اکثر مسلمانوں میں یہ خیال عام ہے کہ چند عبادات کی ادائیگی سے بخشش ہو جائے گی۔ اس لیے نماز روزے اور حج کا تو اہتمام کیا جاتا ہے لیکن زکوۃ اور دیگر مالی صدقات اور نفقات کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہوتا ہے گو یادین کے صرف ایک حصے یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی کی جاتی ہے لیکن دوسرے بڑے حصے یعنی حقوق العباد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اسلام کا تصور دین یہ ہے کہ دونوں حقوق کی ادائیگی فرض ہے۔ اولیت حق اللہ کو حاصل ہے لیکن حقوق العباد بھی فرض ہیں بلکہ تمام عبادات کا مقصد ہی حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے مسلمان کی تربیت کرتا ہے تا کہ وہ اتنا نیک بن جائے کہ برائی میں مبتلا نہ ہو اور معاملات زندگی ایمانداری سے سر انجام دیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں انسان کو اپنی ہدایات سے محروم نہیں رکھا۔ اس نے انسانوں کے درمیان حقوق کا واضع تعین کر کے ان کی ادائیگی کو اپنی خوشنودی اور ادا نہ کرنے کو اپنی نا خوشی کا سزاوار ٹھہرایا ہے۔

نبی کریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے پہلے حقوق کی ادائیگی میں لوگ انتہائی غفلت کرتے تھے۔

اس سے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کا دروازہ کھلتا تھا۔سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسان کے ہر رشتہ کے لحاظ سے حقوق کی حدود متعین کر دیں۔جب ہر کوئی اپنے فرائض کو شرعی قواعد کے مطابق ادا کرے گا تو پھر کسی کی حق تلفی نہ ہوگی اور نہ کسی پر ظلم ہوگا۔حقوق کی حفاظت کا اہتمام جتنا شریعتِ اسلامیہ میں کیا گیا ہے دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔

بندوں کے حقوق اچھی طرح وہ ادا کر سکے گا جسے یہ علم ہوگا کہ اللہ کے نبی نے ہر ایک کے حقوق کے بارے میں فرداً فرداً کیا فرمایا ہے۔

مسلمان ایک ملت اور قوم ہے لہٰذا اسلام نے ہر مسلمان پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ آپس میں اتفاق،سلوک اور پیار محبت سے رہیں کیونکہ اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے۔مسلمانوں کو ایک برادری کی حیثیت حاصل ہے۔خواہ وہ دنیا کے کسی حصے میں رہتے ہوں۔آپس میں مسلمانوں کا رشتہ نہایت ہی مضبوط رشتہ ہے۔اس رشتہ نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے اور ان کے درمیان آپس میں رحم،شفقت،محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کو لازم قرار دیا ہے۔جنہیں حقوق کے نام سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ان حقوق کو ادا کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کے حقوق ادا کرتا رہے گا تو اسے بھی وہی سہولتیں میسر آ جائیں گی جو ہر مسلمان کے لیے ہیں۔

اس کے بارے میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث مبارکہ سنئے: عن أبي ه‍ريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال المؤمن مألف و لا خير فيمن لا يألف ولا يؤلف ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن الفت کرنے والا ہے اور اس میں کوئی بھلائی نہیں جو الفت نہ کرے اور اس سے الفت نہ کی جائے۔(بیہقی)

آج ہم مسلمان عام طور پر معاملات میں بے ایمانی کرتے ہیں اور صرف ساتھ اپنے دیگر فرائض اور عبادات پر قناعت کرتے ہیں۔مسلمانوں کے حقوق کے متعلق ہم بڑی لا پروائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ جہاں دین پر عمل میں ذرا مادی نقصان نظر آیا وہاں دین کو چھوڑ دیا۔ جہاں تک مفادات کے ساتھ دین چلتا ہے اختیار کیا لیکن جہاں دین اور مفاد ٹکرائیں احترام دین کو چھوڑ دیا اس وجہ سے آج ہم زوال کا شکار ہیں۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔