حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے، تم مجھ پر
درود شریف پڑھو اللہ کریم تم پر رحمت بھیجے گا۔
قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی، اللہ تعالیٰ نے
اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، حضرت ہود علیہ
السلام اللہ تعالیٰ کے بہت ہی پیارے نبی تھے، حضرت ہود علیہ ا لسلام ان کو بار بار
اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن یہ اپنے کفر پر اڑے رہے اور اسلام نہ لائے حضرت ہود
علیہ السلام بار بار ان کو دین اسلام کی لیکن یہ اپنے تکبر اور سرکشی میں مست تھے،
قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، جوعمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے
ان کے مورث اعلیٰ کا نام عادبن عوض بن ارم بن سام ہے بن نوح ہے پوری قوم کے لوگ ان
کو مورث اعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے، قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ بت پرست اور
بداعمال و بدکردار تھے قوم عاد اپنے غرور اور تکبر میں اڑی رہی اور حضرت ہود علیہ
السلام کو جھٹلاتی رہی، مگر اس قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے
نبی سے یہ کہہ دیا کہ تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ کو پوجیں
اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے
ہو، اگر سچے ہو، آخر کار قوم عاد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آنا شروع ہوگیا
مسلسل تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، قوم عاد جو تھی وہ بڑی طاقتور اور قد آور قوم
تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور
ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، قوم عاد نے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کر گرمیوں
اور سردیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ محلات تعمیر کیے تھے گرمیوں میں علیحدہ کوٹھیوں
میں اور سردیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں رہتی تھے ان لوگوں کو اپنی کثرت اور اور
طاقت پر بڑا اعتماد اپنے مال اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا ، مگر کفر اور
بداعمالیوں وبدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر الہی میں اس طرح گرفتار کررکھا
تھا کہ جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا، حضرت
ہود علیہ ا لسلام کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اور ان کی قبروں کانشان بھی
باقی نہ رہا، حضرت ہود علیہا لسلام کی قوم عذاب الہی کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکی،
تو پھر ہم جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے؟ اس لیے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی
نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
نافرمانیوں اوربداعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں۔حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے لوگ
اناج کے ذرہ ذرہ کو ترس گئے،ان کو کھانے کے لیے ایک دانہ بھی نہ ملا۔
اس زمانے کا یہ طر
یقہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت آئی تولوگ خانہ
کعبہ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر میں جا کر دعائیں مانگتے تھے، جو بلائیں آتیں تھیں
وہ ٹل جاتیں تھیں، چنانچہ ان کی ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد
نامی ایک شخص تھا جو مسلمان تھا، مگر وہ اپنے ایمان کو پوری قوم سے چھپائے ہوئے
تھا، جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک کعبہ معظمہ میں جا کر دعا مانگنی شروع کی،
تو جو شخص مسلمان تھا اس کا جذبہ ایمانی بیدار ہوگیا اس نے اپنی پوری قوم سے کہا
یعنی سمجھایا کہ تم لاکھ دعائیں مانگو پانی نہیں برسے گا، جب تک تم اللہ تعالیٰ کے
نبی حضرت ہود علیہ ا لسلام پرایمان نہ لاؤ حصرت مرثد بن سعد نامی شخص نے جب اپنا
ایمان ظاہر کیا تو قوم کے لوگوں نے ان کو مارنا شروع کردیا قوم عاد کے لوگ بہت
زیادہ شریر اور گناہ گار تھے، حضرت مرثد بن سعدنامی شخص کو قوم عاد کےلوگوں نے الگ
کردیا، اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں، جن کے
رنگ مختلف تھے ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ، اس سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد تم
اپنے لیے ایک بدلی کو پسند کرلو، یہ آواز آسمان کی طرف سے آئی ان لوگوں نے اپنے
لیے کالی بدلی کو پسند کیا، یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی
چنانچہ وہ ابر قوم عاد کی طرف چل پڑا، قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت
خوش ہوئے۔
حضرتِ ہود علیہ ا
لسلام نے فرمایا کہ اے میری قوم دیکھ لو عذابِ الہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف
بڑھ رہا ہے قوم عاد کے گستاخ لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو
جھٹلادیااور کہا کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب کہتے تھے ؟ کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں
بارش دینے کے لیے آیا ہے، یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف بڑھتا رہا، اور
ایک دم ناگہانی اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے
سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگی کہ درختوں کو
جڑوں س اکھاڑ کر لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں
میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ
کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کوجھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، سات رات اور
آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک آدمی تک باقی نہ رہا،
قوم قوم عاد کے سارے لوگ اور بچے فنا
ہوگئے، سات رات اور آٹھ دن کے بعد جب یہ آندھی ختم ہوگئی تو قوم عاد کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح
پڑھیں تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔
پھر قدرت خداوندی
کا حکم اس طرح ہوا کہ کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں
کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی قوم ایمان نہ لائی، حضرت
ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا، اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ان
کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔
قرآن مجید کی یہ
آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے ر ہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی
تاثیر بربادی ہے، یعنی بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے
ہلاک و برباد کردی گئیں جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام کی بستی تھی اللہ تعالی قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے توضر ور ہم ان
پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان
کے کیے پر گرفتار کیا۔