اَلَمْ
یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ
ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ
رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ
كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰)
ترجمۂ کنز الایمان :کیا انہیں اپنے سے اگلوں کی خبر نہ آئی نو ح کی قوم اور عاد
اور ثمود اور ابراہیم کی قوم اور مدین والے اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں ان کے
رسول روشن دلیلیں ان کے پاس لائے تھے تو اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا
بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظالم تھے.
(پ10، التوبہ: 70)
قرآن پاک میں پچھلی قوموں کے واقعات کا تذکرہ کیا گیا تاکہ ہم
اس سے نصیحت حاصل کریں.
جن قوموں کی نافرمانیوں کی وجہ سےان پر اللہ پاک کا عذاب نازل
ہوا ان میں سے ایک قوم قوم عاد بھی ہے...
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے
درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔
یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَاء‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک
کا ’’ ہَباء‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم
دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ
کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند
آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت
تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔ اُن مؤمنین میں سے
ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے ۔جب قوم نے سرکشی کی
اور اپنے نبی حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی
اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ
ہوئی۔
(تفسیر صراط الجنان جلد 3 صفحہ356)
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜجَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی
نافرمانی کی اور ہر بڑےسرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔(پ12،ہود:59)
قوم عاد اپنی نافرمانیوں کے باعث لعنت کے حقدار ہوئے جیسا کہ
سورہ ہود آیت 60 ميں ہے...
وَ
اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ-اَلَاۤ
اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠
ترجمۂ کنز الایمان:اور
ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لوبیشک عاد اپنے رب سے منکر
ہوئے ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔(پ12،ھود،60)
تفسیر صراط الجنان میں ہے
یعنی دنیا اور
آخرت دونوں جگہ لعنت ان کے ساتھ ہے اورلعنت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب
بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر کیا
اس لئے ان کا اتنا برا انجام ہوا، سن لو! حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم عاد کے لئے رحمتِ الٰہی سے دوری
ہے۔
( تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۶۰ ، ۶ / ۳۶۷ )
قوم عاد اپنے نبی کی گستاخ اور اپنے نبی کی تکذیب کرنے والی
تھی انہوں نے اپنے نبی علیہ السلام کی نصیحتوں کو نہ مانا زمین میں فسادکیا اپنی
طاقت کے نشے میں مست رہے اونچی اونچی عمارتیں تعمیر لیں لیکن کوئی طاقت کوئی اونچی
عمارت ان کو اللہ پاک کے عذاب سے نہ بچا سکی..
چند ایک کے سوا اکثریت ایمان نہ لائی چنانچہ ان کو عذاب کے
ذریعے ہلاک کر دیا گیا اور ایمان والوں کو بچا لیا گیا
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا ۚ-وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے ہود اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو
اپنی رحمت فرما کر بچالیا اور انہیں سخت عذاب سے نجات دی۔(پ12،ہود:58)
تفسیر صراط
الجنان میں اس کے تحت فرمایا گیا کہ جب
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالیٰ کی بارگاہ سے
ان کے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا، جب ان کی ہلاکت اور ان پر عذاب کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان پر ایمان لانے
والوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی اپنی رحمت کے ساتھ عذاب سے بچا لیا اور قومِ
عاد کو ہوا کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ مسلمانوں پر رحمت اس طرح ہے کہ جب عذاب نازل
ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں
کو اس سے محفوظ رکھا اور ارشاد فرمایا کہ جیسے مسلمانوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا
ایسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں آخرت کے سخت عذاب سے بھی نجات دے گا۔ ( خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۵۸ ، ۲ / ۳۵۸ ، ملخصاً )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نیک اعمال نجات کا ذریعہ اور سبب ہیں
لیکن در حقیقت نجات صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اپنی رحمتوں سے وافر حصہ عطا فرمائے... آمین.