قوم عاد کا مختصر تعارف
قوم عاد کا تذکرہ قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں موجود ہے۔
تفصیلی تذکرہ سورۀ ھود اور سورۀ اعراف میں جبکہ اجمالی تذکرہ سورۀ فجر ،
سورۀ قمر اور سورۀ قآف اور دیگر سورتوں میں ھے۔ جہاں
جہاں انکا اجمالی تذکرہ آتا ھے وہاں مفسرینِ کرام قوم عاد سے مراد دو طرح کی قومیں
لیتے ہیں:
۱. قومِ عادِ اولیٰ
۲. قومِ عادِ ثانیہ
قوم عاد اولیٰ سے مراد
حضرت ھود علیہ السلام کی قوم ہے جبکہ عادِ ثانیہ سے مراد حضرت صالح علیہ السلام کی
قوم ھے جو کہ قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہے ۔ ان دونوں قوموں کے درمیان ۱۰۰ سال کا تقریباً فاصلہ ہے۔ ہم یہاں
قوم عاد اولیٰ جو کہ اللہ کے پیغمبر ھود علیہ السلام کی قوم ہے کے بارے میں جانیں
گے۔
قوم عاد کا جدّامجد "عاد بن عوص بن ارم بن سام بن
نوح" ھے اور یہ قوم اپنے مورِث اعلیٰ کے نام سے مشہور ہیں۔ مقامِ احقاف جو کہ
یمن کے شہر عمّان و حضر موت کے درمیان ہے میں آباد تھے یہ لوگ طاقت و قوت میں بہت
بڑھے ہوئے تھے اسی بناء پہ سرکش و متکبّر تھے نیز بداعمال و بدکردار تھے۔ ربّ
تعالیٰ نے انکی ھدایت کیلئے ھود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا مگر اس قوم نے ان سے
بھے سرکشی کی۔ آئیے اس قوم کی بداعمالیوں کا مختصر طور پہ جائزہ لیتے ہیں:
۱۔
قوم عاد نے ربّ تعالیٰ کے ایک ہونے کو جھٹلایا اور آیات الٰہیہ کی تکذیب کی۔
۲۔قومِ
عاد نے اپنے نبی ھود علیہ السلام کی تکذیب کی اور ان سے استہزاء کیا۔
۳۔قومِ
عاد نے تکبر کیا۔
قوم عاد کا ربّ تعالیٰ
اور آیات الٰہیہ کو جھٹلانا :
قوم عاد بتوں کے پجاری تھے ان کے بتوں کے نام یہ ہیں:
1. صداء 2. صمود 3.ھباء
قرآنِ کریم میں ان کی بت پرستی اور اس سے منع کرنے کے
باوجود شرك پہ اڑے رہنے کا تذکرہ قرآن
کریم میں یوں موجود ھے:
ترجمہ
کنزالایمان: اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب اس
نے سرزمیں احقاف میں انہیں ڈرایا اور بیشک اس سے پہلے ڈر سنانے والے گزر چکےاور
اسکے بعد آئے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو بیشک مجھے تم پہ بڑے دن کے عذاب کا
خوف ھے۔ بولے کیا اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ تو ہم پہ لے آؤ
جسکا ہمیں وعدہ دیتے ھو اگر تم سچّے ہو۔(پارہ 26 سورہ احقاف آیت نمبر 21)
قوم عاد جو کہ بتوں کی پجاری اور رب تعالیٰ کو ایک ماننے سے
انکاری تھی کو جب ھود علیہ السلام نے تو حید کی دعوت دی تو انہوں نے نہ مانا اور
کفر پہ اڑے رہے بلکہ عذاب الٰھی کو بھی ہلکا جانا اور وعیدِ الٰھی کو طلب کر
بیٹھے، جو کہ بذات خود بہت عظیم گناہ ہے ۔
قومِ عاد کا ھود علیہ
السلام *کو جھٹلانا اور استہزاء
حضرت ھود علیہ السلام
کو ربّ تعالیٰ نے قومِ عاد کی اصلاح وتبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا اور آپ انکے ہم قوم
تھے لیکن جب آپ نے انہیں تبلیغِ دین فرمائی تو معاذ اللہ قومِ عاد آپ علیہ الصلوٰة
والسلام کی طرف سفاھت منسوب کرنے لگی۔ جسکا ذکر ربّ تعالی نے قرآنِ مجید پارہ 8
سورۀ اعراف میں یوں فرمایا ہے :
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ
ترجمۂ کنزالایمان:" اس کی قوم کے سردار بولے
بے شک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (پ8،اعراف:66)
قوم عاد نے اپنے نپی کی شان میں گستاخی کی اور معاذالله نبی کی
عقل کو کمتر جانتے ہوئے انکی طرف سفاہت کی نسبت کی حالانکہ ایک نبی کی عقل تمام
دنیا کے لوگوں سے زیادہ ہے اور اپنے نبی کی تعظیم فرض ہے اور انکی تعظیم و تکریم
میں کمی تمام انبیا و مرسلین کی تکذیب و توہین ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
کَذَّبَتْ
عَادُ نِ
الْمُرْسَلِیْنَ
ترجمۂ
کنز الایمان: اور عاد نے جھٹلایا رسولوں کو۔
مفسرین کرام اس کی
تفسیر میں فرماتے ہیں:
مراد یہ ہے کہ اپنے نبی کا مُکذِّب تمام۔انبیأ و مرسلین علیھم
السلام کا مُکذِّب و گستاخ ہے۔
معلوم ہوا انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی گستاخی موجبِ غضبِ
الٰہی ہے چنانچہ رب تعالی اور اسکی آیتوں
کو جھٹلانے اور ھود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کے سبب ھود علیہ السلام نے انہیں عذابِ الہٰی کی وعید سنائی اور
فرمایا:
قَالَ
قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٍ ؕ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ
فِیْ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْاھَا أَنْتُمْ وَآبَاءُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ
بِھَامِنْ سُلْطٰنٍ ؕ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ
ترجمۂ
کنز الایمان: کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب
پڑ گیا کیا
مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑرہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ
نے ان کی کوئی سند نہ اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔(پ8،اعراف:71)
قوم عاد نے تکبر کیا :
قوم عاد کو ربّ کریم نے نہایت قوی الجثہ تخلیق فرمایا تھا اور
انہیں بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی اور یہ پتھروں سے شہر تعمیر کرتے اور
اس میں رہتے۔ اللہ عزوجل ان کے طولِ قامت ہونے کا تذکرہ پارہ30 سورہ فجر میں
فرماتا ہے:
اِرَمَ
ذَاتِ الْعَمَادِ الَّتِیْ لَمْ
یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ
ترجمۂ
کنز الایمان: وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ (پ30،الفجر:
7،8)
تفسیرجلالین میں ہے :
ان کے قد کی طوالت
400 گز تھی۔اور مفسرین کرام کے ایک قول کے مطابق ان کے تعمیر کردہ شہروں کی تعداد
700 تھی۔
نیز رب تعالی نے انہیں بہتے چشموں اور باغوں سے بھی نوازا تھا
جس کا ذکر سورۂ شعراء پارہ 19 میں یوں ہے:
اَمَدَّکُمْ
بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ
وَجَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ
ترجمۂ کنزالایمان:تمہاری مدد کی چوپایوں اوربیٹوں اور
باغوں اور چشموں سے۔
(پ19، الشعراء: 133،134)
لیکن اس سب پہ شکرالٰہی کے بجائے یہ تکبر کرتے اور لوگوں
کو ستاتے۔
ان کے تکبر اور سرکشی کا تذکرہ اس طرح قرآن مجید کی سورۂ
شعرآء کی آیت نمبر 128 تا131 میں اس طرح ہے:
اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً
تَعْبَثُوْنَ وَتَتَّخِذُوْنَ
مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ فَاتَّقُواللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ
ترجمۂ
کنز الایمان: کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو
راہ گیروں سے ہنسنے کواور مضبوط محل چنتے ہو اس اُمید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے اور جب
کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہوتو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔
مفسرین فرماتے ہیں:قوم عاد بلند مقامات پہ عمارتیں وغیرہ بناتے
اور وہاں سے راہگیروں کو ستاتے اور اپنے
محل پتھروں سے مضبوط بناتے اکثر پہاڑ کی گھاٹیوں میں ایسے گھر بناتے جنکے درمیان پانی کا حوض بھی قائم کرتے اور
سمجھتے کہ دنیا ک زندگی ہی سب کچھ ہے اور
بہت ظالم تھے کہ کمزوروں پہ ظلم ڈھاتے اور معاملات میں ان پہ گرفت مضبوط رکھتے۔
حضرت ھود علیہ السلام نے کئی سال تک قوم عاد کو تبلیغِ دین
فرمائی اور انہیں ان کی بد اعمالیوں سے باز رہتے ہوئے عذابِ الہٰی کی وعید فرماتے
رہے لیکن بجائے اس کے کہ یہ قوم دعوت دین قبول کر کے اللہ عزوجل کی توحید کا اقرار
کرتی ھود علیہ السلام کی رسالت کو مانتے اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر بجا لاتی وہ اپنے شرك و کفر پہ
قائم رہی سوائے چند ایک کہ کوئی ایمان نہیں لایا بلکہ عذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے
رہے ۔ تووہ عذاب جس کا انہیں وعدہ دیا جارہا تھا اور وہ سرکشی کرتے ہوئے طلب کر
رہے تھے کی جھلکیاں کی شروع ہوگئیں۔
عذاب الہٰی کی جھلکیاں :
تین سال تک بالکل بارش نہ ہوئی اور قومِ عاد اناج کے دانے دانے
کو ترس گئی اور ہر طرف قحط سالی کا دوردورہ ہو گیا ۔ بجائے اس کے کہ قوم عاد اس سے
عبرت حاصل کرتی انہوں نے ایک وفد جو کہ تین افراد پہ مشتمل تھا خانۂ کعبہ کی جانب بھیج دیا کہ اس زمانے کا دستور تھا
کہ جب کوئی مصیبت آتی تو خانۂ کعبہ جا کر مصیبت کی ردّ کی دعا کرتے ۔ مکہ
مکرمہ میں ان دنوں قوم عمالیق آباد تھی انکا سردار معاویہ بن ابو بکر نامی شخص تھا
جسکا ننھیال قوم عاد میں تھے یہ وفد اسی کے ہاں ٹھہرا اور معاویہ بن ابوبکر نے
خاطر خواہ مدارت کی یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کے ناچ دیکھتے ایک ماہ اسی
لہو لعب میں گزار دیا معاویہ بن ابو بکر کو خیال آیا یہ کس مقصد کیلئے یہاں آئے
تھے اور اب قوم کو بھولے بیٹھے ہیں خود سے یاد دلاتا ہوں تو یہ ہوگا کہ مہمان
نوازی گراں ہے چنانچہ اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دئیے جس میں قوم عاد کی
مصیبت تذکرہ تھا تو جب باندی نے ان اشعار سے یاد دلایا تو انہیں اپنا مقصدِ آمد
یاد آیا اور خانۂ کعبہ کی
جانب دعا کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان میں ایک صاحب مرثد بن سعد نامی تھے جو ایمان
لاچکے تھے اور ایمان خفیہ رکھا تھا بول اٹھے: اللّٰه کی قسم ! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا مگر یہ کہ تم اپنے نبی کی
اطاعت کرو اور اللہ سے توبہ کرو انہوں نے مرثد بن سعد کو وہیں چھوڑا اور خود دعا
کیلئے روانہ ہوئے۔
عذابِ الہٰی کا نزول :
ان لوگوں نے خانۂ کعبہ جا کر دعا کی رّب تعالیٰ نے تین بادل
بھیجے سرخ،سفید،سیاہ کہ جس کو چاہے اپنی قوم کیلئے پسند کرلو۔ انہوں نے ابرِسیاہ
کو پسند کیا کہ خوب پانی برسے گا جب یہ ابر قوم کی طرف بڑھا تو بہت خوش ہوئے کہ
خوب پانی ملے گا یہ بادل پچّھم کی طرف سے بڑھا لیکن اس میں سخت آندھی تھی جو کہیں
سے کہیں اڑا کے آدمیوں کو لے جاتی تھی یہ
دیکھ کے انہوں نے گھروں میں داخل ہوکر
دروازے بند کرلئے لیکن وہ ہوا انکےگھروں کو بھی اڑا کے لے گئی یہ ہوا مسلسل سات
رات اور آٹھ دن چلتی رہی اور قوم عاد کا ایک ایک شخص فنا ہوگیا حتی کہ کوئی بچہ
بھی باقی نہ رہا۔ پھر ربّ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیجے جنہوں نے انکی لاشوں کو
سمندر میں پھینک دیا اور یوں رب تعالی کی نافرمان یہ قوم جس کو اپنے زورِبازو پہ
بہت ناز تھا نیست ونابود ہوئی۔
اور حضرت ھود علیہ السلام اپنے ساتھ ان چند لوگوں کو لیکر جو
ایمان لے آئے تھے مکۂ مکرمہ میں سکونت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک وہیں عبادت میں
مصروف رہے۔
جب بھی ارضِ مقدس پر فساد برپا
ہوا، اس کی بنیاد انسان ہی بنا، تخلیقِ آدم سے لے کر آج تک انسانیت مختلف عروج و
زوال سے گزری اور تاریخ میں ایسی قومیں بھی گزری ہیں، جو آنے والے انسانوں کے لئے عبرت بنیں اور رہتی
دنیا تک بطورِ عبرت یاد کی جانے لگیں، انہی قو موں میں سے ایک قوم"قومِ عاد "بھی
تھی۔
قومِ عاد کا تعارف:
قومِ عاد ایک قدیم عربی قوم ہے، یہ قوم حضرت نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی چوتھی
نسبت سے تھی، یہ قوم "عاد بن عاص" کی اولاد تھے اور انہوں نے اپنے قبیلے
کا نام اپنے اجداد کے نام پر رکھا، قومِ
عاد دو ہیں، عادِ اولی۔عادِ ثانیہ، عادِ اولی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی، اور عادِ ثانیہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم
تھی، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ
تھا، قومِ عاد کا ایک اپنا تہذیب و تمدن
تھا، وہ ترقی یافتہ اور خوش خال لوگ تھے، قومِ عاد کے لوگوں کے قد کھجور کے درخت کی طرح
لمبے اور بھاری تھے۔
قرآن پاک کی سورۃ الفجر کی آیت نمبر 6تا8 میں ان
کو یوں بیان کیا گیا ہے،
ترجمہ کنز الایمان:” کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے
عاد کے ساتھ کیسا کیا وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ
ہوا“
قوم عاد پر عذاب:
قومِ عاد ایک سرکش اور نافرمان
قوم تھی، وہ مختلف عقائد کو ماننے والے
تھے، انہوں نے مختلف معبود بنائے ہوئے تھے
اور وہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے، قرآن
مجید میں مختلف مقامات پراس نافرمان قوم کا ذکر آیا ہے، پارہ 8سورۃ
الاعراف کی آیت نمبر 65 میں یوں ذکر کیا گیا ہے،
ترجمۂ کنز
الایمان:"اور عاد کی طرف ان کی
برادری سے ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم
اللہ کی بندگی کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی
وضاحت یوں کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے قومِ
عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ الصلاۃ والسلام کو ان کی طرف
بھیجا اور انہوں نے ان سے فرمایا:اے میری قوم! تم صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا۔
اس پر قوم کے کافر سرداروں نے
جواب دیا کہ"ہم تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں مانتے، ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، حضرت ہود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:اے میری
قوم!بے وقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ عزوجل کے پیغامات پہنچاتا
ہوں، اس پر ان کی قوم جواب دیتی ہے کہ کیا
تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک
اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی
عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے، انہیں
چھوڑ دیں اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
حضرت ہود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:"عذاب
نازل ہونے کا وقت مجھے معلوم نہیں کیونکہ اس کا علم تو صرف اللہ تعالی ہی کو ہے۔"پھر
اللہ تعالی نے ان کی طرف ایک سیاہ بادل چلایا، جس میں ان پر آنے والا عذاب تھا اور جب انہوں نے
اس بادل کو وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ خوش ہو گئے اور کہنے لگے "تو
یہ ہمیں بارش دینے والا بادل ہے"، حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا" کہ یہ برسنے والا بادل نہیں ہے،
بلکہ یہ تو وہ عذاب ہے، جس کی تم جلدی مچا رہے تھے، اس بادل میں ایک آندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے"، اس آندھی کے عذاب نے اس نافرمان قوم کے مرد وں،
عورتوں سب کو ہلاک کر دیا، آندھی نے ان کا نام و نشان مٹا دیا، قومِ عاد نے اپنے پیغمبرِ وقت کے ساتھ بدسلوکی
کی تھی اور گستاخی و سرکشی پر اُتر آئی تھی، اس لئے اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں عذاب کا
مزہ چکھایا اور آخرت کی نعمتوں سے بھی انہیں محروم کردیا اور ہر وہ قوم جو دنیا میں سرکشی کرے گی اس کے لئے
دنیا مین لعنت اور بروزِ قیامت نارِ جہنم ہے۔
اللہ پاک نے قرآن کریم میں اُمّتِ
محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی عبرت اور نصیحت کے لئے سابقہ اُمّتوں کی
نافرمانیوں کو بیان فرمایا ہے، انہیں میں سے ایک قومِ عادبھی ہے۔
قومِ عاد کا تعارف:
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا
نام عاد ہے، یہ ایک قبیلہ ہے اور دراصل یہ
ایک شخص کا نام ہے، جس کی اولاد سے یہ
قبیلہ ہے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:132،
ص826)
قومِ عاد کی نافرمانیوں سے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہوا :
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
ترجمۂ کنز العرفان:"اور یہ عاد ہیں، جنہوں نے اپنے ربّ کی آیتوں کا انکار کیا اور اس
کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش
ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔"(پ12، ہود، 59)
اَلَاۤ
اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:"سن لو! بیشک عاد نے اپنے ربّ کے ساتھ کفر کیا۔(سورہ
ہود، آیت60)
فَاَمَّا عَادٌ
فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا
قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ
قُوَّةً ؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:"تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبرکیا اور انہوں نے کہا: ہم سے زیادہ طاقتور
کون ہے؟ اور کیا انہوں نے اس بات کو نہ دیکھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے،
وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے اور وہ ہماری
آیتوں کا انکار کرتے تھے۔(پ24،حم السجدہ: 15)
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ۔
ترجمۂ کنز العرفان:"ثمود اور عاد نے دلوں کو دہلا دینے والی (قیامت)
کو جھٹلایا۔"(پ29، الحاقۃ، 4)
سورۃ اعراف آیت 65 تا 71 میں ہے:
ترجمۂ کنزالعرفان:"اور قومِ عاد کی طرف ان کے
ہم قوم ہود کو بھیجا، (ہود نے) فرمایا:اے
میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم ڈرتے نہیں؟اس کی قوم کے کافر سردار بولے، بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں
جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں، (ہود نے )فرمایا:
اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور
میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخوا ہ ہوں
اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ
تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی، تا کہ
وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور
تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی
تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو تاکہ تم فلاح
پاؤ، قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا
کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو
تو لے آؤ، وہ (عذاب)جس کی تم ہمیں وعیدیں
سناتے ہو، فرمایا: بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اورغضب لازم ہوگیا، کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے
ہو، جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ
لئے ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اُتاری
تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے
ساتھ انتظار کرتا ہوں۔
جب قومِ عاد نے کسی
طرح حق کو قبول نہ کیا تو ان سے جس عذاب
کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ آ گیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ
اَوْدِیَتِهِمْ ۙ-قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ؕ-بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ
بِهٖ ؕ-رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ ۔
ترجمہ کنزالعرفان:"پھر جب انہوں نے اسے(یعنی عذاب کو) بادل کی صورت میں
پھیلا ہوا اپنی وادیوں کی طرف آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے:یہ ہمیں بارش دینے والا بادل
ہے، ( کہا گیا کہ نہیں) بلکہ یہ تو وہ ہے، جس کی تم نے جلدی مچائی تھی، یہ ایک اندھی ہے، جس میں دردناک عذاب ہے۔"(پ26،الاحقاف:24)
چنانچہ قومِ عاد اس آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے، قرآن کریم میں ہے:
وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ
عَاتِیَةٍۙ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:"اور عاد کے لوگ تو وہ نہایت سخت گرجتی آندھی سے ہلاک
کئے گئے۔"(الحاقۃ، آیت:6)
اللہ پاک ہمیں عبرت حاصل کرنے، اپنی نافرمانی سے بچنے، اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت
و فرمانبرداری میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان
تھا، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص
بن ارم بن سام بن نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ
دیا:
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الصّٰدِقِیْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ، جس کا ہمیں وعدہ
دے رہے ہو اگر سچے ہو۔" ( پ8، الاعراف:70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور
ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترس گئے۔(اغراض جلالین، ص8)
انہوں نے زمین کو فسق سے بھر دیا
تھا اور دنیا کی قوموں کا اپنی جفا کاریوں سے اپنے زورِ قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا، اس زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بلا اور
مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں، اس لئے ان لوگوں نے
ایک وفد مکہ مکرمہ کو روانہ کیا، اس وفد
میں نعیم بن ہزّال اور مرثد بن سعد تھے،
یہ و ہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائیں اور
اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، حرم شریف میں
داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، لوگوں نے مرثد کو
چھوڑ دیا اور خود مکۂ مکرمہ جا کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ، آسمان سے ندا ہوئی کہ کہا کہ اے قیل!اپنے اور اپنی قوم کے لئے ان میں
سے ایک ابر اختیار کر، اس نے سیاہ ابر کو اختیار کیا، بایں خیال سے کہ اس سے پانی برسے گا، مگر اس میں سے ایک ہوا چلی، وہ اس شدّت کی تھی
کہ اونٹوں اور آدمیوں کواُڑا کر کہاں سے کہاں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر
لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو
بھی ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ
پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے اُن کی لاشوں
کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود
مؤمنین کو لے کر جدا ہوگئے تھے ، اس لئے وہ سلامت رہے۔(ترجمۂ کنز العرفان، تفسیر سورۃ الاعراف)
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوداً قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُو
اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْن۔
ترجمۂ کنز الایمان:" اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کوبھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)
قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن
میں ایک ریگستان ہے، قومِ عاد نے زمین کو
فسق سے بھر دیا تھا، یہ لوگ بت پرست تھے، ان کے ایک بت کا نام "صُداء" اور ایک
کا نام" صمود"اور ایک کا نام"ہباء" تھا۔
اللہ تعالی نے ان میں حضرت ہود
علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں
توحید کا حکم دیا، شرک، بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون ہے؟
ان میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود
علیہ السلام پر ایمان لائے، جو بہت تھوڑے
تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے
رکھتے تھے، ان مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام "مرثد بن سعد" تھا،
وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام
کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی
مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالی نے ان پر بارش روک دی۔
تین سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں
دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیت الحرام میں حاضر ہو
کر اللہ تعالی سے اس مصیبت کو دُور کرنے کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ کیا، اس وفد میں تین آدمی تھے، جن میں مرثد بن سعد بھی تھے، یہ وہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر
ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن
بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قو مِ عاد میں
تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالے میں معاویہ بن بکر کے یہاں
مقیم ہوا۔اُس نے لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب
پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے، اس
طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ
بسر کیا۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو را حت میں پڑگئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے۔
اس لئے اس نے گانے والی باندی کو
ایسے اشعاردئیے، جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگون کو یاد
آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے
کے لئے مکہ مکرمہ میں بھیجے گئے ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر
قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عزوجل کی قسم! تمہاری دعا
سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ
تعالی سے توبہ کرو تو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ
مکرمہ جا کر کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین
قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔اس کے ساتھ آسمان سے ندا
ہوئی کہ اے قیل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اس نے اس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس
سے بہت پانی برسے گا، چنانچہ وہ بادل قومِ
عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس سے ایک ہوا چلی، جو
اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا
اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔یہ دیکھ
کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کر لئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں
نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر جدا
ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد وہ
ایمانداروں کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر تک وہیں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان، ص356، 357)
اَلَمْ
یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ
ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ
رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ
كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰)
ترجمۂ کنز الایمان :کیا انہیں اپنے سے اگلوں کی خبر نہ آئی نو ح کی قوم اور عاد
اور ثمود اور ابراہیم کی قوم اور مدین والے اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں ان کے
رسول روشن دلیلیں ان کے پاس لائے تھے تو اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا
بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظالم تھے.
(پ10، التوبہ: 70)
قرآن پاک میں پچھلی قوموں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تاکہ ہم
اس سے نصیحت حاصل کریں.
جن قوموں کی نافرمانیوں کی وجہ سےان پر اللہ پاک کا عذاب نازل
ہوا ان میں سے ایک قوم قوم عاد بھی ہے...
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے
درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔
یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَاء‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک
کا ’’ ہَباء‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم
دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ
کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند
آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت
تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔ اُن مؤمنین میں سے
ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے ۔جب قوم نے سرکشی کی
اور اپنے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی
اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ
ہوئی۔
(تفسیر صراط الجنان جلد 3 صفحہ356)
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜجَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی
نافرمانی کی اور ہر بڑےسرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔(پ12،ہود:59)
قوم عاد اپنی نافرمانیوں کے باعث لعنت کے حقدار ہوئے جیسا کہ
سورہ ہود آیت 60 ميں ہے...
وَ
اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ-اَلَاۤ
اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠
ترجمۂ کنز الایمان:اور
ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لوبیشک عاد اپنے رب سے منکر
ہوئے ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔(پ12،ھود،60)
تفسیر صراط الجنان میں ہے
یعنی دنیا اور
آخرت دونوں جگہ لعنت ان کے ساتھ ہے اورلعنت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب
بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کیا
اس لئے ان کا اتنا برا انجام ہوا، سن لو! حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد کے لئے رحمتِ الٰہی سے دوری
ہے۔
( تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۰ ، ۶ / ۳۶۷ )
قوم عاد اپنے نبی کی گستاخ اور اپنے نبی کی تکذیب کرنے والی
تھی انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام کی نصیحتوں کو نہ مانا زمین میں فسادکیا اپنی
طاقت کے نشے میں مست رہے اونچی اونچی عمارتیں تعمیر لیں لیکن کوئی طاقت کوئی اونچی
عمارت ان کو اللہ پاک کے عذاب سے نہ بچا سکی..
چند ایک کے سوا اکثریت ایمان نہ لائی چنانچہ ان کو عذاب کے
ذریعے ہلاک کر دیا گیا اور ایمان والوں کو بچا لیا گیا
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا ۚ-وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے ہود اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو
اپنی رحمت فرما کر بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔(پ12،ہود:58)
تفسیر صراط
الجنان میں اس کے تحت فرمایا گیا کہ جب
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالیٰ کی بارگاہ سے
ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا، جب ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے
والوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی اپنی رحمت کے ساتھ عذاب سے بچا لیا اور قومِ
عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں پر رحمت اس طرح ہے کہ جب عذاب نازل
ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں
کو اس سے محفوظ رکھا اور ارشاد فرمایا کہ جیسے مسلمانوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا
ایسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کے سخت عذاب سے بھی نجات دے گا۔ ( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۸ ، ۲ / ۳۵۸ ، ملخصاً )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نیک اعمال نجات کا ذریعہ اور سبب ہیں
لیکن در حقیقت نجات صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمتوں سے وافر حصہ عطا فرمائے... آمین.
اللہ عزوجل نے ہر قوم کی ہدایت و
رہنمائی کے لئے نبیوں کو مبعوث فرمایا اور قومِ عاد کی رہنمائی کے لئے حضرت ہود
علیہ السلام بھیجے گئے۔
حضرت ہود علیہ
السلام کا تعلق:
حضرت ہود علیہ السلام عادبن اوس بن سام کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، سب سے پہلے عربی زبان میں کلام کرنے والے بھی
حضرت ہود علیہ السلام ہی تھے۔(قصص الانبیاء)
اللہ عزوجل قرآن مجید، فرقانِ حمید کی سورہ اعراف کی آیت نمبر 65 میں
ارشاد فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا، کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں
ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم
سے فرمایا:"میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ جن کو تم خدا کا شریک بناتے
ہو، میں ان سے بیزار ہوں، جن کی تم خدا کے علاوہ عبادت کرتے ہو، تو تم سب مل کر میرے بارے میں جو تدبیر کرنی چاہو
کر لو، میں خدا پر جو میرا اور تمہارا
پروردگار ہے، بھروسہ رکھتا ہوں۔"
یہ وہی عاد ہے، جنہوں نے خدا کی نشانیوں کا انکار کیا اور ہر
متکبر کی بات مانی، تو اس کے نتیجے میں
دنیا میں اور قیامت کے دن دونوں جگہ وہ ملعون کئے گئے۔
قومِ عاد کا مرنے کے بعد دوبارہ
زندہ ہونے کو جھٹلاتے ہوئے جواب:
قوم عاد نے آخرت کو بعید از قیاس
قرار دیا اور اجسام کے مٹی اور دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں انکار کرتے ہوئے کہا:"
لوگ پیدا ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں، اسی
طرح یہ سلسلہ چل رہا ہے۔" یہ بے دین اور جاہل لوگوں کا عقیدہ رکھتے ہوئے کہا
کہ"انسان ماؤں کے پیٹوں سے پیدا ہو رہے ہیں اور آخرکار زمین انہیں نگل جاتی
ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔"
جب کہ اللہ عزوجل قرآن پاک میں
سورہ اعراف کی آیت نمبر 25 میں فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اسی میں جیو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے
اٹھائے جاؤ گے۔"
عذاباتِ الہی:
قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب
اللہ عزوجل نے اس کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے اپنا عذاب نازل فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الذٰریات کی آیت
نمبر 41 تا 42 میں یوں فرمایا گیا: ترجمۂ
کنزالایمان:"اور عاد میں(بھی نشانی ہے) جب ہم نے ان پر خشک آندھی
بھیجی، وہ جس چیز پر گزرتی تھی، اسے گلی ہوئی چیز کی طرح کر چھوڑتی۔"
اللہ تعالی نے قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب شدید
آندھی/ہوا کی صورت میں عذاب نازل فرما کر دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی مقدر کی۔الامان
و الحفیظ ۔ہم اللہ عزوجل سے ایمان و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، ان کے مورثِ اعلي کا نام عاد بن عوص ہے، پوری قوم کو لوگ ان کے مورثِ اعلیٰ عاد کے نام
سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست ، بد اعمال اور بدکردار تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان
لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم
نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا، بلکہ اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی کے ساتھ
اپنے نبی سے کہہ دیا، جیساکہ قرآنِ پاک
میں ارشادِ خداوندی ہے۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
نافرمانی پر سزا:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہوئیں، تین سال تک بارش نہ ہوئی، اس قوم
کے مرثد بن سعد جو مؤمن تھے اور کچھ دوسرے
لوگ کعبہ معظمہ گئے تا کہ وہاں جا کر عرف کے مطابق دعائیں مانگیں، جب انہوں نے
دعائیں مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا
ایمانی جذبہ بیدار ہوگیا اور کہا: اے میری قوم!تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر اللہ عزوجل
کی قسم تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو۔
انہوں نے انہیں جھٹلا کر مکہ معظمہ جا کر دعائیں مانگیں، اللہ تعالی نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سر خ اور ایک سیاہ، اس کے ساتھ ندا ہوئی کہ ان میں سے ایک بدلی کو
پسند کر لو، ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا، چنانچہ وہ ابران کی وادیوں کی طرف چلا، وہ دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے پھر سمجھانے کی کوشش کی، مگر قوم نے جھٹلا دیا اور اپنی نافرمانی اور
سرکشی میں بھٹکتے رہے، یہ بادل برابر بڑھتا رہا، حتٰی کہ قومِ عاد کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، یہ آندھی کی صورت اختیار
کر گیا تھا، جو سات رات اور آٹھ دن تک
مسلسل چلتی رہی، جب آندھی ختم ہوئی تو کالے پرندوں کے غول نے لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام نے باقی زندگی مکہ مکرمہ
میں گزاری۔(عجائب القرآن، 105۔103)
اللہ عزوجل کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کے دور کی ایک قوم تھی
جس کا نام قوم عاد تھا جو کہ بت پرست کیا کرتی تھی اللہ عزوجل نے حضرت ہود علیہ
السلام کو ا ن کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے
باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا!(کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو
کہ ہم ایک اللہ کو پوجيں اور جو ہمارے باپ
دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو
تو)آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں 3 سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورا ہو
گیا یہاں تک کی لوگ اناز کے دانے کو ترس گئے اس زمانے کا یہ دستور تھا کی جب کوئی
بلا اور مصیبت آتی تھی تو مکہ معظّمہ جاکر دعائیں مانگتے تھے تو بلائیں ٹل جاتی
تھی اس جماعت میں مرثد بن سعد نام ایک شخص تھا جو مومن تھا مگر اپنے ایمان کو اس
قوم سے چھپائے ہوئے تھا جب یہ لوگ دعائیں مانگنے کعبہ معظّمہ گئے تو مرثد بن سعد
کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر کہا کہ تم لاکھ دعائیں مانگ لو لیکن
اس وقت تک پانی نہیں برسے گا جب تک تم اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ
لاؤگے لیکن وہ قوم نہ مانی حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کر دیا تو قوم
عاد نے انہیں مار پیٹ کرکے الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے اس وقت اللہ تعالی نے
تین بدلیاں بھیجیں ۔ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ اور آسمان سے ایک اواز آئی کے اے قوم قوم عاد !تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین
بدلیوں میں سے کوئی ایک بدلی پسند کرلو ان لوگوں نے یہ گمان کرکے کی کالی بدلی
زیادہ بارش کریگی کالی بدلی کو پسند کرلیا چنانچہ وہ ابرسیاہ قوم عاد کی آبادیوں
کی طرف چل دی یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگ بہت خوش ہوئے ۔۔۔حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا کہ اے میری قوم ! دیکھ لو عذابِ الہٰی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا
ہے لیکن اس قوم نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا کہ کہاں کا عذاب اور کونسا عذاب ؟یہ
تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔یہ بادل پچّھم کی طرف سے آبادیوں کی
طرف برابربڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس
میں سےایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کی اونٹوں کومع ان کے سواروں کے اڑا کر کہیں
سے کہیں پھینک دیتی تھی پھر اتنی زوردار ہوئی کہ درختوں کو جڑوں سے اکھاڑکرلے گئی
یہ دیکھ کر قوم عاد نے اپنے سنگین محلوں
میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازہ کو اکھاڑ لےگئے
بلکے پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سات رات اور آٹھ دن
مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک ایک آدمی مرکر فنا ہو گیا۔اور
اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا!
درس ھدایت۔۔۔قرآن کریم کے اس وقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کی قوم
عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اللہ عزوجل کی نافرمانی کے سبب کس طرح برباد
ہوگئی کی ان کی قبروں کا بھی کہیں نشان باقی نہ رہا۔اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے انہیں لازم ہے کہ اللہ و رسول عزوجل ﷺ کی نا
فرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتا رہے!
(عَجَائبُ القُرآن مع غرائب القرآن )
قوم عاداورمورث اعلی
قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو
عمان اور حضرموت کے درميان ایک بڑا ریگستان تھاان کے مورث اعلی کانام عادبن عوض بن
ارم بن سام بن نوح ہےپوری قوم کے لوگ ان کو مورث اعلی عادکے نام سے پکارنے لگے
قوم عاد کے کارنامے
قوم عاد بڑی طاقتور قدآور قوم تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی
نہایت مستحکم تھی کیونکہ ان کے پاس لہلہاتے باغات تھے ان لوگوں نے پہاڑ تراش تراش
کر سردیوں اور گرمیوں کے الگ الگ محلات بنائے ان لوگوں کو اپنے تمول سامان عیش
عشرت پر بڑا ناز تھا
یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال لوگ تھے اللہﷻنے حضرت ہود علیہ
السلام کو ان لوگوں کی طرف ہدایت کے لئے بھیجا انہوں نے تکبر کی وجہ سے حضرت ہود
علیہ السلام کوجھٹلایا آپ علیہ السلام انہیں عذاب الہی سے ڈراتے مگر شریر قوم نے
بےباکی کے ساتھ یہ کہہ دیا
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس
اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں
چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو
اگر سچے ہو۔"(پ8، اعراف: 70)
عذاب الہی کی جھلکیاں
عذاب الہی کی جھلکیاں شروع
ہوئیں تین سال تک بارش نہیں ہوئی قحط سالی ہوئی لوگ اناج کو ترسے ان کے زمانے کا
دستور تھا جب کوئی مصیبت آتی لوگ مکہ معظمہ جاکر دعا مانگتے ایک جماعت مکہ معظمہ
گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص تھا جو مومن تھا مگر ایمان قوم سے
چھپاے ہوے تھا جب جماعت نے کعبہ شریف میں دعا مانگنی شروع کی مرثد کا ایمان جوش
میں آیا اور کہا "اے میری قوم تم لاکھ دعا مانگو مگر خدا کی قسم اس وقت تک
بارش نہیں برسے گی جب تک ہود علیہ السلام
پر ایمان نہیں لاؤ گے یہ سن کر قوم کے
شریروں نے انہیں مار پیٹ کر الگ کردیا
تین بدلیاں
اس وقت اللہﷻ نے تین بدلیاں بھیجیں سفید سرخ اور سیاہ آسمان سے
آواز آئی قوم عاد تین بدلیوں میں سے ایک
پسند کرلو
ان لوگوں نے خوب بارش کی لگن کے لئے سیاہ بدلی کو پسند کر لیا
ابر سیاہ قوم عاد کی وادیوں کی طرف چل پڑا حضرت ہود علیہ اسلام نے فرمایا "اے
میری قوم دیکھ لو عذاب الہی ابر کی صورت میں تمہاری جانب بڑھ رہا ہے
قوم کے سرکشوں نے کہا کونسا عذاب ھٰذَاعَارِض
مُمْطِرُنَا(پ26، احقاف: 24)
یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے آرہا ہے (روح البیان ج 3ص187تا189 پ8 سورۂ
اعراف)
عذاب اللہ
ابر سیاہ سے ایک دم اندھی آئی جو اتنی شدید تھی کے انکے اونٹوں
کو مع سوار کہی سے کہی پھنک دیتی یہ دیکھ
کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں کے دروازے بند کر لئے مگر آندھی کے جھوکے
نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارت کو جھنجھوڑ کران کی اینٹ سے
اینٹ بجادی سات رات آٹھ دن تک اندھی چلتی
رہی حتی کے قوم عاد کا ایک بچہ باقی نھی رہا
عذابِ الہی کے بعد
پھر قدرت سےکالے رنگ کےپرندوں کا ایک غول نمودار ہوا جنہوں نے
ان کے لاشوں کو اٹھاکر سمندر میں پھنک دیا حضرت ہود علیہ السلام نےاس بستی کو چھوڑ
دیا جب مومنین ایمان لے آئے تو انہیں ساتھ مکۂ مکرمہ لے چلے آئے اور آخر زندگی تک
بیت اللہ میں عبادت کرتے رہے ۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
)
قوم ِعاد حضرت ہود علیہ السلام کی
قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے، اللہ
تعالی نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا، حضرت
ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، سردار بولے:"ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے
ہیں اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت کے دعوٰی میں سچا ہی نہیں جانتے
۔" کفار کا حضرت ہود علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام"کہ تمہیں
بے وقوف سمجھتے ہیں، جھوٹا گمان کرتے ہیں"،
انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور
وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین
جواب دیا جاتا، مگر حضرت ہود علیہ السلام
نے اپنے اخلاق و آداب اور شانِ حلم سے جو
جواب دیا، اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی
فرمائی، چنانچہ فرمایا:"اے میری قوم!بے
وقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں
تو ربّ العالمین عزوجل کا رسول ہوں، میں تو
تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیر خواہ ہوں
اور کیا تمہیں اس بات کا تعجب ہے کہ تمہارے پاس ربّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک
مرد کے ذریعےآتی تا کہ وہ تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، اللہ کا یہ احسان یاد کرو
کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے
نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں
دوسروں سے ممتاز بنا یا، تو اللہ کے
احسانات یاد کرو، اس پر ایمان لاؤ اور
اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔"
حضرت ہود علیہ السلام چونکہ اسی
قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس
وحی آتی تو قوم کے پاس آ کر سنا دیتے، اس
وقت قوم یہ جواب دیتی کہ ہم اللہ کی عبادت کریں؟ اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ
دادا کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ، جن کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:"بے شک تم
پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔"اللہ تعالیٰ نے قوم کو ہلاک
کردیا۔
ارشاد فرمایا:"کہ ہم نے قوم
کو سمجھانے کے لئے مثالیں بیان فرمائیں، ان پر حجتیں قائم کیں اور ان میں سے کسی کو ڈر
سنائے بغیر ہلاک نہ کیا اور جب انہوں نے انبیائے کرام علیھم السلام کو جھٹلایا، تو ہم نے سب کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔(جلالین، الفرقان، تحت الآیۃ 39، صفحہ 306)
قومِ عاد کون تھی
اور کہاں رہتی تھی:
قومِ عاد مقامِ "احقاف" میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان
ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے، یہ
لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ
دیا کہ
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الصّٰدِقِیْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ، جس کا ہمیں وعدہ
دے رہے ہو اگر سچے ہو۔" ( پارہ 8، الاعراف:70)
عذابِ الہی کی جھلکیاں:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور
ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو
ترس گئے، اس زمانے کا دستور تھا کہ جب
کوئی بلا اور مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جاکر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتے تھے، تو بلائیں ٹل جاتی تھیں۔
چنانچہ ایک جماعت مکۂ معظمہ گئی، اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک
شخص بھی تھا، جو مؤمن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں دعا مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر
کہا کہ اے میری قوم! تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر خدا کی قسم!اس وقت تک پانی
نہیں بر سے گا، جب تک تم اپنے نبی حضرت
ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، حضرت
مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے ان کو مار پیٹ
کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے
لگے، اس وقت اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ
اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم
کے لئے ان تین بدلیوں میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"
ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ
اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی
طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:" کہ اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں
تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"
مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی
کو جھٹلادیا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"یہ تو بادل ہے، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"( پ8،
الاعراف:70، روح البیان، ج3، ص187 تا 189)
یہ بادل پچھم کی طرف سےآبادیوں کی
طرف برابر بڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی، جو اتنی شدید تھی
کہ اونٹوں کو مع سو ار کے اُڑا کر کہیں
سےکہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار
ہوگئی کہ درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑ کر اُڑا لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین
محلوں میں داخل ہوکر دروازوں کو بند کر لیا، مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کواُکھاڑ کر لے گئے، بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم کا ایک بچہ
بھی باقی نہ رہا، جب آندھی ختم ہوئی تو اس
قوم کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی
تھیں، جس طرح کھجوروں کے درخت اُ کھڑاکر زمین پر پڑے ہوں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے،
وَ
اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ
سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا
صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ ۚ فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ۔
ترجمۂ
کنزالایمان:"اور رہے عادوہ ہلاک کئے گئے، نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگا دی، سات راتیں اور آٹھ
دن لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں دیکھو بچھڑے ہوئے، گویا وہ کھجور کے ڈنڈ(سوکھے تنے)ہیں گرے ہوئے
تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے
ہو۔"(پارہ 29، الحاقۃ:6 تا 8)
پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے
پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے
ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی
کو چھوڑ دیا اور چند مؤمنین کو جو ایمان لائے تھے، ساتھ لے کر مکۂ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی
تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔(تفسیر الصاوی، ج2، ص686، پ8، الاعراف:70)
درسِ ہدایت:
پیاری پیاری اسلامی بہنو!قرآن
کریم کے اس دردناک واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ "قومِ عاد"جو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی، ان لوگوں کی مالی خوشخالی بھی نہایت مستحکم
تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھور کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے؟ کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں
کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ اللہ و
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالح اور نیکیاں کرتے رہئے، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ
کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر
آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی۔قرآن مجید میں پڑھ لو کہ
وَالْمُؤتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔یعنی"بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد
اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک و برباد کر دی گئیں۔"(پ29، الحاقۃ:9)
اور دوسری آیت میں یہ بھی پڑھ لو
کہ
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ
اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ
لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کئے پر گرفتار کیا۔"(پ9،
الاعراف:96)اللہ پاک ہمیں نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین