قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، ان کے مورثِ اعلي کا نام عاد بن عوص ہے، پوری قوم کو لوگ ان کے مورثِ اعلیٰ عاد کے نام
سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست ، بد اعمال اور بدکردار تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان
لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم
نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا، بلکہ اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی کے ساتھ
اپنے نبی سے کہہ دیا، جیساکہ قرآنِ پاک
میں ارشادِ خداوندی ہے۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
نافرمانی پر سزا:
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہوئیں، تین سال تک بارش نہ ہوئی، اس قوم
کے مرثد بن سعد جو مؤمن تھے اور کچھ دوسرے
لوگ کعبہ معظمہ گئے تا کہ وہاں جا کر عرف کے مطابق دعائیں مانگیں، جب انہوں نے
دعائیں مانگنی شروع کی، تو مرثد بن سعد کا
ایمانی جذبہ بیدار ہوگیا اور کہا: اے میری قوم!تم لاکھ دعائیں مانگو، مگر اللہ عزوجل
کی قسم تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو۔
انہوں نے انہیں جھٹلا کر مکہ معظمہ جا کر دعائیں مانگیں، اللہ تعالی نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سر خ اور ایک سیاہ، اس کے ساتھ ندا ہوئی کہ ان میں سے ایک بدلی کو
پسند کر لو، ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا، چنانچہ وہ ابران کی وادیوں کی طرف چلا، وہ دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے پھر سمجھانے کی کوشش کی، مگر قوم نے جھٹلا دیا اور اپنی نافرمانی اور
سرکشی میں بھٹکتے رہے، یہ بادل برابر بڑھتا رہا، حتٰی کہ قومِ عاد کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا، یہ آندھی کی صورت اختیار
کر گیا تھا، جو سات رات اور آٹھ دن تک
مسلسل چلتی رہی، جب آندھی ختم ہوئی تو کالے پرندوں کے غول نے لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام نے باقی زندگی مکہ مکرمہ
میں گزاری۔(عجائب القرآن، 105۔103)