محمد سرور خان قادری (درجۂ
سادسہ جامعۃُ المدینہ شیرانوالہ گیٹ لاہور، پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے انسان کو انسان سے اس لیے پیدا کیا کہ اس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کا احساس
ہو۔دکھ درد میں دوسروں کے کام آئیں۔اس بات کو مسلمانوں کے حقوق کا نام دیا گیا
ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر وسیع اختیارات دیئے ہیں۔زمین و آسمان کی
ہر چیز کو انسان کی نفع رسانی کے لیے بنایا گیا ہے۔اس لیے ہر انسان کے ذمے یہ
فریضہ عائد کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ہر چیز اور مخلوقات کے لیے ایسا طرزِ
عمل اختیار کرے جس سے کسی کا حق تلف نہ ہو۔حقوق العباد در حقیقت بندوں کے آپس میں
وہ حقوق ہیں کہ ہر کوئی اپنے حق کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارے جس سے کسی کو
کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے حقوق کی
ادائیگی میں لوگ انتہائی غفلت کرتے تھے۔
لوگوں کے ساتھ
زیادتی اور ظلم کا دروازہ کھلتا تھا۔سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسان
کے ہر رشتہ کے لحاظ سے حقوق کی حدود متعین کر دیں۔جب ہر کوئی اپنے فرائض کو شرعی
قواعد کے مطابق ادا کرے گا تو پھر کسی کی حق تلفی نہ ہوگی اور نہ کسی پر ظلم
ہوگا۔حقوق کی حفاظت کا اہتمام جتنا شریعتِ اسلامیہ میں کیا گیا ہے دنیا کے کسی اور
مذہب میں نہیں ہے۔بندوں کے حقوق اچھی طرح وہ ادا کر سکے گا جسے یہ علم ہوگا کہ
اللہ کے نبی نے ہر ایک کے حقوق کے بارے میں فرداً فرداً کیا فرمایا ہے۔
مسلمان ایک
ملت اور قوم ہے لہٰذا اسلام نے ہر مسلمان پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ آپس میں
اتفاق،سلوک اور پیار محبت سے رہیں کیونکہ اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا
بھائی قرار دیا ہے۔مسلمانوں کو ایک برادری کی حیثیت حاصل ہے۔خواہ وہ دنیا کے کسی
حصے میں رہتے ہوں۔آپس میں مسلمانوں کا رشتہ نہایت ہی مضبوط رشتہ ہے۔اس رشتہ نے
مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے اور ان کے درمیان آپس میں رحم،شفقت،محبت
اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کو لازم قرار دیا ہے۔جنہیں حقوق کے نام سے تعبیر کر
دیا گیا ہے۔
ان حقوق کو
ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کے حقوق ادا
کرتا رہے گا تو اسے بھی وہی سہولتیں میسر آ جائیں گی جو ہر مسلمان کے لیے ہیں۔اس
کے بارے میں حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی حدیث مبارکہ سنئے: عن أبي هريرة أن النبي
صلى الله عليه وسلم قال المؤمن مألف و لا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: مومن الفت کرنے والا ہے اور اس میں کوئی بھلائی نہیں جو
الفت نہ کرے اور اس سے الفت نہ کی جائے۔(بیہقی)
عن النعمان بن يسير قال قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم المؤمن كرجل واحد انشتكي عينه الشتكي كله وان الشتكي رأسه
شتكي كله ترجمہ:
حضرت نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: ایمان والے ایک جسم کی طرح ہیں۔اگر آنکھ کو تکلیف ہو
جائے تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر کو تکلیف ہو جائے تو سارے جسم کو
تکلیف ہوتی ہے۔(مسلم)
نبی کریم
(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند فرمایا ہے کہ
اگر آنکھ کو تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔
اخلاقی طور پر
ایک مسلمان اگر اپنے کسی دوسرے مسلمان بھائی میں کوئی برائی یا خرابی دیکھے تو اسے
بڑی حکمت سے دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی کو یہ
احساس نہیں ہوتا کہ وہ برائی کر رہا ہے کیونکہ اس میں احساس برائی ختم ہو چکا ہوتا
ہے۔اس لیے کسی مسلمان میں برائی ہو تو اس میں احساس پیدا کریں کہ تمہارا فلاں عمل
برا ہے اس کی اصلاح کر لو۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔