قومِ عاد حضرت ہود علیہ السلام کی
قوم تھی ، یہ "احقاف "میں رہتی تھی،
یہ بہت بُری اور بدکردار قوم تھی، حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو اِسلام کی طرف بلانے کی بہت کوشش کی، مگر اس قوم نے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت
ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور کفر کو نہ چھوڑا، حضرت ہود علیہ السلام بار بار اس قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر انہوں نے کوئی فکر نہ کی، آخر عذابِ الٰہی آنا شروع ہوگیا، اس کی کُچھ نشانیاں ظاہر ہوئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، یہ لوگ بھوک کی
وجہ سے نڈھال ہوگئے تھے، ہر طرف خُشک سالی
اور قحط پھیل گیا، اس زمانے میں یہ ہوا
کرتا تھا کہ جب کوئی مصیبت آتی تو لوگ دعا مانگتے تو بلائیں دور ہوجاتیں، چنانچہ کُچھ لوگ مکہ معظمہ گئے، ان لوگوں میں ایک شخص مسلمان بھی تھا، جس نے اپنے ایمان کو قومِ ہود سے چھپایا ہوا
تھا، جب ان لوگوں نے دعا مانگنا شروع
کی، تو اس کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا تو اس
نے کہا: کہ اے میری قوم! تم جتنی دعائیں مانگو، تمہاری دعائیں جبھی قبول ہوں گی، جب تم حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لاؤ گے، قومِ عاد کے لوگوں نے اس شخص کو بہت مارا اور اپنی دعاؤں میں مصروف ہوگئے
تو پھر اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک
سفید، ایک سُرخ اور ایک کالی، غیب سے آواز
آئی:کسی ایک کو چُنو! تو لوگوں نے کالی بدلی کو چُنا، وہ سمجھتے تھے کہ اس سے بارش
برسے گی، چنانچہ وہ کالا بادل قومِ عاد کی
آبادیوں کی طرف چل پڑا، جب وہ وہاں پہنچ
گیا تو ایک دم اِتنی شدید قسم کی آندھی آئی کہ ہر چیز کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی،
حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو بہت
سمجھایا، مگر یہ لوگ کہتے تھے:کہ کیسا
عذاب اور کہاں کا عذاب؟ اس آندھی نے تو
جانوروں، درختوں حتیٰ کہ ان کے محلات کو
بھی نہ چھوڑا اور اس قوم کا ہر فرد آندھی سے فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو ہر بندہ اس طرح پڑا تھا، جیسے کُھجور کے درخت جڑ سے اُکھڑ کر زمین پر
آگئے ہوں۔اللہ ہمیں ایسے عذابات سے محفوظ رکھے۔آمین