قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
2 years ago

وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوداً قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُو اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اَفَلَا تَتَّقُوْن۔

ترجمۂ کنز الایمان:" اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کوبھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8، اعراف: 65)

قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے، قومِ عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا، یہ لوگ بت پرست تھے، ان کے ایک بت کا نام "صُداء" اور ایک کا نام" صمود"اور ایک کا نام"ہباء" تھا۔

اللہ تعالی نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک، بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون ہے؟

ان میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے، جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے، ان مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام "مرثد بن سعد" تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالی نے ان پر بارش روک دی۔

تین سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیت الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالی سے اس مصیبت کو دُور کرنے کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ کیا، اس وفد میں تین آدمی تھے، جن میں مرثد بن سعد بھی تھے، یہ وہی صاحب ہیں، جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قو مِ عاد میں تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالے میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔اُس نے لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے، اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو را حت میں پڑگئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے۔

اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعاردئیے، جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگون کو یاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں بھیجے گئے ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عزوجل کی قسم! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ تعالی سے توبہ کرو تو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر کر دعا کی، اللہ تعالی نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قیل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اس نے اس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا، چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس سے ایک ہوا چلی، جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کر لئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر جدا ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد وہ ایمانداروں کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر تک وہیں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان، ص356، 357)