دنیا میں کئی مذاہب اور ان کے زیر اثر کئی قومیں آباد ہیں ہر ایک کا رہن سہن تہذیب و تمدن الگ ہے مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق(Rights Human)کی حفاظت کے لئے مختلف قوانین رائج ہیں مگر دینِ اسلام کو اِنسانی حقوق کے تحفظ میں سب پر برتری حاصل ہے۔ دین اسلام نے جس طرح ماں باپ بہن بھائی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کی تلقین کی ہے ایسے ہی دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کے آپس میں حقوق مقرر فرمائے ہیں۔

رحمۃ اللعالمین خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا٬ بیمار کی عیادت کرنا، اس کے جنازے کے ساتھ جانا، اس کی دعوت قبول کرنا۔ اور چھینک کا جواب دینا۔(بخاری، کتاب:الجنائز' باب: الأمر باتباع الجنائز، ج 1، ص418، حدیث:1183)

سلام کا جواب دینا: مسلمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ سلام کرے تو اسے جواب دیا جائے۔ آج کل ہماری اکثریت سلام کرنے کے طریقے اور الفاظ سے ناواقف نظر آتی ہے، اسی طرح سلام کا جواب دینے کا بھی علم نہیں ہوتا۔ سلام اور جوابِ سلام کا دُرُست تلفُّظ یاد فرما لیجئے۔ سلام کا درست تلفظ یہ ہے: اَلسَّلامُ عَلَیکُمْ(اَسْ۔ سَلا۔ مُ۔ عَلَے۔ کُمْ) جواب کا درست تلفظ یہ ہے: وَعَلَیْکُمُ السَّلَام (وَ۔ عَ۔ لَیکُ۔ مُسْ۔ سَلام)۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں۔ ساتھ میں وَ رَحمَۃُ اللہ بھی کہیں گے تو 20 نیکیاں ہو جائیں گی اور وَبَرَکاتُہ شامل کریں گے تو 30 نیکیاں ہو جائیں گی۔ بعض لوگ سلام کے ساتھ جنَّتُ المقام اور دوزخُ الحرام کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے۔ بلکہ مَن چلے تومعاذاللہ یہاں تک بَک جاتے ہیں: ’’آپ کے بچّے ہمارے غلام۔ ‘‘(فیضانِ ریاض الصالحین ج:3،ص:296)

بہارِ شریعت حصہ 16صفحہ 102 پر لکھے ہوئے جُزیئے کا خلاصہ ہے: ’’ سلام کرتے وَقت دل میں یہ نیّت ہو کہ جس کو سلام کرنے لگا ہوں اِس کامال اور عزّت و آبرو سب کچھ میری حفاظت میں ہے اور میں اُن میں سے کسی چیز میں دَخل اندازی کرنا حرام جانتا ہوں۔ ‘‘

بیمار کی عیادت کرنا: حدیث پاک میں مؤمنین کو ایک جسم کی طرح قرار دیا ہے کہ جب جسم کے کسی حصّہ کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس درد میں شریک ہوتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، ج1/ص 176، حدیث: 67)

اس احساس اور دینی جذبے کے پیش نظر جب بھی ہمارا کوئی مسلمان بھائی بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔ فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی،ج 2،ص290، حدیث: 971)

جنازے کے ساتھ جانا: جس طرح دنیاوی معاملات میں بحیثیت مسلمان ہم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اسی طرح فوت شدہ مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا اور اس کے جنازے کے ساتھ چلنا مسلمان کا حق ہے۔فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایمان سے بہ نیت ثواب جائے اور اس کے ساتھ ہی رہے حتی کہ اس پرنماز پڑھ لے اور اس کے دفن سے فارغ ہوجائے تو وہ ثواب کے دو قیراط(حصے)لےکر لوٹے گا ہرحصہ احد کے برابر اور جو اس پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے وہ ایک حصہ لے کر لوٹے گا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ج:2 ، ص:483 حدیث:1651)

دعوت قبول کرنا: مسلمان پر اپنے مسلمان بھائی کا یہ بھی حق ہے کہ ’’اُس کی دعوت کو قبول کیا جائے‘‘ چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرتے ہوئے اُس میں شرکت کرنا یہ اُس وقت سُنّتِ مبارکہ ہے جبکہ وہاں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو اور اگر خلاف شرع کام ہورہے ہوں تو دعوت قبول نہ کرنا لازم ہے۔ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے تو یہاں تک فرمایا کہ جو دعوت اپنے آپ کو اونچا دکھانے، فخر اور واہ واہ کے لئے ہو اس دعوت کو قبول کرنا منع ہے۔ سلف صالحین اس طرح کی دعوتوں میں شرکت کرنے کو مکروہ فرماتے ہیں۔ ‘‘ (فیضانِ ریاض الصالحین، ج:3 ص:297،)

چھینک کا جواب دینا: مسلمان پر مسلمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اُس کی چھینک کا جواب دے۔ جب کسی کو چھینک آئے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے اور اس کا بھائی یا ساتھ والا یَرْحَمُکَ اللہُ کہے جب یَرْحَمُکَ اللہُ کہہ لے تو چھینکنے والا جواب میں یہ کہے یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔ (بخاری،کتاب الادب، ج:4، ص:163، حدیث:6224)

چھینک آنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنا سنت ہے بہتر یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے۔ سننے والے پر واجب ہے کہ فوراً یَرْحَمُکَ اللہ(یعنی اللہ پاک تجھ پر رحم کرے)کہے اور اتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والا خود سن لے۔ اگر جواب میں تا خیر کردی تو گنہگار ہوگا۔ صرف جواب دینے سے گناہ معا ف نہیں ہوگا توبہ بھی کرنا ہوگی۔ ‘‘(فیضانِ ریاض الصالحین ج:3، ص298)

بعض احادیث میں مسلمانوں کے چھ حقوق بھی بیان ہوئے جن میں ایک یہ حق بھی ہے کہ جب وہ تم سے کوئی نصیحت طلب کرے تو تم اس کو نصیحت کرو۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔‘‘(اشعۃ اللمعات، کتاب الصلاۃ، باب:عیادۃ المریض وثواب المرض، ج:1، ص:674)

مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ ‘‘(مرقاۃالمفاتیح، کتاب الجنائز، ج:4، ص:6،تحت الحدیث:1525)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔