اسلام نے حقوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو ہم حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کے نام سے جانتے ہیں۔دونوں کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنا اسلام کی نگاہ میں انتہائی ضروری ہے۔آج کل لالچ اور حرص وہوس نے ہمیں اپنا اتنا گرویدہ کر دیا کہ ہم ہر ایک سے حسد، فراڈ، دھو کہ کرنے لگے اور آپس میں بغض رکھنے لگے جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان قلبی بیماریوں سے منع فرمایا ہے۔ہم اپنی دوکانوں کو چمکاتے ہے اپنی واہ وا کے لئے اپنے آپ کو سب سے مختلف ظاہر کرنے کے لئے دوسروں کو حقیر، گھٹیا، سمجھنے لگے تو یہ حق مسلم نہیں بلکہ ہم اپنے لئے دوزخ خرید رہے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے تو کیا ہم اپنے حقیقی بھائی بہن دیگر رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑائی وجھگڑا کرتے ہیں ایک دوسرےسے قطع تعلق (رشتہ توڑ) کر دیتے ہے اور کئی کئی سال تک ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور جب شب قدر یا شب براءت یا اسی طرح کا کوئی اور دن ہوں تو ہم ایک روایتی میسج کرتے ہے وہ بھی ان لوگوں کوجن سے ہمارا رشتہ بہت کم ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ ہم سے ناراض بھی نہیں ہوتے اور جو اس میسج کے زیادہ حق دار ہوتے ہے ہم انہیں بھول جاتے ہیں جبکہ اسلام نے تو تین دن سے زیادہ دیر تک ناراض رہنے سے منع فرمایا ہے اور ان تمام چیزوں میں جو سب سے پہلے نمبر پہ ہے وہ ہماری زبان ہے کیونکہ یہ زبان ہی تو ہے کہ اس سے نکلنے والے الفاظ سے ہم کسی کے دل میں بھی اتر جاتے ہے اور کسی کے دل سے بھی۔ تو آج ہم مسلمان کے مسلمان پرجو حقوق ہے ان میں سے چند حقوق کے متعلق پڑھیں گے اور اس پہ عمل کرنے کی بھی کوشش کرے گے ان شاء اللہ۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ۔ ترجمہ کنزالایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ (پ4، آل عمرٰن:110)

خیر خواہی کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مطلق سچائی اور اُخروی کا میابی کی طر ف بلاتا رہے اور اس کو دوسرے افکار و نظریات اور مذاہب کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔دین ہرایک کے لیے نصیحت ہے۔اس لیے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا: الدین نصیحۃ، یعنی دین سراپا نصیحت ہے۔ یہ جملہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مر تبہ دُہرایا۔ اس کے بعد ایک صحابی نے عرض کیا کہ یہ کن کے لیے نصیحت ہے ؟۔ فر مایا: اللہ تعالیٰ،اس کی کتاب، مسلم حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کے لیے۔(ترمذی)

’خیر‘ کے لغوی معنی فائدہ، بھلائی اور نفع کے ہیں اور اس کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو بہتر طریقے سے اپنے کمال تک پہنچانے کے ہیں۔ امام راغب کے مطابق ’ النصح ‘ کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کی خیر خواہی ہو۔ ہر ایک کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہی حقیقتاً دین داری ہے۔ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قرآن مجید اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی اور وفاداری نہ کر ے تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹاہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے وہی چاہے جو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے چاہتا ہو۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے واسطے وہی بات نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہو‘‘۔(بخاری،کتا ب الایمان)

ایک مو من دوسرے مومن کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ایک مسلمان کودوسرے مسلمان بھائی کی فلاح وبہبود اور تر قی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔خیر خواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے ہدایت اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔

مسلمان کے مسلمان پہ کئی حقوق ہیں اللہ پاک کے پیارے حبيب،حبيب لبیب، سب سے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔

شرح:اس حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں۔ مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی بعض اوقات کچھ معین باتوں کو ان پر خصوصی توجہ دینے اور ان كو شمار کرنے کے لیے صرف انہی کا ذکر فرما دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کرتے ہوئے کیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے توآپ اس کے سلام کا جواب دیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: ایک یہ کہ جب تم اس سے ملو تو اس سے سلام کرو۔جو شخص مسلمانوں کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو بدرجۂ اولی پورا کرے گا۔ اس طرح سے وہ ان واجبات و حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی مضمر یعنی چھپی ہوئی ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرطیکہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار رہے۔ ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو ۔

دوسرا حق: جب کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے گھر میں مقید ہوجائے تو اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کا اپنے مسلمانوں بھائیوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس کی زیارت کریں۔ اس کے صحت یابی کے لیے دعا کرے۔ اور اگر اس کے لیے آسانی ہو تو اس کی کچھ خدمت بھی کرے تاکہ اس کے لیے آسانی ہو جائے۔

تیسرا حق: جنازے کے پیچھے چلنا اور ان کے ساتھ ساتھ جانا ہے۔مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق بھی ہے کہ جب وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ چلے۔ اب یہ جنازہ جنازگاہ میں جارہا ہو یا پھر کسی مسجد میں ہو اور کوشش کرے کہ اسے دفن کرنے کے بعد دعا مغفرت بھی کرے اور پھر واپس آجائے ۔لیکن آج کے دور میں کوئی امیر انتقال کر جائے تو ہم ان کودیکھانے کے لیے جاتے ہے اور کافی دیر تک وہاں رکتے ہیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ہمیں بہت افسوس ہے جبکہ یہی اگر کسی غریب کا گھر ہو تو ہم جاتے ہی نہیں یا پھر جاتے ہے تو بس فورا ہی واپس آجاتے ہے جبکہ وہ بھی مسلمان اور یہ بھی مسلمان۔ تو ہمیں چاہے کہ ہم ان میں اس طرح کا فرق نا کرے۔

چوتھا حق: دعوت قبول کرنا ہے۔ مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی پر یہ حق بھی ہے کہ جب وہ اس کی دعوت کرے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے مگر آج کے دور میں ہم اس چیز پہ توجہ کرتے ہے کہ اگر تو کوئی امیر ہے تو ہم اس کی دعوت کو قبول کرلیتے ہیں اور اگر وہ غریب ہے تو اس کی دعوت کو رد کر دیتے ہے جبکہ یہ صرف دعوت کو رد کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے اس کا دل بھی یقینا دکھتا ہو گا اور مسلمان بھائی کا دل بھی نہیں دکھانا چاہے۔

پانچواں حق: چھینک کا جواب دینا ہے۔ کیونکہ چھینک آنا یہ بھی اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ہم اکثر محسوس کرتے ہیں کہ جب ہمیں چھینک آتی ہے تو چھینک کے بعد ہمارے جسم کو راحت ملتی ہے تو اس نعمت کا بھی شکر ادا کرنا چاہیئے اور جب ہمارے دینی بھائی کو آئے تو اس کا جواب بھی دینا واجب ہے ۔

ہمارا معاشرہ جو ہے وہ آج ان چیزوں کو بھولے بیٹھا ہے اور صرف دنیا کے پچھے ہی لگا ہوا ہے جبکہ وہ اپنے بھائی کے حقوق کو ضائع کر رہا ہے اور تو ہمیں چاہے کہ ہم اپنے بھائی کے حقوق کا خیال رکھے اور ان کو ادا کرنے کی بھی دل و جان سے کوشش کرتے رہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے بھایئوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان کو اچھے سے ادا کرنے کی توفيق عطإ فرمائے۔ آمین

نوٹ:اکثر ہم جب بھی کوئی تحریر پڑھتے یا کوئی بیان وغيرہ سنتے ہے تو ہمارا اس وقت تو ذہن بن جاتا ہے کہ ہم اب ان چیزوں کا خیال کرے گےے جبکہ ہم نے ابھی اپنے بھائی کے حقوق کے متعلق پڑھا تو ہمارا ذہن بنا ہوگا کہ ہم ان کو ادا کرے یا کبھی قطع تعلق کے متعلق پڑھیں جو کہ اب ہمارے معاشرہ میں بہت زیادہ ہوچکی ہے تو ہم اسی وقت ذہن بناتے ہیں کہ جو ناراض ہے اس کو منائے گئے لیکن کچھ دیر بعد پھر شیطان کے بہکاؤے میں آکر ترک کر دیتے ہے۔

تومیرے عزیز! یاد رکھ جب نیت کرے تو اسے فورا پورا کراور اسے اپنے عادت بنا تاکہ آپ اسے کرتے رہوں۔ اپنے بھائی کا خیال کرنے سے عزت کم نہیں ہوگی بلکہ عزت میں اضافہ ہی ہوگا ان شاء اللہ

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔