حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و مال پر محفوظ رہیں۔(جامع ترمذی۔2627)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں:(1) سلام کا جواب دینا (2) بیمار کی عیادت کرنا (3)اس کے جنازے کے ساتھ جانا (4)اس کی دعوت کو قبول کرنا (5)چھینک کا جواب دینا۔( صحیح مسلم۔2161)

مسلمان کے لئے افضلیت یہ ہے کہ اس کی زبان سے بطور طعنہ،گالی گلوچ،بدتمیزی،غیبت،چغلی وغیرہ کی صورت میں اور اس کے ہاتھ سے ناجائز و ناحق قتل کرنا، آپس میں ایذاء پہنچانا اور کوئی ایسا فعل کرنا جس سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے یہ صحیح نہیں ہے اس سے بچنا افضل ہے۔

اصلاً مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اس کی زبان اور ہاتھوں سے کسی بھی اپنے مسلمان بھائی خواہ وہ حقیقی بھائی ہو یا اسلامی بھائی ہو اسے تکلیف مت دی جائے اور اسی طرح ایک اعلیٰ معاشرے کی بنیاد فقط سکون نہیں بلکہ اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دینا اعلیٰ معاشرتی حق ہے حتیٰ کہ غیر مسلموں کے تحفظ کا بھی دینِ اسلام نے حق دیا ہے نہ تو انکے عبادت خانے تباہ کیے جائیں اور نہ انکے مذہب کے رہنما قتل کیۓ جائیں اور نہ بچے عورتیں بزرگ وغیرہ اور جو یہ کام کرتے ہیں انکا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں بلکہ وہ ملک و ملت کے دشمن ہیں۔

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دھوکا مت دے، فراڈ مت کرے، اسے چونا نہ لگائے ۔نہ خود کسی پر ظلم کرو نہ ظالم کے حوالے کرو بلکہ وہ ضرورت مند و لاچار ہو تو اس کی مدد بغیر کسی لالچ، حرص و حوس کے کرو ہمارے پیشِ نظر فقط یہ بات ہو کہ یہ ہمارے دین اور مذہبِ اسلام کی تعلیمات ہیں۔

میری آپ تمام سے گزارش ہے کہ بغیر کسی لالچ و حوس کے ہر ایک کے جائز کام میں اسکی مدد کرو اس کی ضرورت پوری کرو بیشک میرے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خالص امتی یہی ہے۔کیونکہ حدیث شریف میں ہے جو کسی کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ پاک اس کی اخروی مشکل حل کرتا ہے۔ سو ایک دوسرے کے کام آنا اور وہ کام بھی جائز ہو شریعت کے خلاف نہ ہو بیشک صدقہ ہے۔

مسلمان کا مسلمان پر یہ بھی حق ہے کہ نہ وہ ناحق قتل و خون کے بازار گرم کرے اور نہ کسی کی عزت و احترام میں کمی لائے اور نہ ہی کسی کا ناحق و ناجائز مال ہضم کرے۔

ایک حق یہ بھی ہے کہ جب کوئی فوت ہو جائے خواہ رشتےداروں میں سے ہو یا غیروں میں سے محلے سے ہو یا غیرِ محلے سے اگر رسائی ممکن ہو تو ضرور اس کے جنازے میں شرکت کرے اگر بیمار ہو تو اسکی تیمارداری کرے اور اگر اس کو حق و سچ و جائز دعوت ملے تو وہ اس میں شریک ہو بغیر اجازت جانا جائزنہیں نہ شرعاً اور نہ ہی معاشرتی طور پر۔

اگر کوئی ہم سے مشورہ مانگے تو ہمیں اسے صحیح اور اپنی معلومات کے مطابق مشورہ دینا چاہیئے اور اس سے غلط بیانی نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ مشورہ ایک امانت ہے۔

بعض لوگ دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہیں جسے ہمارے ہاں دو منہ والا کہتے ہیں سو یہ دھوکا اور فراڈ ہے اِس سے بچنا ضروری ہے کیونکہ دو منہ والے یعنی دوغلے آدمی خواہ وہ مرد ہو یا عورت حدیث شریف میں ہے کہ اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔

اے میرے پیارے اللہ پاک ہمیں ایسی بلاؤں،وباؤں سے محفوظ فرما آمین یا رب العالمین۔ اے اللہ پاک ہمیں صحیح اور درست حق سمجھ کر پہچان کر اس کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرما آمین بجاہ خاتم النبیین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔