صبیح اسد جوہری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور،
پاکستان)
اے عاشقان
رسول! کسی بھی معاشرے میں رہنے اور اس کو پر سکون بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ حقوق و
فرائض کی حاجت پیش آتی ہے۔اردو میں حق کی جمع کو حقوق کہتے ہیں یعنی ایک مسلمان کا
دوسرے مسلمان پر جو حق ہے اس کو حقوق کہتے ہیں اگر کسی معاشرے(Society)
میں ایک دوسرے کے حقوق کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ معاشرہ،معاشرہ نہیں بلکہ جنگل
کہلاتا ہے۔ہمارا دین اسلام چونکہ سب سے افضل و کامل مذہب ہے لہذا ہمارے مذہب نے نہ
صرف ہمیں کل کائنات کے بلکہ حیوانات اور جمادات کے حقوق کے متعلق بھی ہماری
رہنمائی کی ہے۔اسلام نے چونکہ ہمیں ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ مہیا کیا ہے لہذا
ہمیں مسلمانوں کے حقوق پر بھی عمل پیرا ہونے کی تاکید کی ہے۔خود قرآن و حدیث میں
مسلمانوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں: مسلمانوں کے چند حقوق پیش خدمت ہے:
(1) احترام مسلم: جس طرح حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے افضل نبی علیہ السلام ہیں اس طرح حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت بھی سب سے افضل امت ہے اور انسان تو اشرف
المخلوقات ہے لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کا احترام کرے اس کے
ساتھ اچھا رویہ رکھے اور کبھی بھی اس کی عزت خراب نہ کرےاور ایک مسلمان پر لازم ہے
کہ وہ دوسرے مسلمان کی اس کے مقام کے مطابق عزت کرے ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد
مبارک کا مفہوم ہے: جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں دراذی اور رزق میں فراخی ہو
اور بری موت دفع ہو وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔(بخاری
جلد 4 صفحہ 97 حدیث 598)
(2)صلہ رحمی: صلہ رحمی کا
معنی رشتہ جوڑنا ہے مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک بہت ہی اہم حق صلہ رحمی کرنا
ہے۔اے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یاد رکھیے کہ ذو محرم رشتہ داروں
سے صلہ رحمی کرنا واجب ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى ترجمہ
کنزالایمان:اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں سے۔(پ1، البقرۃ: 83) اس
آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ قربیٰ بمعنی قرابت
ہے یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ احسان کرو۔تو اے عاشقان رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اب ہمارا کوئی رشتے دار ہمارے ساتھ حسن سلوک کرے یا نہ کریں ہم پر
لازم ہے کہ ہم اس کے ساتھ حسن سلوک کریں ۔
(3)
ماتحتوں کے حقوق: پیارے
اسلامی بھائیو! عموماً ہمارے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے کہ اگر ایک شخص
والد ہے تو اس کی اولاد اس کی ماتحت ہے شوہر ہے تو بیوی اس کی ماتحت ہے اسی طرح
اگر وہ مالک ہے تو اس کا غلام اس کے ماتحت ہے۔لہذا اس شخص پر ضروری ہے کہ وہ اپنے
ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کی غلطیوں پر درگزر کرے اور ان کے ساتھ حسن
سلوک کرے۔
(4) تعزیت کرنا: پیارے اسلامی
بھائیو اگر ایک مسلمان بیمار ہو جائے تو دوسرے مسلمان پر اس کا حق ہے کہ وہ اس کی
عیادت کرے۔جو کہ حدیثوں سے ثابت ہے۔اسی طرح اگر کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو اس پر
ہنسنے کی بجائے اس کی مصیبت پر خوش ہونے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے ساتھ
تعزیت کریں ۔فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو مسلمان اپنے
مسلمان بھائی کی مصیبت میں تعزیت کرے اللہ پاک قیامت کے دن اسے عزت کا لباس پہنائے
گا۔(ابن ماجہ 268/2 حدیث نمبر 1601)
(5) تکلیف دور کرنا: محترم اسلامی
بھائیو کسی مسلمان کو ایذا نہیں د ینا چاہیے وہ زبان سے ہو یا ہاتھ سے بہت سخت
گناہ اور اس کی حق تلفی ہے۔پرسکون ماحول قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم لڑائی
جھگڑے،طعنے بازی اور گالی گلوچ سے دور رہیں۔ فرمان تاجدارِ رسالت ہے:مسلمان وہ ہے
جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری 15/1 حدیث نمبر 16)
پیارے اسلامی
بھائیو مذکورہ بحث سے آپ پر یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ اسلام نے ہم پر مسلمانوں
کے بہت سے حقوق لازم کیے ہیں لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مسلمانوں کے حقوق کو ادا
کر نے کی بھر پور کوشش کریں۔فقط واٹس ایپ سٹیٹس اور فیس بک پوسٹ کی حد تک ہی نہیں
بلکہ عملی زندگی میں بھی مسلمانوں کو سکون پہنچائیں اور ان کی راحت کا باعث
بنیں۔اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کے مطابق
زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبین الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔