انبیا ئے کرام علیہمُ السّلام کے
اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصدبنی نوع انسان کی اصلاح کرنا ،ان میں پائی جانے
والی برائیوں پر انہیں آگاہ کرنا اور ان کے ارتکاب سے روکناہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب
بھی کسی قوم کی طرف کسی نبی کو بھیجا گیا تو سب سے پہلے انھوں نےاس قوم میں رائج
بری عادتوں اوران برے رسم و رواج سے لوگوں کو منع فرمایاجو کہ
مزاج شریعت کے موافق نہ تھے۔ لیکن جب قوم نے ان کی باتوں کو تسلیم نہ کیا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر
اپنے آباو اجداد کی رسوم کو ترجیح دی اور یہ کہہ کر ان کو جھٹلادیا کہ ہم تو وہی
کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا تو نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر عذاب نازل
کردیا گیا اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
انہی قوموں میں سے ایک حضرت
ہود علیہ السلام کی "قوم عاد"ہے۔یہ قوم یمن کے ایک علاقے میں رہتی تھی
ان کے بادشاہ کا نام "عاد" تھا۔ اسی وجہ سے یہ قوم "قوم عاد" کہلاتی ہے۔ (روح البیان ، جلد 3 ، صفحہ 186، سورۃ الاعراف آیت نمبر : 65 )
یہ لوگ بت پرست تھے ۔حضرت ہود
علیہ السلام نے انھیں توحید کی طرف بلایااور کفر و شرک سےبچنے کا حکم دیا لیکن انہوں
نےآپ کی بات نہ مانی اور آپ کو معاذ اللہ بیوقوف اور جھوٹا کہنے لگے۔آپ نے بار بار اس قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرایالیکن سوائے چند لوگوں کے سب
نے آپ کو جھٹلادیا اور کہنے لگے کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو لے آؤ وہ
عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔نتیجۃً ان پر عذاب الٰہی کے آثارنمودار ہونا شروع
ہوگئے۔ چنانچہ تین سال تک ان پر بارش نہ ہوئی اور وہ شدید قحط سالی میں مبتلا
ہوگئے۔
وہاں کا دستور تھا کہ جب بھی
ان پر کوئی مصیبت آتی تو وہ خانہ کعبہ کے پاس آکر دعائیں مانگتے تو ان کی
مصیبتیں دور ہوجایا کرتی تھیں لہذا انھوں نے چند لوگوں کو مکہ کی طرف روانہ کیا۔ جب ان لوگوں نے خانہ کعبہ کے
پاس پہنچ کردعا مانگنا شروع کی تواچانک ان
پر تین بادل نمودار ہوئے ایک سفید، ایک
سرخ،ایک سیاہ، ساتھ ہی آسمان سے آواز آئی کہ اے قوم عاد! کوئی ایک بادل چن لو۔
چنانچہ انہوں نے سیاہ بادل اس خیال سے چنا کہ یہ زیادہ برسے گا۔
چنانچہ سیاہ بادل قوم عاد کی آبادیوں کی طرف
بڑھا۔ بادل کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے لیکن ہوا یہ کہ اچانک اتنی شدت کی آندھی چلی کہ درخت جڑ سمیت زمین سے
اکھڑنے لگے، اونٹ اپنے سواروں سمیت ادھر ادھر گرنے لگے۔حتی کہ آندھی نے ان کے
گھروں کے مضبوط دروازوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس طرح وہ قوم ہلاک کردی گئی
اور اس قوم کا ایک فرد بھی باقی نہ بچا۔جو لوگ ایمان لے آئے تھے حضرت ہود علیہ السلام ان کو لیکر مکہ مکرمہ میں آگئے۔ (ملخص از: روح
البیان ، جلد 3 ، صفحہ881، وتفسیر صراط
الجنان جلد3، صفحہ 356 تا 357)
قرآن پاک میں اس واقعہ کو سورہ اعراف
کی آیت 65 تا70 میں بیان کیا گیا۔اللہ تبارک و تعالی ہمیں اپنے عذاب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم