وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ۔وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ۔اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (36)

ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔(پ5، النسآء: 36)

موضوعِ آیت:اس آیتِ کریمہ میں بندوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے۔ بندوں کے حقوق میں بنیادی اصول* دوسروں کو تکلیف سے بچانا اور سہولت و راحت پہنچانا ہے۔ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، بدکلامی اور بدگمانی سے بچیں، کسی کا عیب نہ بیان کریں، کسی پر الزام تراشی نہ کریں، تلخ کلامی سے بچیں، نرمی سے گفتگو کریں، مسکراہٹیں بکھیریں، جو اپنے لئے پسند کریں وہی دوسروں کےلئے پسند کریں، دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں اور ان کے لئے باعثِ خیر بنیں۔

پھر بندوں کے حقوق میں درجہ بدرجہ تفصیل ہے مثلا ًماں باپ کا حق سب سے مقدم ہے اور کسی اجنبی کا حق سب سے آخر میں ہے۔ آیتِ کریمہ میں کثیر افراد کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں والدین، رشتے دار، یتیم، محتاج، قریب اور دور کے پڑوسی، ساتھ بیٹھنے والے، مسافر، اجنبی لوگ، اپنے خادمین وغیرہ سب شامل ہیں۔ ان کے جدا جدا حقوق یہ ہیں: اور اب اس میں سے کچھ کے حقوق کو حدیث پاک سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں

(1)رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا: ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری، 2/10، حدیث: 2067)

صلہ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔(بہارِ شریعت، حصہ 16، 3/588)

اور اسی طرح ہمسایوں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اس میں قریب کے ہمسایوں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور اسی طرح دور کے ہمسایوں سے بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے اور قریب کے ہمسایوں سے مراد وہ جن کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا ہو یا وہ جو آپ کے رشتے دار ہو ان کو بھی قریب کے ہمسائے کہا جاتا ہے اور وہ جو جن کا گھر آپ کے گھر سے تو نہ ملا ہو پر وہ مسلمان ہو اسے بھی قریب کا ہمسایہ کہا جاتا ہے اور دور کے ہمسائے وہ جن کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا نہ ہو پر وہ آپ کی گلی میں رہتا ہوں ان سب سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ۔ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

یتیموں سے بھی حسن سلوک : یتیموں کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی پرورش کرے ان کے سر پر نرمی کا ہاتھ رکھے اور اس کے مال کو ناحق نا کھاے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص یتیم کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔(بخاری، 3/497، حدیث: 5304 )

مسکینوں سے بھی حسن سلوک کا حکم : اور ان کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی مدد کرے اور جب کوئی مانگنے آئے تو اسے کھالی ہاتھ نہ جانے دے اور اس کو برا بھلا نہ کہے جیسا حدیث پاک میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بیوہ اور مسکین کی امداد و خبر گیری کرنے والا راہ ِخدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (بخاری، 3/511، الحدیث: 5353

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی مدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور کسی کا حق کھانے اور کسی کو تکلیف پہنچائے سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔