قومِ عاد
مقام"احقاف"میں رہتی تھی، جو
بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان
لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے
بھرے باغات ان کے پاس تھے، ان لوگوں کو
اپنی کثرت اور طاقت پر بڑا اعتماد تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر
دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان
کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی
سے اس طرح مٹا دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں نشان باقی نہ رہا۔
اس قوم کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے، یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار
تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود
علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا:
٭ مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر
کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلا دیا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔
٭حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان
سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے۔
٭ مگر اس شریر قوم نے نہایت بے
باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے کہہ
دیا کہ
اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ
نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الصّٰدِقِیْن۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں
اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
٭آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں
ہوئی، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے
کو ترس گئے۔
٭ اللہ تعالی نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین بدلیوں میں
سے کسی ایک بدلی کو پسند کر
لو۔"ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند
کر لیا اس خیال میں کہ کالی بدلی خوب بارش دے گی، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:" کہ اے
میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"مگر
٭ قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو
جھٹلایا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟"
ھٰذَا مَمارِضٌ مُمْطِرُنَا (پ26،احقاف:24)یہ تو بادل ہیں، جو ہمیں بارش دینے کے لئے آ رہا ہے۔"
٭ جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی
لاشیں زمین پر اس طرح پڑی ہوئی تھیں، جس
طرح کھجوروں کے درخت اُ کھڑکر زمین پر پڑے ہوں۔
سب تعریف اللہ عزوجل کے لئے ہیں
جو بلند و بالا ہے، سب خوبیوں والا ہے، پیدا کرنے والا اور لوٹانے والا ہے، اپنے ارادے کو پورا کرنے والا ہے اور کروڑوں
درود و سلام اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر، جس کا ذکر اللہ پاک نے خود بلند فرمایا۔
قومِ عاد کی
نافرمانیاں:
قرآن کریم میں ہے : ترجمۂ کنز
الایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے
آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے
ہو، اگر سچے ہو۔"( پ 8، الاعراف، 70)
قومِ عاد اپنے زمانے کی بہت
طاقتور قوم تھی اور حضرت سیّدنا آدم علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل سے اس قوم کا
تعلق تھا، یہ بت پرست، بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت سیّدنا ہود علیہ
السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر
انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا۔
قومِ عاد کی آندھی:
آخرکار عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہو گئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک
سالی کا دور دورہ ہو گیا، یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کے لئے ترس گئے، ایک جماعت نے کعبہ معظمہ میں جاکر دعائیں
مانگیں، لیکن اپنے نبی کے نافرمان اورگستاخ اور بے ادب تھے، اللہ عزوجل نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک
سرخ اور ایک سیاہ اور آواز آئی کہ ایک بدلی کو پسند کر و، انہوں نے کالی بدلی کو پسند
کیا، اس خیال سے کہ اس سے خوب بارش برسے
گی، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: کہ
اے میری قوم! اللہ عزوجل کا عذاب بدلی کی صورت
میں تمھاری طرف بڑھ رہا ہے، لیکن نافرمان
قوم نے کہا: کہاں کاعذاب اور کیسا عذاب؟ایک دم اس بدلی سے ایک آندھی آئی، جس نے اس
قوم کو فنا کر دیا، اس قوم کا ایک ایک بچہ
مر کر فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو اس قوم کی لاشیں اس طرح
زمین پر پڑی ہوئی تھیں، جس طرح درخت اُکھڑ
کر زمین پر پڑے ہیں، پھر اللہ پاک کی طرف
سے کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر
سمندر میں پھینک دیا۔(تفسیر الفتاوی، جلد
2، صفحہ 686، پارہ 8، الاعراف70)
درسِ ہدایت:
قران کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قومِ عاد جو بڑی طاقتور اور قد آور، ان کے پاس لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے باغات، پہاڑوں کو تراش کر انہوں نے گرمی اور سردیوں کے
لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے تھے، اپنی
طاقت پر بڑا اعتماد تھا، مگر اپنے کفر ، بداعمالیوں،
بدکاریوں کی نحوست سے ان لوگوں کو قہر ِالہی
اور عذابِ الہی نے پکڑ لیا، تو بھلا ہم
جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور
اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے،
انہیں لازم ہے کہ اللہ عزوجل اور رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، ورنہ قرآن پاک کی آیاتِ کریمہ ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی
تاثیر بربادی۔
قومِ عاداحقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن
میں ایک ریگستان ہے، قومِ عاد نے ز مین کو
فسق سے بھر دیا تھا۔
یہ لوگ بت پرست تھے، ان کے ایک بت کا نام صُداء، ایک کا صُمود اور ایک کاہباء تھا، اللہ
تعالی نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا،
ترجمۂ کنزالایمان:"اور عاد کی طرف ان کے ہم
قوم ہود کو ۔"(پارہ 12، سورہ ھود، آیت 50)
نبی کی تکفیر:
قومِ عاد کی نافرمانی میں سے نبی
کی تکفیر بھی ہے کہ انہوں نے نبی کی نافرمانی کی، حضرت ہود علیہ السلام نے (اپنی قوم) سے فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:"اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں؟"(پ 8، الاعراف:65)
اس پر قوم کے کافر سردار بولے،
ترجمہ کنزالایمان:"بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم
تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پ8، الاعراف:66)
قومِ ہود نے اپنے نبی کی تکفیر اور نافرمانی کی، جو ان کی ہلاکت کا سبب بنی۔
کفر پر اصرار:قومِ عاد نے
نافرمانی کرتے ہوئے کفر پر اصرار کیا، جب
ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی، ایک اللہ کی عبادت کرنے کا کہا، تو ان کی قوم نے کہا،
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
اپنے آباؤ اجداد کی
اندھی تقلید:
حضرت ہود علیہ السلام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام
میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آ کر سنا
دیتے، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ ہم ایک
اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں
چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ
جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
نعمتوں کی ناشکری:
اللہ نے قومِ عاد کو سلطنت اور
قوتِ بدنی عطا فرمائی تھی، چنانچہ شداد ابنِ
عاد جی بڑا بادشاہ انہیں میں ہوا، ان میں پست قد آدمی ساٹھ ہاتھ اور لمبا آدمی سو
ہاتھ کا تھا۔
بڑے قوت والے اور شب زور تھے، ان کا سرخیمہ کے برابر آنکھیں پرندوں کے گھونسلوں کی تھیں۔(پ8،
آیت69، سورہ اعراف کی تفسیر نور العرفان، صفحہ 191)
اللہ پاک قومِ عاد کو اپنی نعمتیں
یاد دلاتا ہوا قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے،
ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کا جانشین کیا اور
تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔(پ8،
اعراف: 69)
قومِ عاد نے اللہ کی نعمتوں میں
ناشکری کی اور کفر پر اَڑے رہے۔
مذاق اڑانا:
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم نے
مذاق اڑاتے ہوئے اور عناد کے طور پر یہ کہا:اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر
نہیں آئے، جو تمہارے دعوے کی صحت پر دلالت
کرتی، یہ بات انہوں نے بالکل غلط اور جھوٹ کہی تھی، کیونکہ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں جو معجزات
دکھائے تھے، وہ سب سے مکر گئے تھے۔"(بیضاوی،
ھود، تحت الآیۃ53)
قرآن پاک میں ان کی نافرمانیوں کو
بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا،
ترجمۂ کنزالایمان:"اور یہ عاد ہیں کہ اپنے ربّ کی آیتوں سے منکر ہوئے
اوراس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش، ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔(پ 12، ہود: 59)
قومِ عاد کی نافرمانیوں کے سبب
انہیں عذاب کی وعید سنائی گئی اور دنیا و آخرت میں لعنت فرمائی گئی، ترجمۂ
کنزالایمان:"اور ان کے پیچھے لگی، اس
دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن، سن لو بے شک
عاد اپنے ربّ سے منکر ہوئے ار ے دُور ہو ں عاد ہود کی قوم۔"(پ12، ہود: 60)
دوسری جگہ فرمایا گیا:
ترجمۂ کنزالایمان:"ضرور تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب پڑگیا۔"( پ 8،
اعراف، 71)اللہ پاک ہمیں اپنی نافرمانی
کرنے سے بچائے، ہمیشہ ہمیں اپنا فرمانبردار
رکھے۔آمین
قومِ عاد کا مختصر تعارف:
قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان علاقۂ یمن میں ایک ریگستان
ہے۔
قومِ عاد کی نافرمانیاں:
1۔قومِ عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔
2۔ دنیا کی قوموں کو اپنی جفا
کاریوں سے، اپنے زورِ قوت کے زعم میں
پامال کر ڈالا تھا۔
3۔یہ لوگ بت پرست تھے۔
4۔ان کے ایک بت کا نام صُداء، ایک کا صُمود اور ایک کاہباء تھا۔
اللہ عزوجل نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو
مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی،
اس پر وہ لوگ منکر ہوئے اور آپ کی تکذیب
کرنے لگے اور کہنے لگے:ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟چند آدمی ان میں حضرت ہود علیہ
السلام پر ایمان لائے، وہ تھوڑے تھے اور
اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے، ان مؤمنین
میں سے ایک شخص کا نام مرثد بن سعد بن عفیر تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی
تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی مضبوط عمارتیں
بنائیں، معلوم ہوتا تھا کہ انہیں گمان ہے کہ وہ دنیا میں
ہمیشہ ہی رہیں گے، جب ان کی نوبت یہاں تک
پہنچی تو اللہ عزوجل نے بارش روک دی، تین
سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں دستور یہ تھا
کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تو وہ لوگ بیتُ اللہِ الحرام میں حاضر ہوکر اللہ
عزوجل سے اس کے دفع کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ
کیا، اس وفد میں قیل بن عنزا اور نعیم بن
ہزال اور مرثد بن سعد تھے، یہ وہی صاحب
ہیں جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے، اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی
اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا نانہال قومِ عاد میں تھا،
اس تعلق سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی (گردونواح)
میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا، اس
نے ان لوگوں کا بہت اکرام کیا، نہایت خاطر
و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور
اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔
اس طرح انہوں نے عیش وعشرت میں ایک مہینہ بسر
کیا، معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو
راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ
ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی
ہے، اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے
اشعار دیئے، جس میں قومِ عاد کی حاجت کا
تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی، تو ان لوگوں کو یاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے
ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں
داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔
اس وقت مرثد بن سعد نے کہا: کہ
اللہ کی قسم! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، لیکن اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ
عزوجل سے توبہ کرو، تو بارش ہوگی اور اس
وقت مرثد نے اپنے اِسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ
جا کر دعا کی، اللہ عزوجل نے تین ابر بادل
بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قیل! اپنے اور
اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک ابر اختیار
کر، اس نے ابرِ سیاہ کو اختیار کیا، اس
خیال سے کہ اس سے بہت پانی برسے گا۔
چنانچہ وہ ابر قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو
دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس میں سے ایک
ہوا چلی، وہ ہوا اس شدّت کی تھی کہ وہ
اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں
سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند
کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس
نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں
کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں
پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد ایمان داروں کو ساتھ لے
کر مکۂ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ عزوجل کی عبادت کرتے رہے۔(بحوالہ
ترجمۂ کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان، پارہ 8، الاعراف:صفحہ 301)
قوم عاد انہیں قوموں میں شامل ہے،
جو اللہ پاک کی نافرمانی کرکے عذابِ الہی
میں گرفتار ہوئے، یہ قوم مقامِ "احقاف"
میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے
درمیان ایک بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ
اعلی کا نام عاد بن عاص بن ارم بن سام بن نوح ہے، قوم کے لوگ اسے عاد کے نام سے پکارتے تھے۔یہ لوگ
بتوں کی پوجا کرتے تھے اور بہت بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام
کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، لیکن
اس قوم کے لوگوں نے تکبر وسرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کی نافرمانی کی
اور ایمان نہ لائے۔(پ8، الاعراف: 70)جب ان لوگوں نے اپنی سرکشی کو نہ چھوڑا تو اللہ پاک نے
ان کی طرف عذاب بھیجا اور تین سال تک بارش نہ ہوئی، سخت قحط میں مبتلا ہوگئے۔اس قوم کا ایک دستور(role) تھا کہ جب ان کے پاس کوئی مصیبت یا بلا آتی تو یہ کعبہ معظمہ میں
جا کر خانہ کعبہ میں دعا ئیں مانگتے تو ان کی مصیبتیں دور ہوجاتیں، تو ان میں سے ایک جماعت کعبہ معظمہ گئی، انہی میں
مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو
مؤمن ہو چکا تھا، لیکن اپنی ایمان کو
چھپایا ہوا تھا، جب اُس جماعت نے خانہ کعبہ میں دعائیں مانگنا شروع کیں تو مرثد
بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا اور وہ اپنی قوم سے تڑپ کے بولا:اے
میری قوم! جتنی دعائیں مانگنی ہیں، مانگ
لو، پر یاد رکھو، جب تک اللہ پاک کے بھیجے
گئے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان
نہ لاؤ گے، تب تک تمہاری کوئی دعا قبول
نہیں ہوگی، قوم کو جب ان کے مؤمن ہونے کا
پتہ چلا تو انہوں نے مرثد بن سعد کو مار مار کر زخمی کردیا، اللہ پاک نے اس قوم پر تین بدلیاں(clouds) ظاہر کیں اور آواز آئی"کہ اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم کے
لئے ان تین بدلیوں میں سے ایک بدلی چُن لو" اس قوم نے کالی بدلی کو چُن(chose) لیا کہ شاید اس میں سے بہت بارش برسے اور خوش ہوگئے کہ اب قحط سالی
دُور ہو جائے گی۔
حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا
کہ اے میری قوم!یہ ابر بادل تمہاری طرف
اللہ پاک کا عذاب ہے، اُس قوم نے اِس
کا انکار کیا اور کہا: کیساعذاب اور کہاں کا عذاب؟ ہٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا
۔ (پ26،احقاف:24)" تو بادل
ہے، جو ہمیں بارش دینے والا ہے۔"
یہ بعد پچھم (east)سے شروع ہوا ، جو آبادی کی طرف بڑھتا ہوا آ رہا تھا، قوم سوچ رہی تھی، آج ہم پر خوب بارش ہوگی، لیکن جب وہ بادل آبادی میں آئے تو تیز آندھی چلی،
جس کی وجہ سے ان کے اُونٹ سمیت ان کے
سواری بھی تیز آندھی کے شکار آلہ بن گئے
اور ان کی عمارتوں کو چیر کر اُڑا کر لے گئی، سات رات اور آٹھ دن تک یہ آندھی جاری رہی اور
قومِ عاد کے سب لوگ ہلاک ہوگئے۔اللہ پاک نے پرندوں کے جُھنڈ بھیجے، جو اِن کی لاشوں کو سمندر میں پھینک آئے، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ کر چند
مؤمنین کو لے کر جو ان پر ایمان لائے تھے، مکہ مکرمہ چلے گئے اور ساری زندگی وہیں عبادت
میں گزار دی۔اب ہمیں کیا عبرت ملی کہ اُن کے پاس ہر نعمت تھی، بڑے بڑے محلات، ہر طرح کے پھل اور ہر طرح کی سبزیاں تھیں، لیکن یہ قوم اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک ہو گئی، قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:
ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم
ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے اُنہیں اُن کے
کئے پرگرفتار کیا۔ " (پ9، الاعراف96)(عجائب
القران مع غرائب القران)اللہ پاک ہمیں ایمان پر خاتمہ عطا فرمائے۔ آمین
قومِ عاد حضرت ہود علیہ السلام کی
قوم تھی ، یہ "احقاف "میں رہتی تھی،
یہ بہت بُری اور بدکردار قوم تھی، حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو اِسلام کی طرف بلانے کی بہت کوشش کی، مگر اس قوم نے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت
ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور کفر کو نہ چھوڑا، حضرت ہود علیہ السلام بار بار اس قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر انہوں نے کوئی فکر نہ کی، آخر عذابِ الٰہی آنا شروع ہوگیا، اس کی کُچھ نشانیاں ظاہر ہوئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، یہ لوگ بھوک کی
وجہ سے نڈھال ہوگئے تھے، ہر طرف خُشک سالی
اور قحط پھیل گیا، اس زمانے میں یہ ہوا
کرتا تھا کہ جب کوئی مصیبت آتی تو لوگ دعا مانگتے تو بلائیں دور ہوجاتیں، چنانچہ کُچھ لوگ مکہ معظمہ گئے، ان لوگوں میں ایک شخص مسلمان بھی تھا، جس نے اپنے ایمان کو قومِ ہود سے چھپایا ہوا
تھا، جب ان لوگوں نے دعا مانگنا شروع
کی، تو اس کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا تو اس
نے کہا: کہ اے میری قوم! تم جتنی دعائیں مانگو، تمہاری دعائیں جبھی قبول ہوں گی، جب تم حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لاؤ گے، قومِ عاد کے لوگوں نے اس شخص کو بہت مارا اور اپنی دعاؤں میں مصروف ہوگئے
تو پھر اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک
سفید، ایک سُرخ اور ایک کالی، غیب سے آواز
آئی:کسی ایک کو چُنو! تو لوگوں نے کالی بدلی کو چُنا، وہ سمجھتے تھے کہ اس سے بارش
برسے گی، چنانچہ وہ کالا بادل قومِ عاد کی
آبادیوں کی طرف چل پڑا، جب وہ وہاں پہنچ
گیا تو ایک دم اِتنی شدید قسم کی آندھی آئی کہ ہر چیز کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی،
حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو بہت
سمجھایا، مگر یہ لوگ کہتے تھے:کہ کیسا
عذاب اور کہاں کا عذاب؟ اس آندھی نے تو
جانوروں، درختوں حتیٰ کہ ان کے محلات کو
بھی نہ چھوڑا اور اس قوم کا ہر فرد آندھی سے فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو ہر بندہ اس طرح پڑا تھا، جیسے کُھجور کے درخت جڑ سے اُکھڑ کر زمین پر
آگئے ہوں۔اللہ ہمیں ایسے عذابات سے محفوظ رکھے۔آمین
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پانچ قسموں پر
اترا، (1) حلال(2) حرام(3)محکم اور (4) متشابہ(5) اور پانچ مثالیں، لہذا حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام
مانو، محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر
ایمان لاؤ، مثالوں سے عبرت پکڑو۔( مشکوۃ المصابیح ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث 172،اسلامی کتب خانہ)
قرآن کی بہت ساری مثالوں میں سے
ایک مثال قومِ عاد بھی ہے۔
قومِ عاد دو ہیں، عادِ اولٰی:یہ
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِ ثانیہ:یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔( تفسیر
صراط الجنان، جلد سوم، ص 351)
میرا موضوع عادِ اولٰی ہے۔قرآن
میں بہت جگہوں پر اس کی نافرمانیوں اور اس قوم پر آنے والے عذاب کا تذکرہ ہے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قوم عاد کی
ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ السلام کو ان کے طرف بھیجا، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم!تم
اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل
کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر قوم کے
کافر سردار بولے: ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جو جھوٹا گمان کرتے ہیں اور
تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں جانتے، کفارکا حضرت ہود علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ" تمہیں
بے وقوف سمجھتے ہیں، جھو ٹا گمان کرتے ہیں"
انتہائی درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت
ترین جواب دیا جاتا، مگر حضرت ہود علیہ
السلام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا، اس میں
شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی، چنانچہ فرمایا: اے میری قوم! بیوقوفی کا میرے
ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین
کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور
تمہارے لئے قابل اعتماد خیر خواہ ہوں۔(صراط الجنان، ج سوم، 352)
مزید یہ کہ "جب آپ علیہ
السلام کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنا دیتے، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ
کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت
ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے
ہو تو وہ عذاب لے آؤ، جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا:بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔"(صراط الجنان، ج سوم، 352)
قومِ عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان لوگوں کی
مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے
بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو
تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے؟ کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں
کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالحہ اور
نیکیاں کرتے رہیں۔(عجائب القرآن مع غرائب
القرآن، ص 109)
حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں
بعد اللہ تعالی نے ایک قوم پیدا فرمائی،
جسے اس زمانے میں "قومِ عاد" کہا جاتا تھا، یہ لوگ صحت مند، طاقت ور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمر والے تھے، لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے، چنانچہ بتوں کی پوجا کرنے، لوگوں کا مذاق
اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا اور لمبی زندگی
کی اُمید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔(بحوالہ سیرت الانبیاء)
نعمتوں کی بہتات کے باوجود میں
کفر و شرک کی اور فسق و فجور کی وبا پھیلی ہوئی تھی، چنانچہ یہ لوگ توحیدِ الہی، عبادتِ خداوندی اور اطاعتِ رسول چھوڑ کر مختلف
ناموں سے موسوم اپنے ہی تراشیدہ بتوں کی پوجا میں مشغول تھے، اس کے علاوہ یہ سرِ راہ چھوٹی چھوٹی عمارتیں
بناتے، ان پر بیٹھ کر لوگوں سے چھیڑخانی
اور مذاق مسخری کرتے اور زندگی کی موج مستیوں سے لُطف اندوز ہونے کے لئے مضبوط محل
تیار کرتے تھے، ان کے طرزِ عمل سے یہ لگتا
تھا جیسے انہیں کبھی مرنا نہیں ہے، بلکہ
ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔(سیرت الانبیاء)
قو مِ عاد نے ایک موقع پر انہی الفاظ میں یہ کہہ کر بھی حضرت ہود علیہ السلام (جو کہ اس
قوم کے نبی علیہ السلام تھے) کی رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا ربّ کوئی رسول
بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو اُتار دیتا، چونکہ تم فرشتے نہیں ہو، اس لئے ہم تمہیں انکار کرتے ہیں، یعنی تمہاری رسالت کا انکار کرتے ہیں ، قرآن عظیم
میں ہے:
قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ
مَلٰٓىٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:" بولے ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اُتارتا تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اُسے نہیں مانتے ۔( پارہ 24، حٰم السجدہ، آیت14)
قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے
انکار کر کے شرک اور گناہوں پر اصرار کو
ترجیح دی۔
قومِ عاد کے بُرے
افعال، نافرمانیاں:
1۔کفر کرنا۔
2۔ بتوں کی پوجا کرنا۔
3۔ کفر و شرک اور گنا ہوں میں
اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرنا۔
4۔ گناہوں پر اصرار۔
6۔توبہ استغفار سے انکار۔
7۔سرکش و نافرمان لوگوں کو اپنا
پیشواء ماننا۔
8۔اللہ تعالی کے
9۔ نبی اور مسلمانوں کو اذیت دینا۔
10۔ان کی تحقیر کرنا اور انہیں بُرا
بھلا کہنا۔
11۔خدا کی قدرت کے مقابلے میں
اپنی طاقت و قوت پر مغرور ہونا۔
12۔لوگوں پر ظلم و ستم۔
13۔بڑی بے دردی کے ساتھ لوگوں کی
گرفت کرنا۔
14۔راہ گیروں کو ستانا۔
15۔لمبی لمبی امیدیں رکھنا۔
16۔ نعمتوں کی ناشکری کرنا، وغیرہ
قومِ عاد حضرت ہود علیہ
السلام کی قوم کو کہا جاتا ہے، یہ قوم مقامِ "احقاف" میں رہتی
تھی، جو عمان و حضر الموت کے درمیان ایک
بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام
عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح تھا، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلٰی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے۔(عجائب القرآن، ص106)
چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی، آپ نے اپنی قوم سے فرمایا:
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا
کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8،اعراف: 65)
قومِ عاد کی
نافرمانیاں:
پیغامِ الہی سن کر قومِ عاد نے آپ
علیہ السلام کو جھٹلایا اور نافرمانیوں کا
سلسلہ شروع کر دیا، دینِ حق کی دعوت سن کر کافر سردار بولے:
اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا
لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:" بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، بے شک ہم تمہیں
جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پ8،اعراف:66)
ان کی اس طرح سخت کلامی اور بے
ادبی کے باوجود آپ علیہ السلام نے انتہائی
حلم اور تحمل کے ساتھ جواب دیا:" مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ ہے، میں تو اللہ کا رسول ہوں۔"
لیکن قومِ عاد نے پھر بھی آپ کی
رسالت کا انکار کیا، آپ کے معجزات کے منکر ہو گئے، چنانچہ کہا:
قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ
مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ
بِمُؤْمِنِیْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:" بولے اے
ہود! تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں
کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں ۔ " ( پ 1 2 ، ہود:53)
آخر کار قومِ عاد نے آپ کو جھٹلا
دیا اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور کہنے
لگے:لاؤ اگر تم سچے ہو جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔" حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:بے شک تم پر تمھارے ربّ
کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔
عذابِ الہی:
اس قوم کی مستقل نافرمانیوں اور
دینِ حق کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذابِ الہی آیا، تین سال تک قحط سالی اور بارش نہ ہوئی، اس قوم کے کچھ لوگ مکہ گئے اور دعا کی تو اللہ
نے تین قسم کے بادل بھیجے، انہوں نے اس سے
سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ سیاہ بادل خوب
برسے گا، مگر اس با دل سے ایسی ہوا چلی کہ
اُونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا کر کہیں سے
کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ گھروں میں داخل ہوگئے، مگر ہوا کی تیزی سے نہ بچ سکے، اُس نے
دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک و برباد کر دیا۔حضرت ہود علیہ السلام
اور مؤمنین کو قوم سے جدا ہو گئے تھے، اس
لئے سلامت رہے اور آخر عمر شریف تک مکہ میں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔اللہ کریم سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں پچھلی قوموں سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے
دین کے احکامات کو بجا لانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین
قومِ عاد احقاف میں رہتی
تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا
ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست اور بہت
بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے
اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے
اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر
اڑے رہے، حضرت سیّدنا ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے
رہے، مگر گناہوں کی حرص میں مبتلا اس قوم
نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارشیں نہیں ہوئی اور
ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، چنانچہ یہ قوم مکۂ معظمہ دعا مانگنے گئی، اس قوم میں حضرت مرثد بن سعد بھی تھے، جو مؤمن تھے، جب انہوں نے اپنا ایمان ظاہر کر دیا تو قومِ عاد
کے غنڈوں نے ان کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ نے سفید، سرخ اور سیاہ رنگ کی تین بدلیاں بھیجیں، آسمان سے ایک آواز آئی
کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنے لئے ان میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"تو ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ
اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ
قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا، قومِ
عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:" اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی
اَبر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو
جھٹلا دیا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟
ترجمۂ کنزالایمان:"یہ بادل ہے، جو کہ ہم پر برسے گا۔"(پ26، احقاف:24)
اس آندھی سے یہ لوگ ہلاک و برباد
ہو گئے، یہ آندھی آٹھ دن تک چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا ایک شخص بھی نہ بچا، پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ
کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں
نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔
ہمیں بھی چاہئے کہ اللہ و رسول
عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ
بچتے رہیں، اپنی زندگی اطاعتِ الہی میں
بسر کریں، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں
جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ درس دے رہی ہیں کہ
نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی ہے۔
زمین بوجھ سے میرے پھٹتی نہیں ہے
یہ تیرا ہی تو ہے کرم یا الہی
(وسائلِ بخشش)
(حرص، المدینۃ العلمیہ، ص 56
تا60)
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا
اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵)
ترجمۂ کنز العرفان: اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا ۔ ( ہود نے)
فرمایا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو
کیا تم ڈرتے نہیں ۔
عاد سے کون مرادہے؟
تفسیر صراط الجنان
{ وَ اِلٰى عَادٍ : اور قومِ عاد کی طرف۔} قوم عاد دو ہیں : عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور
عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے
درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ
اُولیٰ مراد ہے۔ ( جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ۳ / ۵۸ ،
روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ۳ / ۱۸۵ )
عاد اولی کی نافرمانیاں
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی
قوم کا واقعہ:
اس آیت اور
اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس
کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر
سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت
کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔کفار کا حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے
وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں
‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت
ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے
اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی
چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ
العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا
ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ
تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف
سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا
اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز
بنایا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پرایمان لاؤ اور
اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ
اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کےمقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے
پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم
ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ
دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم
ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک
تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔
(حوالہ صراط الجنان جلد سوم صفحہ
351سورہ اعراف آیہ نمبر 65)
عاد ثانی(قوم ثمود)
کی نافرمانی
وَ
یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ
اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ(۶۴)
ترجمۂ کنز العرفان :اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی
کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے تو اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی رہے
اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ قریب کا عذاب تمہیں پکڑ لے گا۔(پ12،ھود:64)
تفسیر صراط الجنان
{ وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ
اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً :
اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے۔} قومِ ثمود نے
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزہ طلب کیا تھا۔
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو پتھر سے
بحکمِ الٰہی اونٹنی پیدا ہوئی ، یہ اونٹنی ان کے لئے حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت پر نشانی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا معجزہ تھی۔ اس آیت میں اس اونٹنی کے متعلق اَحکام ارشاد فرمائے گئے
کہ اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ِعذاب
ہوجاؤگےاور مہلت نہ پاؤ گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۴ ، ۲ / ۳۶۰ ،
ملخصاً )
فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ
اَیَّامٍ ؕ-ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ(۶۵)
ترجمۂ کنز
العرفان: تو انہوں نے اس کے پاؤں کی پچھلی
جانب کے اوپر والی ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں تو صا لح نے فرمایا: تم اپنے گھرو ں میں
تین دن مزید فائدہ اٹھالو۔ یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔(پ12،ھود: 65)
تفسیر صراط الجنان
{ فَعَقَرُوْهَا : تو انہوں نے اس کے پاؤں کے اوپر
ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔} قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی اور بدھ کے دن انہوں نے اس اونٹنی کی ایڑیوں کے
اوپر ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔ اس کے بعد حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: اپنے گھروں میں تین دن یعنی جمعہ
تک جو کچھ دنیا کا عیش کرنا ہے کرلو، ہفتے کے دن تم پر عذاب آجائے گا اورا س کی
علامت یہ ہے کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے ، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن
یعنی جمعہ کو سیاہ ہو جائیں گے، پھر ہفتے کے دن عذاب نازل ہوگا۔یہ ایک وعدہ ہے جو
جھوٹا نہ ہوگا ، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ ( خازن،
ہود، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ۲ / ۳۶۰ ، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ص ۵۰۴ ، ملتقطاً ) (
صراط الجنان جلد 4 سور ھودآیت 64 اور 65)
اللہ ربُّ العزت ارشاد فرماتا ہے:
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا
رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠(۶۰)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور
اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلےاور ان کے
پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لو بےشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے
ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔
(پ12، ہود، 59-60)
قومِ عاد دو ہیں:
عادِ اولیٰ:حضرت ہود علیہ السلام
کی قوم ہے۔
عادِ ثانیہ:حضرت صالح علیہ السلام
کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں۔
یہاں عادِ اولیٰ مراد ہے۔
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضرِموت کے درمیان علاقہ یمن میں
ایک ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست تھے،
مندرجہ بالا آیت میں اِس قوم کی کچھ
نافرمانیاں بیان کی گئی ہیں۔(صراط الجنان،
ج3، ص 351)
ربّ کی آیتوں کے
منکر:
اللہ تعالی نے حضرت ہود علیہ
السلام کو مبعوث فرمایا، آپ علیہ السلام
نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت
پرستی اور ظلم وجفا کاری سے روکا، لیکن وہ
نہ مانے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو جھٹلانے لگے۔(صراط الجنان، ج3، ص355)
نبی کی نافرمانی
اور توہین:
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم
سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر
قوم کے سردار بو لے:"ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور
تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے۔"(صراط الجنان، ج3، ص352)
اپنے ربّ کا انکار:
یہ لوگ بت پرست تھے ، ان کے ایک
بت کا نام "صُداء" اور ایک کا" صُمُود"اور ایک
کا"ہباء" تھا، اس قوم نے سرکشی کی، حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد پھیلایا اور ستم گاریوں
میں زیادتی کی۔(صراط الجنان، ج3، ص356)
غرضیکہ اس قوم نے اپنے نبی علیہ
السلام کو اذیت پہنچائی اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ہٹ درمی اور سرکشی
میں اندھے ہوگئے، اللہ کریم نے اُن پر
عذاب نازل فرمایا، یہ عذاب ایک سیاہ بادل کی صورت میں تھا، لوگ اِس بادل کو دیکھ کر خوش تھے کہ یہ خوب بارش
برسائے گا، مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس
شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے
اور دروازے بند کئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اور ان کو ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں
نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔(صراط الجنان، ج3، ص357)بے شک ایسوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ، اللہ کریم ہمیں ان
سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین