قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
2 years ago

 قوم عاد کا مختصر تعارف

قوم عاد کا تذکرہ قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں موجود ہے۔ تفصیلی تذکرہ سورۀ ھود اور سورۀ اعراف میں جبکہ اجمالی تذکرہ سورۀ فجر ، سورۀ قمر اور سورۀ قآف اور دیگر سورتوں میں ھے۔ جہاں جہاں انکا اجمالی تذکرہ آتا ھے وہاں مفسرینِ کرام قوم عاد سے مراد دو طرح کی قومیں لیتے ہیں:

۱. قومِ عادِ اولیٰ

۲. قومِ عادِ ثانیہ

قوم عاد اولیٰ سے مراد حضرت ھود علیہ السلام کی قوم ہے جبکہ عادِ ثانیہ سے مراد حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ھے جو کہ قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہے ۔ ان دونوں قوموں کے درمیان ۱۰۰ سال کا تقریباً فاصلہ ہے۔ ہم یہاں قوم عاد اولیٰ جو کہ اللہ کے پیغمبر ھود علیہ السلام کی قوم ہے کے بارے میں جانیں گے۔

قوم عاد کا جدّامجد "عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح" ھے اور یہ قوم اپنے مورِث اعلیٰ کے نام سے مشہور ہیں۔ مقامِ احقاف جو کہ یمن کے شہر عمّان و حضر موت کے درمیان ہے میں آباد تھے یہ لوگ طاقت و قوت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اسی بناء پہ سرکش و متکبّر تھے نیز بداعمال و بدکردار تھے۔ ربّ تعالیٰ نے انکی ھدایت کیلئے ھود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا مگر اس قوم نے ان سے بھے سرکشی کی۔ آئیے اس قوم کی بداعمالیوں کا مختصر طور پہ جائزہ لیتے ہیں:

۱۔ قوم عاد نے ربّ تعالیٰ کے ایک ہونے کو جھٹلایا اور آیات الٰہیہ کی تکذیب کی۔

۲۔قومِ عاد نے اپنے نبی ھود علیہ السلام کی تکذیب کی اور ان سے استہزاء کیا۔

۳۔قومِ عاد نے تکبر کیا۔

قوم عاد کا ربّ تعالیٰ اور آیات الٰہیہ کو جھٹلانا :

قوم عاد بتوں کے پجاری تھے ان کے بتوں کے نام یہ ہیں:

1. صداء 2. صمود 3.ھباء

قرآنِ کریم میں ان کی بت پرستی اور اس سے منع کرنے کے باوجود شرك پہ اڑے رہنے کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں موجود ھے:

ترجمہ کنزالایمان: اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب اس نے سرزمیں احقاف میں انہیں ڈرایا اور بیشک اس سے پہلے ڈر سنانے والے گزر چکےاور اسکے بعد آئے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو بیشک مجھے تم پہ بڑے دن کے عذاب کا خوف ھے۔ بولے کیا اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ تو ہم پہ لے آؤ جسکا ہمیں وعدہ دیتے ھو اگر تم سچّے ہو۔(پارہ 26 سورہ احقاف آیت نمبر 21)

قوم عاد جو کہ بتوں کی پجاری اور رب تعالیٰ کو ایک ماننے سے انکاری تھی کو جب ھود علیہ السلام نے تو حید کی دعوت دی تو انہوں نے نہ مانا اور کفر پہ اڑے رہے بلکہ عذاب الٰھی کو بھی ہلکا جانا اور وعیدِ الٰھی کو طلب کر بیٹھے، جو کہ بذات خود بہت عظیم گناہ ہے ۔

قومِ عاد کا ھود علیہ السلام *کو جھٹلانا اور استہزاء

حضرت ھود علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے قومِ عاد کی اصلاح وتبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا اور آپ انکے ہم قوم تھے لیکن جب آپ نے انہیں تبلیغِ دین فرمائی تو معاذ اللہ قومِ عاد آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سفاھت منسوب کرنے لگی۔ جسکا ذکر ربّ تعالی نے قرآنِ مجید پارہ 8 سورۀ اعراف میں یوں فرمایا ہے :

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ

ترجمۂ کنزالایمان:" اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (پ8،اعراف:66)

قوم عاد نے اپنے نپی کی شان میں گستاخی کی اور معاذالله نبی کی عقل کو کمتر جانتے ہوئے انکی طرف سفاہت کی نسبت کی حالانکہ ایک نبی کی عقل تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ ہے اور اپنے نبی کی تعظیم فرض ہے اور انکی تعظیم و تکریم میں کمی تمام انبیا و مرسلین کی تکذیب و توہین ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

کَذَّبَتْ عَادُ نِ الْمُرْسَلِیْنَ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: اور عاد نے جھٹلایا رسولوں کو۔

مفسرین کرام اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

مراد یہ ہے کہ اپنے نبی کا مُکذِّب تمام۔انبیأ و مرسلین علیھم السلام کا مُکذِّب و گستاخ ہے۔

معلوم ہوا انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی گستاخی موجبِ غضبِ الٰہی ہے چنانچہ رب تعالی اور اسکی آیتوں کو جھٹلانے اور ھود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کے سبب ھود علیہ السلام نے انہیں عذابِ الہٰی کی وعید سنائی اور فرمایا:

قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٍ ؕ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْاھَا أَنْتُمْ وَآبَاءُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِھَامِنْ سُلْطٰنٍ ؕ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب پڑ گیا کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑرہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔(پ8،اعراف:71)

قوم عاد نے تکبر کیا :

قوم عاد کو ربّ کریم نے نہایت قوی الجثہ تخلیق فرمایا تھا اور انہیں بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی اور یہ پتھروں سے شہر تعمیر کرتے اور اس میں رہتے۔ اللہ عزوجل ان کے طولِ قامت ہونے کا تذکرہ پارہ30 سورہ فجر میں فرماتا ہے:

اِرَمَ ذَاتِ الْعَمَادِ ۝الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ (پ30،الفجر: 7،8)

تفسیرجلالین میں ہے :

ان کے قد کی طوالت 400 گز تھی۔اور مفسرین کرام کے ایک قول کے مطابق ان کے تعمیر کردہ شہروں کی تعداد 700 تھی۔

نیز رب تعالی نے انہیں بہتے چشموں اور باغوں سے بھی نوازا تھا جس کا ذکر سورۂ شعراء پارہ 19 میں یوں ہے:

اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ ۝ وَجَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ ۝

ترجمۂ کنزالایمان:تمہاری مدد کی چوپایوں اوربیٹوں اور باغوں اور چشموں سے۔

(پ19، الشعراء: 133،134)

لیکن اس سب پہ شکرالٰہی کے بجائے یہ تکبر کرتے اور لوگوں کو ستاتے۔

ان کے تکبر اور سرکشی کا تذکرہ اس طرح قرآن مجید کی سورۂ شعرآء کی آیت نمبر 128 تا131 میں اس طرح ہے:

اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ ۝ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ ۝ وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ ۝فَاتَّقُواللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ ۝

ترجمۂ کنز الایمان: کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو راہ گیروں سے ہنسنے کواور مضبوط محل چنتے ہو اس اُمید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے اور جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہوتو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

مفسرین فرماتے ہیں:قوم عاد بلند مقامات پہ عمارتیں وغیرہ بناتے اور وہاں سے راہگیروں کو ستاتے اور اپنے محل پتھروں سے مضبوط بناتے اکثر پہاڑ کی گھاٹیوں میں ایسے گھر بناتے جنکے درمیان پانی کا حوض بھی قائم کرتے اور سمجھتے کہ دنیا ک زندگی ہی سب کچھ ہے اور بہت ظالم تھے کہ کمزوروں پہ ظلم ڈھاتے اور معاملات میں ان پہ گرفت مضبوط رکھتے۔

حضرت ھود علیہ السلام نے کئی سال تک قوم عاد کو تبلیغِ دین فرمائی اور انہیں ان کی بد اعمالیوں سے باز رہتے ہوئے عذابِ الہٰی کی وعید فرماتے رہے لیکن بجائے اس کے کہ یہ قوم دعوت دین قبول کر کے اللہ عزوجل کی توحید کا اقرار کرتی ھود علیہ السلام کی رسالت کو مانتے اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر بجا لاتی وہ اپنے شرك و کفر پہ قائم رہی سوائے چند ایک کہ کوئی ایمان نہیں لایا بلکہ عذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے رہے ۔ تووہ عذاب جس کا انہیں وعدہ دیا جارہا تھا اور وہ سرکشی کرتے ہوئے طلب کر رہے تھے کی جھلکیاں کی شروع ہوگئیں۔

عذاب الہٰی کی جھلکیاں :

تین سال تک بالکل بارش نہ ہوئی اور قومِ عاد اناج کے دانے دانے کو ترس گئی اور ہر طرف قحط سالی کا دوردورہ ہو گیا ۔ بجائے اس کے کہ قوم عاد اس سے عبرت حاصل کرتی انہوں نے ایک وفد جو کہ تین افراد پہ مشتمل تھا خانۂ کعبہ کی جانب بھیج دیا کہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جب کوئی مصیبت آتی تو خانۂ کعبہ جا کر مصیبت کی ردّ کی دعا کرتے ۔ مکہ مکرمہ میں ان دنوں قوم عمالیق آباد تھی انکا سردار معاویہ بن ابو بکر نامی شخص تھا جسکا ننھیال قوم عاد میں تھے یہ وفد اسی کے ہاں ٹھہرا اور معاویہ بن ابوبکر نے خاطر خواہ مدارت کی یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کے ناچ دیکھتے ایک ماہ اسی لہو لعب میں گزار دیا معاویہ بن ابو بکر کو خیال آیا یہ کس مقصد کیلئے یہاں آئے تھے اور اب قوم کو بھولے بیٹھے ہیں خود سے یاد دلاتا ہوں تو یہ ہوگا کہ مہمان نوازی گراں ہے چنانچہ اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دئیے جس میں قوم عاد کی مصیبت تذکرہ تھا تو جب باندی نے ان اشعار سے یاد دلایا تو انہیں اپنا مقصدِ آمد یاد آیا اور خانۂ کعبہ کی جانب دعا کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان میں ایک صاحب مرثد بن سعد نامی تھے جو ایمان لاچکے تھے اور ایمان خفیہ رکھا تھا بول اٹھے: اللّٰه کی قسم ! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا مگر یہ کہ تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ سے توبہ کرو انہوں نے مرثد بن سعد کو وہیں چھوڑا اور خود دعا کیلئے روانہ ہوئے۔

عذابِ الہٰی کا نزول :

ان لوگوں نے خانۂ کعبہ جا کر دعا کی رّب تعالیٰ نے تین بادل بھیجے سرخ،سفید،سیاہ کہ جس کو چاہے اپنی قوم کیلئے پسند کرلو۔ انہوں نے ابرِسیاہ کو پسند کیا کہ خوب پانی برسے گا جب یہ ابر قوم کی طرف بڑھا تو بہت خوش ہوئے کہ خوب پانی ملے گا یہ بادل پچّھم کی طرف سے بڑھا لیکن اس میں سخت آندھی تھی جو کہیں سے کہیں اڑا کے آدمیوں کو لے جاتی تھی یہ دیکھ کے انہوں نے گھروں میں داخل ہوکر دروازے بند کرلئے لیکن وہ ہوا انکےگھروں کو بھی اڑا کے لے گئی یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی اور قوم عاد کا ایک ایک شخص فنا ہوگیا حتی کہ کوئی بچہ بھی باقی نہ رہا۔ پھر ربّ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیجے جنہوں نے انکی لاشوں کو سمندر میں پھینک دیا اور یوں رب تعالی کی نافرمان یہ قوم جس کو اپنے زورِبازو پہ بہت ناز تھا نیست ونابود ہوئی۔

اور حضرت ھود علیہ السلام اپنے ساتھ ان چند لوگوں کو لیکر جو ایمان لے آئے تھے مکۂ مکرمہ میں سکونت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک وہیں عبادت میں مصروف رہے۔