لکھتا ہے۔ (الترغيب والترہيب، 4/163، حدیث: 5337)

(4)عیادت کرنا: ہمیں مسلمان بھائیوں کی عیادت بھی کرنی چاہئے، عیادت کرنے سے مریض کا دل خوش اور اسے سکون بھی حاصل ہوتا ہے، اس کی فضیلت کے حوالے سے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس شخص نے مریض کی عیادت کی وہ ہمیشہ خُرْفَۂ جنّت میں رہے گا۔ آپ سے پوچھا گیا: یا رسولَ اللہ! خرفۂ جنت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جنت کا باغ۔(مسلم، ص1066، حدیث: 6554)

(5)چھ متفرق حقوق: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ایک ایمان والے کے دوسرے ایمان والے پر چھ حقوق ہیں: (1)جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے(2)مر جائے تو جنازے میں شریک ہو(3)بلائے تو اس کی دعوت قبول کرے (4)جب ملے تو سلام کرے (5)چھینکے تو اس کا جواب دے (6)اس کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرے۔(مشکاۃ، 2/164،حدیث:4643)

اس کے علاوہ اور بھی مسلمانوں کے بہت سارے حقوق ہیں مثلاً کمزوروں کی مدد کرنا، غریبوں اور محتاجوں کی حاجت روائی، مظلوم کی داد رسی، ناراض مسلمانوں کی صلح کروانا، غیبت نہ کرنا، عیوب کی پردہ پوشی کرنا، نیکی کا حکم دینا، بُرائی سے منع کرنا وغیرہ وغیرہ۔

اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔