اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى یعنی ایمان والوں کی آپس میں محبت، رحم اورشفقت ومہربانی کی مثال اُس جسم جیسی ہے جس کاایک حصہ بیمار ہوتوباقی جسم بے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کوبلاتا ہے۔

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاانتخاب بے مثال ہوتا ہے خواہ وہ افراد ہوں یاالفاظ۔اس حدیثِ پاک میں جن الفاظ کو زبان ِ مصطفےٰ سے ادا ہونے کا اعزاز ملا ہےاُن میں مرادی معنی کے اعتبار سےفرق ہے مثلاً:

(1) تَرَاحُم کامعنی ایک دوسرے پررحم کرنا ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کسی اور غرض کے بغیر صرف اور صرف اسلامی بھائی چارے کی وجہ سے ایک دوسرے پررحم کریں۔

(2) تَوادّ کامعنی ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے، یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ آپس کی محبت بڑھانے کے تعلقات رکھے جائیں جیسے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جائیں، ملاقات کی جائے وغیرہ۔

(3) تعاطف کامعنی ایک دوسرے پر نرمی کرنا ہے، اس سے مراد ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ شارحینِ حدیث نے اِس حدیثِ پاک کی جو شرح فرمائی ہے اُس کا خلاصہ (Summary) یہ ہے:

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاس فرمان کے ذریعے مسلمانوں کے حقوق کاخیال رکھنے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور نرمی سے پیش آنے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ جسم کے ہر حصے کانام بھی الگ ہے، شکل بھی الگ اور کام بھی الگ لیکن روح ایک ہے لہٰذاجسم کے ایک حصے کادرد دوسرے حصے کو بےقرار کردیتا ہےاوروہ ایک دوسرے کواس درد میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے اورجب تک وہ حصہ پُرسکون نہیں ہوجاتاپورا جسم بےچینی و بےقراری میں مبتلا رہتا ہےیہی معاملہ کامل مسلمانوں کا بھی ہےکہ اگرچہ اُن کے نام، محلے، شہر، ملک، براعظم، زبان، ثقافت، رہن سہن وغیرہ الگ الگ ہیں مگراُن تمام میں روحِ اسلام موجود ہے لہٰذاکسی ایک مسلمان پر آنےوالی آزمائش کامل مسلمانوں کو بےقرارکردیتی ہے اور وہ مل کر اِسے ختم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

ایک شخص کو معلوم ہوا کہ اُس کے دو دوست پیٹ کے درد میں مبتلا ہیں لہٰذا وہ اُن میں سےایک دوست کے پاس گیاجو بہت غریب تھا اور اکیلا رہتا تھا، سلام کےبعد اُس نےپیٹ میں درد کی وجہ پوچھی تو اُس کا غریب دوست کہنے لگا: کئی دن سے بھوکا رہنے کی وجہ سےمیری یہ حالت ہوئی ہے۔یہ سُن کر اُس نےاپنے غریب دوست کے لئے کھانے کاانتظام کیا۔وہاں سےفارغ ہونے کے بعد وہ دوسرے دوست کے پاس گیا، وہ بہت امیرتھا، سلام کےبعد اُس نےپیٹ میں درد کی وجہ پوچھی تو اُس کا امیردوست کہنے لگا: بہت زیادہ کھانے کی وجہ سےاِس حال کوپہنچاہوں۔

دونوں دوستوں کی عیادت کرنے کے بعد وہ اِس نتیجے پرپہنچا کہ یہ دونوں آپس میں مل بانٹ کرکھالیتے تو شاید دونوں کی یہ حالت نہ ہوتی، زیادہ کھانے کی وجہ سے پیٹ درد کی پریشانی میں مبتلا ہونے والے شخص کو اگر اپنی بھوک کے ساتھ ساتھ غریبوں کی بھوک کا بھی احساس ہوتا اور وہ اپنی بھوک سے زائد کھانا کسی دوسرے بھوکے کا احساس کرتے ہوئے اسے کھلا دیتا تو یہ احساس شاید اسے زیادہ کھانے کی بنا پر ہونے والے پیٹ درد سے بچالیتا۔

تکلیف دور کرنےکی چند قابلِ عمل صورتیں: ہمارے ذہن میں یہ بات ہونی چاہئےکہ دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنا کامل مسلمان کی نشانی ہے لہٰذا ایک کامل مسلمان بننے کے لئے ہمیں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کی قابلِ عمل صورتیں اپنانی چاہئیں، مثلاً (1) کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو حسبِ حال خیر خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے مریض کی عیادت کی، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔

(2) ہم ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں، ایک شخص کی مدد کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں لہٰذا تکلیف زدہ مسلمان کادُکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جوکسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا۔

(3) مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے، حدیث پاک میں ہے: جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے (یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نےمنع کیا) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے بچائے۔

(4) دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔

(5) تکلیف میں مبتلا مسلمان دِل دُکھادے تو اُسے معاف کر دیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: اللہ پاک بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرمادیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی اپناتا ہے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔

(6) کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر اُس کی مدد کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے کسی غم زدہ مؤمن کی مشکل دورکی یا کسی مظلوم کی مدد کی تواللہ پاک اس شخص کےلئے73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے۔

(7) قرض دار سے قرضہ معاف کرکے یا کم از کم اس کے ساتھ نرمی کرکے اُس کی بےچینی کم کرنے کی کوشش کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جو تنگدست کو مہلت دےيا اس کاقرض معاف کر دے اللہ پاک اُسے جہنم کی گرمی سےمحفوظ فرمائےگا۔

اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کےساتھ ہمدردی کرنےاور اُن کادکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلامی تعلیمات میں تمام مسلمان ایک ملت قوم کی طرح ہیں سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، شریعت اسلامیہ نے اخوت وھمدردی کو قائم کرنے کے لئے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق عائد کئے ہیں، جن کا ادا کرنا انتہائی ضروری ہے جن حقوق میں حقوق اللہ اور حقوق العباد ہے آج ہم جس حقوق کی بات کریں گے وہ حقوق العباد ہے ۔

مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں:

(1)جب اس سے ملو تو سلام کرو! حضرت عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں آخری نبی، رسولِ ہاشمی صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک زبان سے سب سے پہلا جو کلام سُنا وہ یہ تھا: یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اے لوگو! اَفْشُوا السَّلَامَ سلام کو عام کرو!وَ اَطْعِمُوا الطَّعَامَ کھانا کھلاؤ! وَ صَلُّوْا بِالَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ اور رات كو جس وقت لوگ سو رہے ہوں، اس وقت نماز پڑھو تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ (تم یہ تین کام کرو گے تو)سلامتی کے ساتھ جنّت میں داخِل ہو جاؤ گے۔(اِبْنِ ماجہ، کتابُ اِقَامۃِ الصلوٰۃ، جلد: 1، صفحہ: 423، حدیث: 1334)

(2)جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرو! حضرت عبدا ﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس کو دعوت دی گئی اور اس نے قبول نہ کی اس نے اﷲ و رسول کی نافرمانی کی اور جو بغیر بلائے گیا وہ چور ہوکر گُھسا اور لٹیرا بن کر نکلا۔(سنن ابی داود،باب ماجاء فی اجابۃ الدعوۃ،ج5،ص569، دارالرسالۃ العالمیہ)

میرے پیارے اسلامی بھائیو! مسلمان کا مسلمان پر جو دوسرا حقوق ہے کہ جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کریں اگر قبول نہ کریں تو اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس نے اللہ و رسول کی نافرمانی کی لہذہ ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہمیں کوئی مسلمان دعوت دے تو اسے قبول کرنی چاہیے ۔

(3) جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جانا! جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی،ج 2،ص290، حدیث: 971)

(4) جب کسی مسلمان کو نصیحت کی حاجت ہو تو اس کو اچھی نصیحت کرو۔ (اصلاح کے مدنی پھول۔ جلد نمبر 1۔صفحہ نمبر 209)

(5)مسلمان کی چھینک کا جواب دینا! حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو (الحمد للہ) کہے اور اسکا بھائی یا ساتھی (یَرْحَمُکَ اللہ)کہے،پھر جب وہ یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والا (یَھْدِیْکُمُ اللہ وَ یُصْلِحُ بَالَکُمْ)کہے۔ (صحیح بخاری/6624)

میرے پیارے اسلامی بھائیو ! یہاں پر مسلمان کی چھینک کا جواب دینے کا فرمایا گیا ہے کہ مسلمان کی چھینک کا جواب دو اور جواب دینے سے مراد یہی ہے کہ مسلمان پر رحمت کی دعا کرنا لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ مسلمان کی چھینک کا جواب دیں ۔

(6)مسلمان کے جنازے میں شرکت کرنا! حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے چلے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے اور دفن سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے گا تو وہ دو قیراط اجر لے کر لوٹے گا، ہر قیراط احد پہاڑ کی مانند ہے اور جو اس کو دفنائے جانے سے قبل صرف نماز جنازہ پڑھ کر لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط کے ساتھ واپس آئے گا۔ (صحیح بخاری/1323/1325)

میرے پیارے اسلامی بھائیو یہاں پرمسلمان کے جنازے میں جانے کا ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو اس کی جنازے میں جاؤ میرے پیارے اسلامی بھائیو مسلمان کا مسلمان پر یہ انتہائی اہم حق ہے کہ اس کے جنازے میں شرکت کرنا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے سے ہمیں مسلمان کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں چھوٹے بڑے امیر غریب مرد و عورت بچے جوان بوڑھے ہر شخص کی تفصیلی حقوق بیان کیے گئے ہیں نیز ان کے پاسداری کا بھی عظیم اور شان درس دیا گیا ہے بندوں کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اگر کوئی شخص حقوق اللہ کی ادائیگی اچھے طریقے سے نہ کر سکے مگر اس پر شرمندہ ہو ندامت اختیار کرے تو امید ہے اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے اسے کل بروز قیامت اپنے وہ حقوق معاف فرما دے لیکن حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق تلف کیے تھے تو رب تعالی بھی اس وقت تک وہ حقوق معاف نہ فرمائے گا جب تک کہ جس شخص کا حق تلف کیا وہ معاف نہ کر دے یا حق تلفی کرنے والا اسے راضی نہ کر لے اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں  کی عزت و حرمت کی ایسی پاسداری فرمائی کہ دنیا کے کسی مذہب میں اس کی حقیر سی مثال بھی نہیں ملتی۔

حضرت سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہماری مسجدوں یا بازاروں میں گزرے اور اس کے پاس تیر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اسے تھام لے یا ارشاد فرمایا اس کی نوک کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا کہ کسی مسلمان کو اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ (حوالہ ریاض الصالحین صفحہ 232 حدیث 223)

حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں کی آپس میں دوستی رحمت اور شفقت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو پورا جسم بخار اور بے خوابی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (حوالہ ریاض الصالحین صفحہ 235حدیث 224)

ایک مسلمان، بحیثیت مسلمان کے اپنے بھائی پر کچھ حقوق رکھتا ہے، جنکی ادائیگی واجب ہے، ان حقوق کی تعداد بہت زیادہ ہے، البتہ ان میں سے بعض حقوق کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں۔

(1) نصیحت و خیرخواہی: چونکہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک بھائی کا حق یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بھائی کا خیر خواہ رہے، لہذا اگر کوئی بھائی کسی سے مشورہ طلب کررہا ہے یا کسی کام سے متعلق رائے لے رہا ہے تو اسے وہی مشورہ دیا جائے جو وہ خود اپنے لئے بہتر سمجھ رہا ہو۔

(2)چھینک کا جواب: چھینک کا آنا جسمانی صحت کی دلیل اور دماغ کے فضلات کا اخراج ہے لہذا جب کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمد للہ کہنا چاہئے، جب وہ الحمدللہ کہے تو سننے والے کے اوپر واجب ہے کہ وہ یرحمک اللہ کہ کر اسے دعا دے۔

(3) مریض کی عیادت و زیارت: بیمار شخص تسلى، صبر و احتساب کی تلقین کا محتاج ہوتا ہے،، بسا اوقات وہ اپنی عیادت کیلئے کسی خدمت گار کا ضرورت مند ہوتا ہے، اسلئے ایسے وقت میں دوسرے مسلمانوں پر اسکا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسکی عیادت و زیارت کی جائے۔

(4) جنازے میں شرکت: جب انسان کی روح اسکے جسم سے جدا ہوجائے تو اسے زمین کے حوالے کردینا ہی اسکی اصل تعظیم و تکریم ہے، اس وقت وہ لاش بے جان اپنے لئے کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں ہوتی، اسلئے اسکے بھائیوں پر اسکا حق ہے کہ اسے زمین کے سپرد کر دیں، اور آگے کی منزل کی آسانی کیلئے دعا کرے ۔ اسی طرح مسلمانوں کے حقوق میں یہ چیزیں بھی داخل ہیں:

7 ۔ مظلوم کی مدد۔

8 قسم اٹھانے والے کی قسم پورا کرنا۔

9 ۔ عیوب کو چھپانا

10 قیدی کو آزاد کرانا۔ وغیرہ۔

آج دنیا میں مسلمانوں کے حقوق بڑی بے رحمی سے پامال ہو رہے ہیں ایک دوسرے کے حقوق کا بالکل خیال نہیں رکھا جا رہا ہر ایک اپنے مفاد میں لگا ہوا ہے کسی کو دوسرے کی پرواہ نہیں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک کا کڑوڑہا کڑوڑ احسان عظیم ہے کہ اللہ نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اللہ پاک کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں مسلک حق اہلسنت والجماعت پہ قائم رکھا اور ہمیں مدمذہبوں سے محفوظ رکھا لیکن یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پہ کچھ نہ کچھ حقوق رکھے ہیں مثلا ماں باپ کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق یتیموں اور محتاجوں کے حقوق قریب کے پڑوسیوں کے حقوق دور کے پڑوسیوں کے حقوق پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر کے حقوق اور غلاموں کے حقوق اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :

وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ۔وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ۔ترجمہ: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے (اچھا سلوک کرو)۔(پ 5،النسآء: 36)

مذکورہ آیت کریمہ کے اس حصے میں اللہ تبارک وتعالی نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پہ کچھ حقوق کو بیان فرمایا

(1)والدین کے ساتھ احسان کرنا: والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کا ادب و احترام کرے اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرے والدین کی خدمت کو اپنے لیے بہت بڑی سعادت سمجھے اور اس سعادت مندی پہ اللہ پاک کا شکر ادا کرے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ فرمایا:اس کی ناک خاک آلود ہو۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم ص 1060 حدیث 6510)

(2)رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا : رشتہ داروں سے حسن سلوک یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اگر کوئی رشتہ دار غریب ہوں تو ان کی مدد کرے ان سے قطع تعلقی نہ کرے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہواور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے(بخاری 10/2حدیث 2067)

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا،، رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا (مسلم1062حدیث 6520)

(3:4)یتیموں اور محتاجوں سے حسن سلوک کرنا: یتیم کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھے ان کے مال کی حفاظت کرے ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے ان کی اچھی پرورش کرے۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا ۔(بخاری 497/3حدیث 5304)

محتاج و مسکین کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی مدد کرے ان کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرے انہیں خالی ہاتھ نہ لٹائے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا بیوہ و مسکین کی خبر گیری کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (بخاری 511/3 الحدیث 5353)

(5)ہمسائیوں سے حسن سلوک کرنا : ہمسائیوں سے حسن سلوک یہ ہے کہ ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے اگر ہمسائیوں میں سے کوئی بھوکا ہوتو اسے کھانا کھلائے اگر کوئی بیمار ہوتو اس کی عیادت کرنے جائے اگر کوئی پریشان ہوتو اس کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری 104/4 الحدیث6014)

(6)پاس بیٹھنے والوں سے حسن سلوک: اس سے مراد بیوی ہے اور وہ ہیں جو اس کے پاس رہتے ہیں ماں باپ اولاد دوست احباب وغیرہ ان تمام سے حسن اخلاق سے پیش آئے ۔

(7)مسافروں کے ساتھ حسن سلوک: مسافروں کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر راستہ پوچھے تو اسے صحیح راستہ بتائے اگر کوئی مسافر پریشان ہوتو اس کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرے اگر کوئی مسافر بھوکا ہوتو اسے کھانا کھلائے۔

(8) لونڈی غلام کے ساتھ حسن سلوک : ہمارا اسلام ہمیں لونڈی غلام کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے لونڈی غلام کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے ان کے ساتھ بداخلاقی نہ کرے اور نہ ہی بدکلامی کرے ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ کروائے انہیں بقدر ضرورت کھانا کھلائے کیونکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا غلام تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے،تو جو تم کھاتے ہو انہیں بھی وہی کھلاؤ،جو لباس تم پہنتے ہو ویسا ہی انہیں پہناؤ ان کی طاقت سے زیادہ ان پہ بوجھ نہ ڈالو اگر ایسا ہوتو تم بھی ساتھ میں ان کی مدد کرو۔(مسلم ص 700 حدیث 4313)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حُقُوق العباد کا معنیٰ و مفہوم:حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔(المعجم الوسیط)

حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ان کا تعلق چونکہ بندے سے ہے اسی لئے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ پاک نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 24،ص459)

اللہ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر مسلمانوں کے حقوق بیان فرمائے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ۔وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ۔اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًاۙ(36)ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا ۔(پ5، النسآء: 36)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشتہ داروں کے حقوق کے بارے میں بیان فرمایا کہ حضرت جُبَیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، حدیث: 2556)

صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرُالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری، حدیث:2067)

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری ، حدیث:6014)

لہذا ہمیں ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں بہت تاکید فرمائی ہے۔اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبيين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اکثر مسلمانوں میں یہ خیال عام ہے کہ چند عبادات کی ادائیگی سے بخشش ہو جائے گی۔ اس لیے نماز روزے اور حج کا تو اہتمام کیا جاتا ہے لیکن زکوۃ اور دیگر مالی صدقات اور نفقات کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہوتا ہے گو یادین کے صرف ایک حصے یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی کی جاتی ہے لیکن دوسرے بڑے حصے یعنی حقوق العباد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اسلام کا تصور دین یہ ہے کہ دونوں حقوق کی ادائیگی فرض ہے۔ اولیت حق اللہ کو حاصل ہے لیکن حقوق العباد بھی فرض ہیں بلکہ تمام عبادات کا مقصد ہی حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے مسلمان کی تربیت کرتا ہے تا کہ وہ اتنا نیک بن جائے کہ برائی میں مبتلا نہ ہو اور معاملات زندگی ایمانداری سے سر انجام دیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں انسان کو اپنی ہدایات سے محروم نہیں رکھا۔ اس نے انسانوں کے درمیان حقوق کا واضع تعین کر کے ان کی ادائیگی کو اپنی خوشنودی اور ادا نہ کرنے کو اپنی نا خوشی کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔

نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے پہلے حقوق کی ادائیگی میں لوگ انتہائی غفلت کرتے تھے۔

اس سے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا دروازہ کھلتا تھا۔سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسان کے ہر رشتہ کے لحاظ سے حقوق کی حدود متعین کر دیں۔جب ہر کوئی اپنے فرائض کو شرعی قواعد کے مطابق ادا کرے گا تو پھر کسی کی حق تلفی نہ ہوگی اور نہ کسی پر ظلم ہوگا۔حقوق کی حفاظت کا اہتمام جتنا شریعتِ اسلامیہ میں کیا گیا ہے دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔

بندوں کے حقوق اچھی طرح وہ ادا کر سکے گا جسے یہ علم ہوگا کہ اللہ کے نبی نے ہر ایک کے حقوق کے بارے میں فرداً فرداً کیا فرمایا ہے۔

مسلمان ایک ملت اور قوم ہے لہٰذا اسلام نے ہر مسلمان پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ آپس میں اتفاق،سلوک اور پیار محبت سے رہیں کیونکہ اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔مسلمانوں کو ایک برادری کی حیثیت حاصل ہے۔خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں رہتے ہوں۔آپس میں مسلمانوں کا رشتہ نہایت ہی مضبوط رشتہ ہے۔اس رشتہ نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے اور ان کے درمیان آپس میں رحم،شفقت،محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کو لازم قرار دیا ہے۔جنہیں حقوق کے نام سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ان حقوق کو ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کے حقوق ادا کرتا رہے گا تو اسے بھی وہی سہولتیں میسر آ جائیں گی جو ہر مسلمان کے لیے ہیں۔

اس کے بارے میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث مبارکہ سنئے: عن أبي ه‍ريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال المؤمن مألف و لا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن الفت کرنے والا ہے اور اس میں کوئی بھلائی نہیں جو الفت نہ کرے اور اس سے الفت نہ کی جائے۔(بیہقی)

آج ہم مسلمان عام طور پر معاملات میں بے ایمانی کرتے ہیں اور صرف ساتھ اپنے دیگر فرائض اور عبادات پر قناعت کرتے ہیں۔مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ہم بڑی لا پروائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ جہاں دین پر عمل میں ذرا مادی نقصان نظر آیا وہاں دین کو چھوڑ دیا۔ جہاں تک مفادات کے ساتھ دین چلتا ہے اختیار کیا لیکن جہاں دین اور مفاد ٹکرائیں احترام دین کو چھوڑ دیا اس وجہ سے آج ہم زوال کا شکار ہیں۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال پر محفوظ رہیں۔(جامع ترمذی۔2627)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:(1) سلام کا جواب دینا (2) بیمار کی عیادت کرنا (3)اس کے جنازے کے ساتھ جانا (4)اس کی دعوت کو قبول کرنا (5)چھینک کا جواب دینا۔( صحیح مسلم۔2161)

مسلمان کے لئے افضلیت یہ ہے کہ اس کی زبان سے بطور طعنہ،گالی گلوچ،بدتمیزی،غیبت،چغلی وغیرہ کی صورت میں اور اس کے ہاتھ سے ناجائز و ناحق قتل کرنا، آپس میں ایذاء پہنچانا اور کوئی ایسا فعل کرنا جس سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے یہ صحیح نہیں ہے اس سے بچنا افضل ہے۔

اصلاً مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھوں سے کسی بھی اپنے مسلمان بھائی خواہ وہ حقیقی بھائی ہو یا اسلامی بھائی ہو اسے تکلیف مت دی جائے اور اسی طرح ایک اعلیٰ معاشرے کی بنیاد فقط سکون نہیں بلکہ اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دینا اعلیٰ معاشرتی حق ہے حتیٰ کہ غیر مسلموں کے تحفظ کا بھی دینِ اسلام نے حق دیا ہے نہ تو انکے عبادت خانے تباہ کیے جائیں اور نہ انکے مذہب کے رہنما قتل کیۓ جائیں اور نہ بچے عورتیں بزرگ وغیرہ اور جو یہ کام کرتے ہیں انکا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں بلکہ وہ ملک و ملت کے دشمن ہیں۔

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دھوکا مت دے، فراڈ مت کرے، اسے چونا نہ لگائے ۔نہ خود کسی پر ظلم کرو نہ ظالم کے حوالے کرو بلکہ وہ ضرورت مند و لاچار ہو تو اس کی مدد بغیر کسی لالچ، حرص و حوس کے کرو ہمارے پیشِ نظر فقط یہ بات ہو کہ یہ ہمارے دین اور مذہبِ اسلام کی تعلیمات ہیں۔

میری آپ تمام سے گزارش ہے کہ بغیر کسی لالچ و حوس کے ہر ایک کے جائز کام میں اسکی مدد کرو اس کی ضرورت پوری کرو بیشک میرے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خالص امتی یہی ہے۔کیونکہ حدیث شریف میں ہے جو کسی کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ پاک اس کی اخروی مشکل حل کرتا ہے۔ سو ایک دوسرے کے کام آنا اور وہ کام بھی جائز ہو شریعت کے خلاف نہ ہو بیشک صدقہ ہے۔

مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ نہ وہ ناحق قتل و خون کے بازار گرم کرے اور نہ کسی کی عزت و احترام میں کمی لائے اور نہ ہی کسی کا ناحق و ناجائز مال ہضم کرے۔

ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی فوت ہو جائے خواہ رشتےداروں میں سے ہو یا غیروں میں سے محلے سے ہو یا غیرِ محلے سے اگر رسائی ممکن ہو تو ضرور اس کے جنازے میں شرکت کرے اگر بیمار ہو تو اسکی تیمارداری کرے اور اگر اس کو حق و سچ و جائز دعوت ملے تو وہ اس میں شریک ہو بغیر اجازت جانا جائزنہیں نہ شرعاً اور نہ ہی معاشرتی طور پر۔

اگر کوئی ہم سے مشورہ مانگے تو ہمیں اسے صحیح اور اپنی معلومات کے مطابق مشورہ دینا چاہیئے اور اس سے غلط بیانی نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ مشورہ ایک امانت ہے۔

بعض لوگ دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہیں جسے ہمارے ہاں دو منہ والا کہتے ہیں سو یہ دھوکا اور فراڈ ہے اِس سے بچنا ضروری ہے کیونکہ دو منہ والے یعنی دوغلے آدمی خواہ وہ مرد ہو یا عورت حدیث شریف میں ہے کہ اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔

اے میرے پیارے اللہ پاک ہمیں ایسی بلاؤں،وباؤں سے محفوظ فرما آمین یا رب العالمین۔ اے اللہ پاک ہمیں صحیح اور درست حق سمجھ کر پہچان کر اس کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرما آمین بجاہ خاتم النبیین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا:کامل موٴمن وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ مامون و محفوظ ہوں۔ نیز یہ بھی فرمایا:بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے۔(کنز العمال)۔

مسلمان کا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: (1) ملاقات ہونے پر سلام کرنا (2)چھینک آنے پر رحمت کی دعا دینا(3) بیماری میں عیادت کرنا(4)مرنے پر جنازے میں شرکت کرنا(5) جو اپنے کوپسند ہو، وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا۔ (ترمذی)۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ہمیں چاہیے کہ حقوق العباد سے متعلق اسلام کی عطا کردہ روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور حق تلفی کی اس دیمک کا خاتمہ کریں جو ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو بوسیدہ کر رہی ہیں مزید فرمایا کسی کی بیمار ی کا معلوم ہو تو حسبِ حال خیر خواہی کیجئے اور عیادت کرنے کی عادت بنائیے، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے مریض کی عیادت کی، وہ واپسی تک دریائے رحمت میں غو طے لگاتا رہتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈوب جاتا ہے ہم ہرایک کی مدد نہیں کرسکتے مگر کسی ایک کی مدد تو کرسکتے ہیں، ایک شخص کی مدد کرکےہم پوری دنیا نہیں بدل سکتے مگرایک شخص کی دنیا تو بدل سکتے ہیں۔ لہٰذا تکلیف زدہ مسلمان کادُکھ دور کرنے کی کوشش کیجئے۔

حدیثِ پاک میں ہے: جوکسی مسلمان کی تکلیف دور کرے اللہ پاک قِیامت کی تکلیفوں میں سے اُس کی تکلیف دُور فرمائے گا۔ مسلمان کی عزت کے محافظ بن جائیے، حدیث پاک میں ہے: جو مسلمان اپنے بھائی کی عزت کا بچاؤ کرے (یعنی کسی مسلم کی آبرو ریزی ہوتی تھی اس نےمنع کیا) تو اللہ پاک پر حق ہے کہ قیامت کےدن اس کو جہنّم کی آگ سے بچائے دکھی مسلمانوں کو خوش رکھنے کا اہتمام کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: فرائض کے بعد سب اعمال میں الله پاک کو زیادہ پیارا مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔

تکلیف میں مبتلا مسلمان دِل دُکھادے تو اُسے معاف کر دیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: اللہ پاک بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرمادیتا ہے اور جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی اپناتا ہے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔

کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر اُس کی مدد کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جس نے کسی غم زدہ مؤمن کی مشکل دورکی یا کسی مظلوم کی مدد کی تواللہ پاک اس شخص کےلئے73 مغفرتیں لکھ دیتا ہے۔

قرض دار سے قرضہ معاف کرکے یا کم از کم اس کے ساتھ نرمی کرکے اُس کی بےچینی کم کرنے کی کوشش کیجئے، حدیثِ پاک میں ہے: جو تنگدست کو مہلت دےيا اس کاقرض معاف کر دے اللہ پاک اُسے جہنم کی گرمی سےمحفوظ فرمائےگا۔

اللہ کریم ہمیں مسلمانوں کےساتھ ہمدردی کرنےاور اُن کادکھ درد دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الله پاک نے ہم پر بہت سے احسانات فرمائے ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں مسلمان بنایا۔ احسان علی الاحسان اپنے محبوب آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا امتی بنایا اور اپنی مقدس کتاب قرآنِ مجید میں بھی مسلمانوں کا تذکرہ خیر جگہ بہ جگہ فرمایا۔

کامل مسلمان کون؟ ایک مرتبہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: ’’جانتے ہو مسلمان کون ہے؟‘‘ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ’’الله اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہتر جانتے ہیں۔‘‘ تو ارشاد فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ293)

مسلمانوں کے چند حقوق: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بھی مختلف حقوق ہیں جن کو ادا کرکے معاشرا امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ چند حقوق ملاحظہ ہوں:

1: سلام کا جواب دے۔ (یاد رکھیے کہ سلام کرنا سنت اور سلام کا جواب دینا واجب ہے)

2: بیمار کی تیمارداری کرے۔

3: (اگر وہ فوت ہو جائے تو اُس کے) جنازے کے ساتھ جائے۔

4: کوئی مسلمان دعوت دے (اور کوئی وجہ نہ ہو تو) اسکی دعوت کو قبول کرے۔

5: چھینک کا جواب دے۔ (ایک مسلمان چھینک کر الحمدالله کہے تو دوسرا یرحمک الله کہہ کر اس کا جواب دے)

6: مسلمانوں کو امر بالمعروف (یعنی نیکی کا حکم) اور نھی عن المنکر (یعنی برائی سے منع) کرے۔

7: جو بات اپنے لیے پسند کرے وہی دوسرے مسلمانوں کیلئے بھی پسند کرے۔

8: دوسرے مسلمان بھائی کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے۔

9: کسی دوسرے مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرے۔

10: جب وہ آپ سے مشورہ مانگے تو آپ اسے اچھا مشورہ دیں۔

11: ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں۔

12: کسی مسلمان کو لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرے۔

ان تمام تر کو اگر ملحوظ خاطر رکھا جائے تو بے شمار فائدے حاصل ہوں گئے ۔ حقوق سے ناواقفیت کا ایک بڑا نقصان بد امنی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کا ایک سبب ایک دوسرے سے کینہ، حسد اور بغض وغیرہ کا ہونا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ علمِ دین سے دوری ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق سے بھی ناواقفیت ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق بجا لانے سے معاشرے کا بگاڑ ختم ہو جائے گا اور معاشرا خوشحال ہو جائے گا۔ دعا ہے الله عزوجل ہمیں ایک دوسرے کے حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


دنیا میں کئی مذاہب اور ان کے زیر اثر کئی قومیں آباد ہیں ہر ایک کا رہن سہن تہذیب و تمدن الگ ہے مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق(Rights Human)کی حفاظت کے لئے مختلف قوانین رائج ہیں مگر دینِ اسلام کو اِنسانی حقوق کے تحفظ میں سب پر برتری حاصل ہے۔ دین اسلام نے جس طرح ماں باپ بہن بھائی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کی تلقین کی ہے ایسے ہی دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کے آپس میں حقوق مقرر فرمائے ہیں۔

رحمۃ اللعالمین خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا٬ بیمار کی عیادت کرنا، اس کے جنازے کے ساتھ جانا، اس کی دعوت قبول کرنا۔ اور چھینک کا جواب دینا۔(بخاری، کتاب:الجنائز' باب: الأمر باتباع الجنائز، ج 1، ص418، حدیث:1183)

سلام کا جواب دینا: مسلمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ سلام کرے تو اسے جواب دیا جائے۔ آج کل ہماری اکثریت سلام کرنے کے طریقے اور الفاظ سے ناواقف نظر آتی ہے، اسی طرح سلام کا جواب دینے کا بھی علم نہیں ہوتا۔ سلام اور جوابِ سلام کا دُرُست تلفُّظ یاد فرما لیجئے۔ سلام کا درست تلفظ یہ ہے: اَلسَّلامُ عَلَیکُمْ(اَسْ۔ سَلا۔ مُ۔ عَلَے۔ کُمْ) جواب کا درست تلفظ یہ ہے: وَعَلَیْکُمُ السَّلَام (وَ۔ عَ۔ لَیکُ۔ مُسْ۔ سَلام)۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں۔ ساتھ میں وَ رَحمَۃُ اللہ بھی کہیں گے تو 20 نیکیاں ہو جائیں گی اور وَبَرَکاتُہ شامل کریں گے تو 30 نیکیاں ہو جائیں گی۔ بعض لوگ سلام کے ساتھ جنَّتُ المقام اور دوزخُ الحرام کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے۔ بلکہ مَن چلے تومعاذاللہ یہاں تک بَک جاتے ہیں: ’’آپ کے بچّے ہمارے غلام۔ ‘‘(فیضانِ ریاض الصالحین ج:3،ص:296)

بہارِ شریعت حصہ 16صفحہ 102 پر لکھے ہوئے جُزیئے کا خلاصہ ہے: ’’ سلام کرتے وَقت دل میں یہ نیّت ہو کہ جس کو سلام کرنے لگا ہوں اِس کامال اور عزّت و آبرو سب کچھ میری حفاظت میں ہے اور میں اُن میں سے کسی چیز میں دَخل اندازی کرنا حرام جانتا ہوں۔ ‘‘

بیمار کی عیادت کرنا: حدیث پاک میں مؤمنین کو ایک جسم کی طرح قرار دیا ہے کہ جب جسم کے کسی حصّہ کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس درد میں شریک ہوتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، ج1/ص 176، حدیث: 67)

اس احساس اور دینی جذبے کے پیش نظر جب بھی ہمارا کوئی مسلمان بھائی بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔ فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی،ج 2،ص290، حدیث: 971)

جنازے کے ساتھ جانا: جس طرح دنیاوی معاملات میں بحیثیت مسلمان ہم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اسی طرح فوت شدہ مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا اور اس کے جنازے کے ساتھ چلنا مسلمان کا حق ہے۔فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان سے بہ نیت ثواب جائے اور اس کے ساتھ ہی رہے حتی کہ اس پرنماز پڑھ لے اور اس کے دفن سے فارغ ہوجائے تو وہ ثواب کے دو قیراط(حصے)لےکر لوٹے گا ہرحصہ احد کے برابر اور جو اس پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے وہ ایک حصہ لے کر لوٹے گا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج:2 ، ص:483 حدیث:1651)

دعوت قبول کرنا: مسلمان پر اپنے مسلمان بھائی کا یہ بھی حق ہے کہ ’’اُس کی دعوت کو قبول کیا جائے‘‘ چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرتے ہوئے اُس میں شرکت کرنا یہ اُس وقت سُنّتِ مبارکہ ہے جبکہ وہاں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو اور اگر خلاف شرع کام ہورہے ہوں تو دعوت قبول نہ کرنا لازم ہے۔ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے تو یہاں تک فرمایا کہ جو دعوت اپنے آپ کو اونچا دکھانے، فخر اور واہ واہ کے لئے ہو اس دعوت کو قبول کرنا منع ہے۔ سلف صالحین اس طرح کی دعوتوں میں شرکت کرنے کو مکروہ فرماتے ہیں۔ ‘‘ (فیضانِ ریاض الصالحین، ج:3 ص:297،)

چھینک کا جواب دینا: مسلمان پر مسلمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اُس کی چھینک کا جواب دے۔ جب کسی کو چھینک آئے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے اور اس کا بھائی یا ساتھ والا یَرْحَمُکَ اللہُ کہے جب یَرْحَمُکَ اللہُ کہہ لے تو چھینکنے والا جواب میں یہ کہے یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔ (بخاری،کتاب الادب، ج:4، ص:163، حدیث:6224)

چھینک آنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنا سنت ہے بہتر یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے۔ سننے والے پر واجب ہے کہ فوراً یَرْحَمُکَ اللہ(یعنی اللہ پاک تجھ پر رحم کرے)کہے اور اتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والا خود سن لے۔ اگر جواب میں تا خیر کردی تو گنہگار ہوگا۔ صرف جواب دینے سے گناہ معا ف نہیں ہوگا توبہ بھی کرنا ہوگی۔ ‘‘(فیضانِ ریاض الصالحین ج:3، ص298)

بعض احادیث میں مسلمانوں کے چھ حقوق بھی بیان ہوئے جن میں ایک یہ حق بھی ہے کہ جب وہ تم سے کوئی نصیحت طلب کرے تو تم اس کو نصیحت کرو۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔‘‘(اشعۃ اللمعات، کتاب الصلاۃ، باب:عیادۃ المریض وثواب المرض، ج:1، ص:674)

مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ ‘‘(مرقاۃالمفاتیح، کتاب الجنائز، ج:4، ص:6،تحت الحدیث:1525)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان سے اس لیے پیدا کیا کہ اس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کا احساس ہو۔دکھ درد میں دوسروں کے کام آئیں۔اس بات کو مسلمانوں کے حقوق کا نام دیا گیا ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر وسیع اختیارات دیئے ہیں۔زمین و آسمان کی ہر چیز کو انسان کی نفع رسانی کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے ہر انسان کے ذمے یہ فریضہ عائد کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ہر چیز اور مخلوقات کے لیے ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے کسی کا حق تلف نہ ہو۔حقوق العباد در حقیقت بندوں کے آپس میں وہ حقوق ہیں کہ ہر کوئی اپنے حق کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارے جس سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے حقوق کی ادائیگی میں لوگ انتہائی غفلت کرتے تھے۔

لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا دروازہ کھلتا تھا۔سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسان کے ہر رشتہ کے لحاظ سے حقوق کی حدود متعین کر دیں۔جب ہر کوئی اپنے فرائض کو شرعی قواعد کے مطابق ادا کرے گا تو پھر کسی کی حق تلفی نہ ہوگی اور نہ کسی پر ظلم ہوگا۔حقوق کی حفاظت کا اہتمام جتنا شریعتِ اسلامیہ میں کیا گیا ہے دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔بندوں کے حقوق اچھی طرح وہ ادا کر سکے گا جسے یہ علم ہوگا کہ اللہ کے نبی نے ہر ایک کے حقوق کے بارے میں فرداً فرداً کیا فرمایا ہے۔

مسلمان ایک ملت اور قوم ہے لہٰذا اسلام نے ہر مسلمان پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ آپس میں اتفاق،سلوک اور پیار محبت سے رہیں کیونکہ اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔مسلمانوں کو ایک برادری کی حیثیت حاصل ہے۔خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں رہتے ہوں۔آپس میں مسلمانوں کا رشتہ نہایت ہی مضبوط رشتہ ہے۔اس رشتہ نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے اور ان کے درمیان آپس میں رحم،شفقت،محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کو لازم قرار دیا ہے۔جنہیں حقوق کے نام سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔

ان حقوق کو ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کے حقوق ادا کرتا رہے گا تو اسے بھی وہی سہولتیں میسر آ جائیں گی جو ہر مسلمان کے لیے ہیں۔اس کے بارے میں حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی حدیث مبارکہ سنئے: عن أبي ه‍ريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال المؤمن مألف و لا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: مومن الفت کرنے والا ہے اور اس میں کوئی بھلائی نہیں جو الفت نہ کرے اور اس سے الفت نہ کی جائے۔(بیہقی)

عن النعمان بن يسير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المؤمن كرجل واحد انشتكي عينه الشتكي كله وان الشتكي رأسه شتكي كله ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: ایمان والے ایک جسم کی طرح ہیں۔اگر آنکھ کو تکلیف ہو جائے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر کو تکلیف ہو جائے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔(مسلم)

نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا ہے کہ اگر آنکھ کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔

اخلاقی طور پر ایک مسلمان اگر اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی میں کوئی برائی یا خرابی دیکھے تو اسے بڑی حکمت سے دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ برائی کر رہا ہے کیونکہ اس میں احساس برائی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔اس لیے کسی مسلمان میں برائی ہو تو اس میں احساس پیدا کریں کہ تمہارا فلاں عمل برا ہے اس کی اصلاح کر لو۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام دینِ محبت ہے اور اس کا ہر فرد باہمی اخوت و بھائی چارے کے بندھن میں بندھا ہوا ہے یوں اسلامی معاشرہ ایک خاندان کی مانند ہے اور ہر مسلمان اس معاشرے کا فرد ہے جس طرح ایک خاندان والوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کے بھی اپنے مسلمان بھائی پر کچھ حقوق ہیں ان حقوق کی تعداد بہت زیادہ ہےالبتہ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کر، جب وہ تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر، جب وہ تجھ سے نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کر، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے جواب دے، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کر اور جب وہ مرجائے تو اسکے جنازے میں شریک ہو ۔(صحيح مسلم: 2162) حدیث مبارکہ میں مسلمان کے چھ بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے

سلام کرنا: سلام کرنا ایک مسلمان کے بنیادی حقوق میں سے ہے یہ آپس میں محبت بڑھانے کا ایک بہترین زریعہ ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو، آپس میں سلام عام کرو۔ (صحيح مسلم،حديث 194)

سلام ایک دعا ہے جب بندہ اپنے بھائی کو السلام علیکم کہہ کر سلامتی دعا دیتا ہےتو گویا اس سے یہ عہد کرتا ہے کہ آپ کی جان و مال اور عزت و آبرو مجھ سے سلامت ہے لہذا جب بھی دو مسلمان آپس میں ملیں تو ہیلو ہائے اور گڈ مارننگ گڈ ایوننگ وغیرہ کی بجائے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سے گفتگو کا آغاز کریں ۔

دعوت قبول کرنا: جب ایک مسلمان اپنے بھائی کو دعوت دیتا ہے تو اس کا حق ہے کہ اس دعوت کو قبول کیا جائے اور اگریہ دعوت ولیمہ کی ہو تو اسے قبول کرنا تو سنت موکدہ ہے دعوت کو قبول کرنے کی تاکید اس قدر ہے کہ اگر بندہ روزہ دار ہو پھر بھی دعوت کو قبول کرنے کا حکم ہےچنانچہ ارشاد نبوی ہے جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنی چاہیے، اگر وہ روزہ سے ہو تو اس (دعوت دینے والے) کے حق میں دعا کرے اور اگر روزہ سےنہ ہو تو کھا لے۔ (السنن الكبرى، حدیث0132)

اچھی نصیحت کرنا : اپنے مسلمان بھائی کو نصیحت کرنا اور اچھا مشورہ دینا بالخصوص اس وقت کہ جب وہ آپ سے نصیحت طلب کرے یہ بھی مسلمان کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(55)ترجمہ کنز الا یمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے ۔(پ27، الذّٰریٰت: 55)

سمجھانے اور نصیحت کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس کو سمجھایا جا رہا ہے اس کے عمل کرنے کی صورت میں انسان اجر عظیم کا حقدار ہوتا ہے اور اگر عمل نہ بھی کرے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ثواب کھرا ہو جاتا ہے

چھینک کا جواب دینا :جب چھینک آتی ہے تو ناک کے اندر موجود بیکٹیریا اور وائرس کا اخراج ہوتا ہے اور جسم جراثیموں سے پاک ہوتا ہے لہذا چھینک آنے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمد للہ کہا جاتا ہے تو جب مسلمان چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو سننے والے پر لازم ہے کہ اس کے لیے رحم کی دعا کرتے ہوئے یرحمک اللہ کہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو سننے والے مسلمان پر حق ہے کہ یرحمک اللہ کہے ۔(صحيح البخاري کتاب الادب حدیث:6223)

مریض کی عیادت : جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اسے کسی ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو اس کا سہارا بنے اور اس کی ضروریات کو پورا کرے لہذا اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تلقین کی ہے کہ وہ مریض کی تیمارداری کریں اور اس کی ضروریات کو حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کریں حدیث مبارکہ میں ہے کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو گیا تو واپس ہونے تک جنت کے پھل چننے میں رہا۔ (مسلم، ص1065، حدیث:6551)

تجہیز و تکفین :جب ایک شخص اس دار فنا سے دار بقا کی طرف چلا جاتا ہے تو وہ اپنے لیے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں رہتا اب اس کو سپرد خاک کرنا ہی اس کی سب سے بڑی تعظیم و توقیر ہے اس کے قرب و جوار میں بسنے والوں پر لازم ہے کہ اس کے غسل و کفن اور جنازے میں شرکت کریں اس کے لیے دعائے مغفرت کریں اور اہل خانہ سے تعزیت کریں تجہیز و تکفین میں شرکت کی ترغیب پر متعدد احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ ہےابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے نماز جنازہ پڑھی، اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو دفن سے فراغت تک انتظار کرتا رہا، اسے دو قیراط ثواب ہے لوگوں نے عرض کیا: دو قیراط کیا ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو پہاڑ کے برابر۔(سنن ابن ماجہ، كتاب الجنائز،حدیث: 1539)

ان کے علاوہ بھی دیگر کئی حقوق ہیں جیسے مظلوم کی مدد، یتیم اور بے سہارا لوگوں کی معاونت مسلمان کے حق میں سچی گوہی دینا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حتی الامکان ان حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھیں اور جس قدر ممکن ہو دوسروں سے بھلائی کرتے رہیں

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔