قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
2 years ago

                                                        طوفانِ نوح کے بعد مسلمانوں نے جودی پہاڑ کے قریبی علاقے میں رہنا شروع کیا۔ ان کی اولاد میں اضافہ ہوا تو لوگ دور دراز کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ انہیں میں سے ایک قبیلہ جزیرہ عرب کے جنوبی طرف یمن کے ریتلے ٹیلوں والے علاقے ”احقاف“ میں قیام پذیر ہوا۔ یہ قبیلہ اپنے والد ”عاد“ یا بادشاہ ”عاد“ کی نسبت سے ”قومِ عاد“ کہلایا۔ اس قوم کے لوگ صحت مند ، طاقتور اور لمبی عمروں والے تھے لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے چنانچہ بتوں کی پوجا، لوگوں کا مذاق اڑانا اور لمبی زندگی کی امید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔ اللہ تعالی نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت ہود علیہ السّلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ مگر اس قوم نے ان کی نافرمانیاں کیں۔ جن میں سے چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔

حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم کو نصیحت اور ان کا گستاخانہ جواب :

حضرت ہود علیہ السّلام نے قومِ عاد کو وحدانیتِ الہی پر ایمان لانےکا حکم دیا تو قوم کے کافر سرداروں نے کہا :ہمیں تو تم واضح طور پر بے وقوف لگتے ہو کیونکہ تم اپنے باپ دادا کے دین کی بجائے دوسرے دین کو مانتے ہو۔(سیرت الانبیاء، ص 209)

قوم عاد کا انکارِ رسالت:

قومِ عاد نے ایک موقع پر واضح الفاظ میں یہ کہہ کر بھی حضرت ہود علیہ السّلام کی رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا رب کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو اتار دیتا اور تم چونکہ فرشتے نہیں ہو اس لیے ہم تماری رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 211-212)

سرداران کفار کا یوم حشر پر اعتراض :

حضرت ہود علیہ السّلام نے قوم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا بتایا تھا اس پر کافر سرداروں نے اپنے لوگوں کو ایک عقلی دلیل دیتے ہوئے کہا: یہ نبی تم سے یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد جب تمہارا گوشت مٹی میں مل جائے گا صرف ہڈیاں باقی رہ جائیں گی، اس کے بعد پھر تمہیں زندہ کر کے قبروں سے نکالا جائے گا؟ یہ سب باتیں عقل سے بہت بعید ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص212-213)

قومِ عاد کا غرور و تکبر کرنا :

قبیلہ عاد کے لوگ بڑے طاقتور اور متکبر تھے، چنانچہ ایک موقع پر جب حضرت ہود علیہ السّلام نے انہیں عذاب الہی سے ڈرایا تو انھوں نے اپنی قوت پر غرور کرتے ہوئے کہا: ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں اور اگر عذاب آیا تو ہم اسے اپنی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص213)

نصیت کے جواب میں قوم کی ہٹ دھرمی :

قوم عاد نے حضرت ہود علیہ السّلام کی نصیحتوں کے جواب میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: آپ کا ہمیں نصیحت کرنا، نہ کرنا برابر ہیں، ہم ہرگز آپ کی بات نہ مانیں گے، نہ دعوت حق قبول کریں گے اور جن چیزوں کا آپ ہمیں خوف دلا رہے ہیں، یہ پہلے لوگوں کی باتیں ہیں، وہ بھی ایسی ہی باتیں کہا کرتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص215)

تو ان نافرمانیوں کے نتیجے میں اللہ تعالی کا عذاب ان پر آندھی کی صورت میں نازل ہوا جس کی وجہ سے وہ تباہ ہوئے اور عبرت کا نشان بنے۔ اس سے یہ سیکھنے کو ملا کہ نیکی کی دعوت اور برائی سے ممانعت کے لیے انبیاء علیہمُ السَّلام کی سیرت کا مطالعہ بہت مفید ہے، نیکی کی دعوت دینے والوں کو ہمت کرنی چاہیے۔ کامیاب مبلغ کے لیے ضروی ہے کہ اسے قوت ایمانی، اللہپر کامل بھروسہ حاصل ہوں اور نیکی کی دعوت دیتے ہوئے لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔