اسلام دینِ محبت ہے اور اس کا ہر فرد باہمی اخوت و بھائی چارے کے بندھن میں بندھا ہوا ہے یوں اسلامی معاشرہ ایک خاندان کی مانند ہے اور ہر مسلمان اس معاشرے کا فرد ہے جس طرح ایک خاندان والوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کے بھی اپنے مسلمان بھائی پر کچھ حقوق ہیں ان حقوق کی تعداد بہت زیادہ ہےالبتہ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کر، جب وہ تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر، جب وہ تجھ سے نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کر، جب اسے چھینک آئے اور الحمد للہ کہے تو اسے جواب دے، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کر اور جب وہ مرجائے تو اسکے جنازے میں شریک ہو ۔(صحيح مسلم: 2162) حدیث مبارکہ میں مسلمان کے چھ بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے

سلام کرنا: سلام کرنا ایک مسلمان کے بنیادی حقوق میں سے ہے یہ آپس میں محبت بڑھانے کا ایک بہترین زریعہ ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو گے یہاں تک کہ مومن ہو جاؤ، اور تم مو من نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو، آپس میں سلام عام کرو۔ (صحيح مسلم،حديث 194)

سلام ایک دعا ہے جب بندہ اپنے بھائی کو السلام علیکم کہہ کر سلامتی دعا دیتا ہےتو گویا اس سے یہ عہد کرتا ہے کہ آپ کی جان و مال اور عزت و آبرو مجھ سے سلامت ہے لہذا جب بھی دو مسلمان آپس میں ملیں تو ہیلو ہائے اور گڈ مارننگ گڈ ایوننگ وغیرہ کی بجائے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سے گفتگو کا آغاز کریں ۔

دعوت قبول کرنا: جب ایک مسلمان اپنے بھائی کو دعوت دیتا ہے تو اس کا حق ہے کہ اس دعوت کو قبول کیا جائے اور اگریہ دعوت ولیمہ کی ہو تو اسے قبول کرنا تو سنت موکدہ ہے دعوت کو قبول کرنے کی تاکید اس قدر ہے کہ اگر بندہ روزہ دار ہو پھر بھی دعوت کو قبول کرنے کا حکم ہےچنانچہ ارشاد نبوی ہے جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو اسے قبول کرنی چاہیے، اگر وہ روزہ سے ہو تو اس (دعوت دینے والے) کے حق میں دعا کرے اور اگر روزہ سےنہ ہو تو کھا لے۔ (السنن الكبرى، حدیث0132)

اچھی نصیحت کرنا : اپنے مسلمان بھائی کو نصیحت کرنا اور اچھا مشورہ دینا بالخصوص اس وقت کہ جب وہ آپ سے نصیحت طلب کرے یہ بھی مسلمان کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(55)ترجمہ کنز الا یمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے ۔(پ27، الذّٰریٰت: 55)

سمجھانے اور نصیحت کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس کو سمجھایا جا رہا ہے اس کے عمل کرنے کی صورت میں انسان اجر عظیم کا حقدار ہوتا ہے اور اگر عمل نہ بھی کرے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ثواب کھرا ہو جاتا ہے

چھینک کا جواب دینا :جب چھینک آتی ہے تو ناک کے اندر موجود بیکٹیریا اور وائرس کا اخراج ہوتا ہے اور جسم جراثیموں سے پاک ہوتا ہے لہذا چھینک آنے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمد للہ کہا جاتا ہے تو جب مسلمان چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو سننے والے پر لازم ہے کہ اس کے لیے رحم کی دعا کرتے ہوئے یرحمک اللہ کہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو سننے والے مسلمان پر حق ہے کہ یرحمک اللہ کہے ۔(صحيح البخاري کتاب الادب حدیث:6223)

مریض کی عیادت : جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اسے کسی ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو اس کا سہارا بنے اور اس کی ضروریات کو پورا کرے لہذا اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تلقین کی ہے کہ وہ مریض کی تیمارداری کریں اور اس کی ضروریات کو حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کریں حدیث مبارکہ میں ہے کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو گیا تو واپس ہونے تک جنت کے پھل چننے میں رہا۔ (مسلم، ص1065، حدیث:6551)

تجہیز و تکفین :جب ایک شخص اس دار فنا سے دار بقا کی طرف چلا جاتا ہے تو وہ اپنے لیے کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں رہتا اب اس کو سپرد خاک کرنا ہی اس کی سب سے بڑی تعظیم و توقیر ہے اس کے قرب و جوار میں بسنے والوں پر لازم ہے کہ اس کے غسل و کفن اور جنازے میں شرکت کریں اس کے لیے دعائے مغفرت کریں اور اہل خانہ سے تعزیت کریں تجہیز و تکفین میں شرکت کی ترغیب پر متعدد احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ ہےابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے نماز جنازہ پڑھی، اس کو ایک قیراط ثواب ہے، اور جو دفن سے فراغت تک انتظار کرتا رہا، اسے دو قیراط ثواب ہے لوگوں نے عرض کیا: دو قیراط کیا ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو پہاڑ کے برابر۔(سنن ابن ماجہ، كتاب الجنائز،حدیث: 1539)

ان کے علاوہ بھی دیگر کئی حقوق ہیں جیسے مظلوم کی مدد، یتیم اور بے سہارا لوگوں کی معاونت مسلمان کے حق میں سچی گوہی دینا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حتی الامکان ان حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھیں اور جس قدر ممکن ہو دوسروں سے بھلائی کرتے رہیں

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔