ابو ثوبان عبدالرحمن عطّاری (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان ہے: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَیُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا
وَیَعْرِفْ لَنَا حَقَّنَا یعنی جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ
کرے، ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور مسلمان کاحق نہ جانے وہ ہم سے نہیں (المعجم
الکبیر، 11/355،
حدیث: 12276)
یقیناً مسلمان کے حقوق نہایت اہم ہیں،
مسلمانوں سے ہمارے کئی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں مثلاًباپ، بیٹا، بھائی، ماموں، چچا،
پڑوسی، ملازم وغیرہا۔ہر ایک کے اعتبار سے ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرناہے، جہاں
شریعتِ مُطَہَّرہ نے مسلمانوں کی عزت و عظمت اورمقام و مرتبہ بیان کیا ہے وہیں ان
کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیااور کچھ حقوق گنوائے ہیں۔چنانچہ
مسلمانوں کے چھ حقوق:
خاتَمُ الْمُرْسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں (1)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (2)جب
وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (3)جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (4)جب
وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (5)جب وہ چھینکے تو جواب دے (6)اس
کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔(ترمذی، کتاب
الأدب، باب ما جاء فی تشمیت العاطس، 4/338، حدیث:
2746)
حضرت علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: ’’اِس حدیث پاک میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق بیان
کئے گئے ہیں ان میں تمام مسلمان برابر ہیں، چاہے نیک ہوں یا بد لیکن اتنا ضرور ہے
کہ نیک لوگ خندہ پیشانی، اچھے طریقے سے ملاقات کرنے اور مصافحہ میں پہل کرنے کے
زیادہ حقدار ہیں۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض، 4/6،
تحت الحدیث: 1525)
پیارے اسلامی بھائیو!مذکورہ احادیث میں
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، اِن چھ حقوق کا اِجمالی بیان پیش خدمت ہے
(1)ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی کو سلام
کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن
لے۔ سلام کرنے کے بہترین الفاظ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
ہیں اورجواب دینے کے بہترین الفاظ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ
وَبَرَکَاتُہٗ ہیں۔
(2)اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول
کرنا اُس وقت سنت ہے جبکہ اُس میں کوئی خلافِ شرع کام نہ ہو، یا وہ دعوت دوسروں کو
نیچا دکھانے، فخر اور اپنی واہ وا کے لئے نہ ہو ورنہ ایسی دعوتوں میں شرکت کرنا
شرعاً ممنوع ہے۔
(3)اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت اور اُن
کی خیر خواہی کرنا سنت مبارکہ ہےاور جب کوئی نصیحت طلب کرے اور دوسرا اُس پر قادر
ہو تو اب نصیحت کرنا واجب ہے۔
(4)چھینکنے والے کو چاہیے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ
الْعٰلَمِیْن کہے،
جبکہ سننے والا اُس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللہ کہے اور اب چھینکنے والا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ یا یَھْدِیْکُمُ
اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُم کہے، چھینک کا جواب ایک بار دینا
واجب ہے جبکہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے، ورنہ واجب نہیں۔
(5)اپنے بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کرنا
سنت مبارکہ ہے اور اَحادیث میں اِس کا بڑا اَجروثواب بیان فرمایا گیا ہے اور اگر
اُس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ ہو اور یہ اُس پر قادر ہے تو اب اُس کی
دیکھ بھال کرنا اِس پر واجب ہے۔
اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں حتی
المقدور شرکت کرنی چاہیے کہ احادیث مبارکہ میں اِس کے بھی بہت فضائل بیان فرمائے
گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ احادیث میں ایک مسلمان
کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق کو بیان فرمایا گیا ہے لیکن یہ حقوق فقط ان چھ میں
منحصر نہیں، چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق
ہیں، صرف اِن چھ میں اِنحصار نہیں۔ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے مختلف مواقع پر موقع کی مناسبت سے مختلف حقوق کو بیان کیا یا پھر حقوق المسلمین
بتدریج نازل ہوئے، جو حق جب نازل ہوا آپ نے اُسی وقت اُس کو بیان فرمادیا۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔