اللہ عزوجل کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کے دور کی ایک قوم تھی
جس کا نام قوم عاد تھا جو کہ بت پرست کیا کرتی تھی اللہ عزوجل نے حضرت ہود علیہ
السلام کو ا ن کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے
حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے حضرت ہود علیہ السلام
بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے
باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا!(کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو
کہ ہم ایک اللہ کو پوجيں اور جو ہمارے باپ
دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو
تو)آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں 3 سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورا ہو
گیا یہاں تک کی لوگ اناز کے دانے کو ترس گئے اس زمانے کا یہ دستور تھا کی جب کوئی
بلا اور مصیبت آتی تھی تو مکہ معظّمہ جاکر دعائیں مانگتے تھے تو بلائیں ٹل جاتی
تھی اس جماعت میں مرثد بن سعد نام ایک شخص تھا جو مومن تھا مگر اپنے ایمان کو اس
قوم سے چھپائے ہوئے تھا جب یہ لوگ دعائیں مانگنے کعبہ معظّمہ گئے تو مرثد بن سعد
کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا اور اس نے تڑپ کر کہا کہ تم لاکھ دعائیں مانگ لو لیکن
اس وقت تک پانی نہیں برسے گا جب تک تم اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ
لاؤگے لیکن وہ قوم نہ مانی حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کر دیا تو قوم
عاد نے انہیں مار پیٹ کرکے الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے اس وقت اللہ تعالی نے
تین بدلیاں بھیجیں ۔ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ اور آسمان سے ایک اواز آئی کے اے قوم قوم عاد !تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین
بدلیوں میں سے کوئی ایک بدلی پسند کرلو ان لوگوں نے یہ گمان کرکے کی کالی بدلی
زیادہ بارش کریگی کالی بدلی کو پسند کرلیا چنانچہ وہ ابرسیاہ قوم عاد کی آبادیوں
کی طرف چل دی یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگ بہت خوش ہوئے ۔۔۔حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا کہ اے میری قوم ! دیکھ لو عذابِ الہٰی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا
ہے لیکن اس قوم نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا کہ کہاں کا عذاب اور کونسا عذاب ؟یہ
تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔یہ بادل پچّھم کی طرف سے آبادیوں کی
طرف برابربڑھتا رہا اور ایک دم ناگہاں اس
میں سےایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کی اونٹوں کومع ان کے سواروں کے اڑا کر کہیں
سے کہیں پھینک دیتی تھی پھر اتنی زوردار ہوئی کہ درختوں کو جڑوں سے اکھاڑکرلے گئی
یہ دیکھ کر قوم عاد نے اپنے سنگین محلوں
میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازہ کو اکھاڑ لےگئے
بلکے پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سات رات اور آٹھ دن
مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک ایک آدمی مرکر فنا ہو گیا۔اور
اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا!
درس ھدایت۔۔۔قرآن کریم کے اس وقعہ سے ہمیں سبق ملتا ہے کی قوم
عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اللہ عزوجل کی نافرمانی کے سبب کس طرح برباد
ہوگئی کی ان کی قبروں کا بھی کہیں نشان باقی نہ رہا۔اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے انہیں لازم ہے کہ اللہ و رسول عزوجل ﷺ کی نا
فرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتا رہے!
(عَجَائبُ القُرآن مع غرائب القرآن )